جون ایلیا... روایت شکن شاعر

November 08, 2020

امروہہ ایک قصبہ ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ بھی ہے۔ برصغیر کے معروف شاعر جون ایلیا 14دسمبر 1931ء کو اسی قصبے کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ علامہ شفیق حسن ایلیا کے بیٹے جون اصغر یعنی جون ایلیا کے گھر کا ماحول حد درجہ علمی تھا۔ ان کے والد اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ اردو زبان کے نامور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

جون ایلیا بچپن سے ہی رومان پسند اور نرگسی طبیعت رکھتے تھے۔ اپنے والد صاحب کے ساتھ رہ کر زبان اور شاعری کی باریکیاں تو وہ سیکھ ہی چکے تھے اور پھر وہ حادثہ بھی گزرا جب شاعری کی دیوی نے انھیں اچک لیا۔ وہ تہذیب اور جن اقدار کے پروردہ تھے، ایسے میں ان کا شاعر، عالم یا فلسفی ہونا کچھ حیرت کی بات نہ تھی۔ آٹھ برس کی عمر سے ہی وہ شعر کہنے لگ گئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب وہ پہلی محبت میں بھی گرفتار ہوئے:

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لو سُرخی میرے رُخسار کی

21برس کی عمر میں جون ایلیا باقاعدہ شعر کہنے لگے۔ جون کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عشق و محبت کے موضوعات کو اردو غزل میں دوبارہ لے آئے۔ غزل کا روایتی مطلب بے شک ’عورتوں سے باتیں کرنا‘ ہو لیکن عالمی تحاریک، ترقی پسندی، جدیدیت، وجودیت اور کئی طرح کے ازموں کے زیرِ اثر جون ایلیا کی نسل کے بیشتر شاعروں کے ہاں ذات و کائنات کے دوسرے مسائل حاوی ہو گئے۔ جون نے کسی حد تک نظرانداز شدہ رومانوی مضامین کو اپنی غزل کا موضوع ضرور بنایا لیکن وہ روایت کے رنگ میں نہیں رنگے، بلکہ انھوں اس قدیم موضوع کو ایسے منفرد انداز سے برتا کہ ان کی آواز پرانی ہونے کے ساتھ ہی ساتھ بیک وقت نئی بھی ہے۔

جون ایلیا کو اقدار شکن، نراجی اور باغی کہا جاتا ہے۔ ان کا حلیہ، طرزِ زندگی، حد سے بڑھی ہوئی شراب نوشی اور زندگی سے لااُبالی رویے سے بھی اس کی غمازی ہوتی تھی۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طرزِ زندگی کو اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیا کہ شخص اور شاعر مل گئے اور من تو شدی و تو من شدی والی کیفیت پیدا ہو گئی۔

اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھےلیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتے کے طور پر اسے قبول کرلیا۔ 1957ء میں انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہوگئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کا واضح ثبوت تھی، جس کے باعث انھیں بڑے پیمانے پذیرائی حاصل ہوئی۔ جون ایک انتھک مصنف تھے لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہیں کیا جاسکا۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ اس وقت منظرِعام پر آیا، جب جون 60برس کی عمر کے ہوچکے تھے۔ ان کی شاعری کا دوسر امجموعہ ’’یعنی‘‘ ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا جبکہ تیسرا مجموعہ ’’گمان‘‘ اس کے اگلے سال یعنی 2004ء میں شائع ہوا۔ ان مجموعات کے بعد ’’لیکن‘‘ 2006ء اور ’’گویا‘‘ 2008ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ جون ایلیا کے مختصر مضامین کا مجموعہ ’’فرنود‘‘ 2012ء میں منظرِ عام پر آیا۔

فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعہ کربلا پر جون ایلیا کا علم کسی انسائیکلوپیڈیا سے ہرگز کم نہ تھا۔ اس علم کا نچوڑ ہمیں ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ جون ایلیا ایک ادبی رسالے سے بطور مدیر وابستہ رہے، جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی، جن سے بعد میں انھوں نے شادی کی۔ ان کے ہاں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی اور پھر تنہائی کے باعث جون ایلیا کی حالت ابتر ہوگئی۔ وہ طویل علالت کے بعد 8نومبر 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

جون ایلیا کی زندگی میں دو انسان ایسے تھے جنہوں نے انہیں کمرشلی مشہور کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان میں سے ایک سلیم جعفری تھے، جنہوں نے ان سے مشاعرے پڑھوائے جبکہ خالد احمد انصاری نے جون ایلیا کا لکھا ہر کاغذ محفوظ کیا اور کتابیں بناتے گئے۔ پہلی کتاب کے بعد جو کچھ بھی جون ایلیا کے نام سے چھپا وہ سب خالد انصاری کا جمع کیا ہوا تھا۔ زاہدہ حنا کو لکھے گئے خطوط سمیت بہت کچھ ایسا ہے جو انہوں نے اب بھی نہیں چھاپا۔

حکومت پاکستان نے 2000ءمیں جون ایلیا کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ اگر دیکھیں تو جون ایلیا کی زندگی معاشرے، روایات، معیارات اور عام ڈگر سے کھلی عداوت و بغاوت سے عبارت نظر آتی ہے۔ ان کی یہی عداوت و بغاوت ان کی شاعری کو دیگر سے منفرد و ممتاز بناتی ہے۔ جون ایلیا نے اپنی زندگی میں کہا تھا:

فکر مر جائے تو پھر جون کا ماتم کرنا

ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی