جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے

November 15, 2020

ارسلان باسط

پیارے بچو یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے ، جس میں معاشرے کے لیے عبرت ناک سبق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک باپ نے پیسے کی ہوس میں اپنے جوان بیٹے کو ہمیشہ کے لیے کھو دیاتھا۔پچپن سال پہلےکراچی کی سڑکوں پر آج کی بہ نسبت کم گاڑیاں چلا کرتی تھیں اور ٹریفک کا اژدہام بھی اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا ۔بڑی بسوں کی تعداد زیادہ تھی جب کہ اسکوٹر ، موٹر سائیکل اور کاریں گنتی کی نظر آتی تھیں۔

اس کے باوجود گرومندر کا چوراہا جو دو چورنگیوں پرمشتمل تھا وہاں اکثر و بیشتر حادثات ہوتے تھے اور یہ خطرناک چوراہاسمجھا جاتا تھا۔1966 کی ایک شام کو گرومندرکے چوراہے پرٹریفک کا ایک دردناک حادثہ پیش آیا جس میں اسکوٹر پر سوار دو نوجوان شدید زخمی ہوئے۔ انہیں فوری طورپر جناح اسپتال لے جایا گیا جن میں سے ایک نوجوان نے اسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا جب کہ دوسرا نوجوان جسےسر میں شدید چوٹیں آئی تھیں موت و زیست کی کشمکش میں تھا۔ ڈاکٹر اس کی زندگی بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے لیکن ایکسرے رپورٹ کے مطابق اس کا دماغ بری طرح مجروح ہوا تھا۔ اس دور میں سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی جیسےجدید ریڈیالوجیکل ٹیسٹس کی سہولتیں پاکستان میں متعارف نہیں ہوئی تھیں۔ نوجوان کے دماغ کا آپریشن انتہائی ضروری تھا۔

ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اسپتال کے نیورو سرجن کو بلانے کے لیے ان کےگھر فون کیا۔ وہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر دو گھنٹے قبل ہی اسپتال سے نکلے تھے۔ ان کے گھررابطہ کرنے پر معلوم ہو اکہ وہ اپنے پرائیوٹ کلینک پر ہیں۔اس دوران زخمی نوجوان کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ مذکورہ ڈاکٹر نے ان کے گھر سے پرائیوٹ کلینک کا نمبر لے کر وہاں انہیں فون کیا۔مذکورہ سرجن ، جن کاشمار ملک کے ماہرنیورو سرجن کےطور پر ہوتا تھا، اس وقت بھاری فیس ادا کرنے والے مریضوں کو چیک کررہے تھے اوران کی تعداد کے پیش نظر اس وقت ان کا کلینک سے اٹھنا مشکل تھا۔ انہوں نے ڈیوٹی ڈاکٹر سےاپنی مجبوری کا عذربتا کر اسپتال آنے سے انکار کردیا۔

اس عرصہ میں نوجوان کی حالت مزید بگڑ گئی، جسےدیکھ کر ڈیوٹی ڈاکٹر نے اسپتال کے ڈائریکٹر کو فون کرکے انہیں اس صورت حال سے مطلع کیا۔ ڈائریکٹر نے ان سے نیوروسرجن کے کلینک کا نمبر لے کر انہیں خود فون کیا، وہ اس وقت وہ آخری مریض کو دیکھ رہے تھے۔ڈائریکٹر صاحب نے انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچنے کی ہدایت کی۔ وہ کلینک سے اٹھ کر اسپتال پہنچے اوراپنے عملے کے ساتھ فوراً آپریشن تھیٹر میں آگئے اور نوجوان کو آپریشن تھیٹر منتقل کرنے کی ہدایت کی۔سرجری کے آلات اور آپریشن ٹیبل تیار کی گئی جس پربے ہوش نوجوان کو لٹا یا گیا جو اس وقت اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔

نیورو سرجن آپریشن کی تیاری کرکے آپریشن ٹیبل پر گئے اورانہوں نے جیسے ہی نوجوان کا چہرہ دیکھا تو وہاں موجود ڈاکٹروں اور عملے کو ان کی دردناک چیخ سنائی دی جس کے بعد وہ بے ہوش ہوکر وہیں گر گئے۔ اس دوران زخمی نوجوان دم توڑ چکا تھا۔سرجن صاحب کو بہ مشکل ہوش میں لایا گیا ۔ہوش میں آنے کے بعد وہ اٹھے اور نوجوان کی لاش سےدیوانگی کے عالم میں لپٹ گئے اور چیخیں مارمار کرروتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے لالچ کی وجہ سے اپنے جوان بیٹے کو کھو دیا۔اسپتال کا سارا عملہ آپریشن تھیٹرمیں جمع ہوگیا اور سرجن صاحب سے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ میرے تین بیٹے تھے اور تینوں ہی لندن میں طب کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

مرنے والا نوجوان میرا سب سے بڑا بیٹا تھا اور دماغی امراض میں مہارت کی ڈگری لے کر چندہفتے قبل ہی وطن واپس آیا تھااور کراچی کے ایک اسپتال میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی اور وہاں سے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ چند روز پیشتر ہی اس نے اسکوٹر خریدی تھی جس پر دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا تھا۔ اگر میں پیسے کی ہوس کا شکار نہ ہوتا اور بروقت اسپتال پہنچ کر اس کا آپریشن کردیتا تو اس کی زندگی بچ سکتی تھی۔ میں نے جو بویا تھا وہی کاٹا،مجھے قدرت نے لالچ کی سزا دی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی کہانی انتہائی عبرت ناک اور سبق آموز تھی،بیٹے کی جواں مرگی کے بعد ان کے مزاج میں خاصی تبدیلی آئی تھی۔ شقی القلبی کی جگہ دل میں رحم دلی پیدا ہوگئی تھی۔ پرائیوٹ کلینک بند کردیا تھا اور اسپتال میں آنے والے ایمرجنسی کیسز کے لیے ہمہ وقت خود کو تیار رکھتے تھے۔ 1982 میں ان کا بھی انتقال ہوگیا اور انہیں شاہ راہ فیصل کے پاس آرمی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

ان کے دو بیٹے اسی اسپتال میں دماغی امراض کے شعبے میں اپنی ریٹائرمنٹ تک معالج خصوصی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اسی پیشے سےوابستہ ہیں لیکن وہ اپنے بھائی کی جوان موت کو اب تک نہیں بھول سکے۔