نوجوان نے اپنے استاد کو کیوں قتل کیا؟

November 02, 2020

2002 میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں پیدا ہونے والا عبداللہ عام نوجوانوں کو طرح دل میں کئی خواب سجائے زندگی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ خانہ جنگی اور بد امنی سے اسے نفرت تھی، کیونکہ اسی عفریت نے اس کے ماں باپ کو چیچنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حالات نے عبداللہ کے خاندان کو فرانس کی سرزمین پر پناہ گزین کی حیثیت سے جگہ دلوائی تو اس نے جی لگا کر پڑھنا شروع کردیا۔

وہ خوشگوار زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ لیکن پیرس کی گلیوں میں عبد اللہ کی زندگی اس وقت بے چینی کا شکار ہو گئی جب اس کے اسکول ٹیچر سیموئل نے گستاخانہ خاکے بنائے۔ گرچہ سیموئل جغرافیہ کا استاد تھا، لیکن وہ اپنے مضمون پر فوکس کرنے کے بجائے مسلمان بچوں کے جذبات مجروح کرتا رہتا تھا۔ کبھی بلیک بورڈ پر گستاخانہ خاکے بناتا، کبھی زبانی بچوں کو اسلام کے خلاف اُکساتا۔ کلاس کے مسلم بچوں نے اس بات کی شکایت اپنے والدین سے کی، جس پر والدین نے انتظامیہ کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، لیکن کچھ نہ ہوا۔ عبداللہ کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔

ایک دن استاد نے کلاس میں آنے کے بعد پھر سے گستاخانہ خاکے بنائے اور اس بار طلبہ سے بھی بنانے کا کہا۔ یہ دیکھ کر عبداللہ کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ وہ اندر سے ٹوٹ گیا۔ فرانس کی چکاچوند ترقی اور اسبابِ عیش و عشرت میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ اپنے عشق کے ہاتھوں بے بس ہوچکا تھا۔ وہ عشق کے "عین" "شین" سے گزر کر "قاف" کو بھی عبور کرچکا تھا۔ عقل سے ماوراعشق نے عبداللہ کو بے خود سا کردیا۔ اسی لمحے اس نے استاد کی زندگی ختم کرنے کا ارادہ کیا۔

16 اکتوبر 2020ء کی تاریخ تھی اور جمعے کا دن تھا۔ کلاس کے اختتام پر عبداللہ نے خنجر اٹھا کر استاد کا تعاقب شروع کردیا۔ شام 5 بجے کے قریب موقع پا کر اس نے استاد سیموئل کی گردن دبوچ لی اور آناً فاناً اس کا سر قلم کر دیا۔ سیموئل کی گردن زمین پر پڑی تھی اور عبداللہ اُسے دیکھ کر پرسکون تھا ۔ اسی لمحے سائرن کی گونج میں پولیس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ انہیں دیکھ کر عبداللہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں خنجر اور ایک چھوٹی پسٹل تھام رکھی تھی۔

نوجوان عبداللہ سے پولیس اس قدر خوفزدہ تھی کہ ایک قدم آگے نہیں بڑھ رہی تھی، پھر عشق کی آخری حد بھی پوری ہوگئی۔ عبداللہ نعرۂ تکبیر بلند کر کے آگے بڑھا، جوں ہی اس نے تکبیر ختم کی پولیس کی پسٹل سے گولی نکل کر اس کے سر میں پیوست ہوگئی۔ عبداللہ کی روح ’’رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا‘‘ کی صدا لگا کر جسم سے کوچ کر گئی۔

پیرس کی سرزمین جہاں جانا کسی بھی انسان کا خواب ہوتا ہے، جہاں کی چمک دمک دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے، جہاں کی سج دھج سے کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اسی سرزمین پر عبداللہ سرخرو ہوگیا تھا۔ عشقِ حقیقی نے اس شام دنیاوی لذتوں کو ٹھوکر مار دی۔ عبداللہ کا پیغام دنیا کے نام تھا کہ جب تک گستاخانہ خاکے بنانا ختم نہ کیے جائیں گے،تب تک ہزاروں عبداللہ جیسے نوجوان پیرس، جرمنی، امریکا و یورپ کی سرزمینوں میں اپنی زندگیاں قربان کرتے رہیں گے۔ غازی علم الدین شہید سے لے کر عبداللہ تک کی تاریخ اس بات کی کھلی گواہی ہے!