توہین آمیز خاکے اور عالمی امن

October 30, 2020

تحریر: ہارون مرزا۔۔ ۔راچڈیل
فرانس میں آزادی اظہار رائے کے نام پر نبی آخر الزمان محمد مصطفیٰﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی تشہیر سے جہاں پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے وہیں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے متنازع بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے مسلمان ممالک کے سربراہان کی طرف سے نہ صرف فرانسیسی صدر کے بیان کی بھر پور مذمت کی جارہی ہے بلکہ سفارتی سطح پر ایک جنگ کا آغاز ہو گیا ہے ترک صدر طیب اردگان نے سب سے پہلے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے اسلا م مخالف لابی کیلئے مسلمانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیا ہے کویت ‘ سعودیہ ‘ پاکستان ایران سمیت کئی مسلم ممالک کی طرف سے فرانسیسی سفیروں کو طلب کر کے سفارتی سطح پر احتجاج اور مستقبل میں اسلام دشمن ایجنڈے کے تدارک کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ خلیجی ممالک میں بائیکاٹ کی مہم عراق، تیونس اور فلسطین میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں فرانس نے بلاشبہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی حرمت کی نہ صرف توہین کی گئی بلکہ مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کر کے دنیا کے امن کو بھی خطرے میں ڈالا ہے خلیجی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑنے لگی ہے۔ کویت کے بعد قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی مسلمانوں نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے جس سے فرانسیسی معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا 50بڑے کویتی شاپنگ مالز سے فرانسیسی اشیاء کے کائونٹرز ہی خالی کر دیے گئے ہیں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب چند یوم قبل پیرس کے شمال مغرب میں واقع کونفلان سینٹ اونوریئن میں ایک چیچن مسلمان نوجوان نے آزادی اظہار رائے کے نام پر طالبعلموں کو گستاخانہ خاکے دکھانے پر ایک معلون استاد کو چھریوں کے وار قتل کیا جسے پولیس نے جواب میں فائرنگ کر کے شہید کر دیا فرانسیسی حکومت دنیا کا امن خطرے میں ڈالنے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے باوجود مکمل ڈھٹائی اختیار کیے ہوئے ہے فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین کی طرف سے جاری ایک بیان میں پاکستان اور ترکی کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ دونوں ممالک کے پارلیمان میں فرانس کے خلاف قراردادوں کی منظوری فرانس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے برابر ہے، فرانس کا یہ غیر سنجیدہ رویہ اور ہٹ دھرمی مستقبل میں حالات کا دھارا کس جانب موڑتی ہے یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا مگر پوری امت مسلمہ اپنے نبی کریمﷺ کی محبت میں فرانس سے بائیکاٹ نظر آرہی ہے چند برس قبل بھی ایسی ہی گستاخانہ حرکت سامنے آئی تھی جس میں نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی ہوئی تو پورے عالم اسلام میں غصے کی لہر دوڑ گئی تھی مسلمان دنیا کے شدید دبائو کے باعث خاکے شائع کرنیوالوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی گستاخانہ خاکوں کی پہلی اشاعت کے بعد جو رد عمل سامنے آیا تھا اس کے پیش نظر ایسا کرنے والوں نے اپنے آپ کو کچھ عرصے کیلئے روکا ضرور لیکن وقفے وقفے سے وہ اپنے خباثت بھرے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) کی طرف سے گستاخانہ خاکوں پر ایک مضبوط موقف ماضی میں سامنے آچکا ہے جس میں کہا گیا پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے جس سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور مذہبی امن خطرے میں پڑ جائیگا2011توہین آمیز کلمات کہنے والی ایک آسٹریلین خاتون کیخلاف فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے اسے 480یورو کا جرمانہ عائد کیا موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ سمیت عالم اسلام کو متحد ہو کر ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے ورنہ اسلام فوبیا کے نتائج انتہائی بھیانک نکل سکتے ہیں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا مسلمان ممالک کے سربراہان کی طرف سے اسلام مخالف تقاریر اور گستاخانہ خاکوں کی حمایت پر فرانسیسی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی شان میں گستاخی اور فرانسیسی صدر کی سرپرستی سے مسلمانوں کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو کئی مرتبہ ٹھیس پہنچائی گئی مگر مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد واتفاق کے فقدان کے باعث گستاخوں کو دوبارہ جسارت کرنے کا موقع ملتا ہے ضرورت اس امر کی ہے پوری مسلم دنیا متحد ہو کر اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنیوالوں کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کرے حضور اکرم رحمت العالمین ہیں وہ ساری دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں دنیا کو مذہبی تصادم سے بچانے کیلئے انکا احترام لازم اور گستاخی پر کڑی سزائوں کا قانون منظور کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔