نارمالائزیشن کمیٹی پاکستانی فٹ بال کے معاملات کو حل کرنے میں ناکام؟

November 24, 2020

دنیا کا سب سے بڑا کھیل فٹ بال پاکستان میں دگر گو صورتحال کا شکار ہے، ملک کے بڑے شہروں میں منتظمین اور کھلاڑی اپنی مدد آپ اس کھیل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا سے تعلق رکھنے والے210 ممالک ہیں۔

ان سب ممالک میں عالمی سطح پر فٹ بال میں شرکت کرنے والے ممالک پر فیفا کی حاکمیت ہے اس کا اپنا قانون ہے، فیفا سے تعلق رکھنے والے تمام ممالک کی فٹ بال فیڈریشنز یا ایسو سی ایشنز کے عہدیدار فیفا کے قانون کے مطابق ہی منتخب کئے جاتے ہیں جس میں کسی بھی ملک کی براہ راست مداخلت کا کوئی عنصر نہیں۔فیفا رولز کی خاص بات یہ ہےاگر کوئی بھی ملک فیڈریشن کے انتخابات یااس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو فیفا اس ملک کی رکنیت معطل کردیتی ہے۔

ماضی میں پاکستان سمیت کئی ممالک کی رکنیت معطل کی جاچکی ہے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے عہدوں کی کھینچا تانی اور اس کھیل پر مختلف اداروں کے قبضے کی کوشش دیکھتے ہوئے فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے پہلے پاکستان پر مختصر عرصے کا پابندی لگائی اور پھر اس کے بعد پاکستان فٹ بال کے معاملات کو چلانے کیلئے فیڈریشن کے انتخابات کی نگرانی کیلئے نارملائزیشن کمیٹی کا اعلان کیا۔

پاکستان میں نارملائزیشن کمیٹی کا کیا کردار ہے اور یہ کس طرح کام کررہی ہے اس پر کافی بحث ہوچکی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے اس ملک کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں بڑے سے لیکر چھوٹے سے چھوٹا ادارہ کوئی بھی کام دی گئی مدت میں مکمل نہیں کرتا ہے جس کو جوذمہ داری دی جاتی ہےوہ اپنا کام ٹالتا رہتا ہے اور مہینوں کا کام کئی کئی سالوں میں مکمل کرتا ہےلیکن مراعات اور تمام فوائد حاصل کرنا نہیں چھوڑتا۔

یہی کردار فیفا کی جانب سے پاکستانی فٹ بال کے معاملات کو سدھارنے کیلئے نارملائزیشن کمیٹی کے افراد ادا کررہے ہیں۔ کمیٹی نے کس حد تک فیفا کی جانب سے دیئے گئے ٹارگٹ کو پورا کیا ہے۔ اس کے بارے میں بہت سی مبہم باتیں ہیں۔

فیفا کے دیئے گئے کام اور ان کی تکمیل کے حوالے سے فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے سربراہ حمزہ خان سمیت تمام اراکین میڈیا کو براہ راست کچھ بھی بتانے سے گریزاں ہیں۔ اندرون خانہ کیا معاملات چل رہے ہیں ان کے بارے میں بھی کچھ نہیں پتہ؟ نارملائزیشن کمیٹی کن کن لوگوں کو قومی فٹ بال کے معاملات چلانے کیلئے اپائنٹ کرتی ہے اور ان کو کتنا کتنا مشاہرہ دیا جاتا ہے یہ سب کچھ صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔

پاکستان فٹ بال کے معاملات کو خاص طور پر میڈیا سےچھپایاجارہا ہے تاکہ پاکستانی عوام کو ان کے معاملات پتہ نہ چلے سکیں۔ دوسری جانب ملک میں فٹ بال کے کھیل کی بقاء کیلئے پی ایف ایف کے سابق عہدیداران، آرگنائزرز، فٹ بالر اور اس کھیل سے پیار کرنے والے بھی متحرک ہیں تاکہ پاکستان میں اس کھیل کے مقابلے منعقد ہوتے رہیں۔ سندھ فٹ بال ایسو سی ایشن کے سابق نائب صدر اعظم خان نے اندرون سندھ فٹ بال کی ترقی کا برسوں سے ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے اور بغیر کسی امداد کے وہ اپنے طور پر حیدرآباد اور دیگر جگہوں پر فٹ بال کو قائم رکھنے کیلئے رواں دواں ہیں۔

گزشتہ ہفتے انہوں نے آل حیدرآباد شیخ حسن محمد عرف بابو حسن میموریل فٹ بال ٹورنامنٹ کا شاندار میلہ سجایا اور اپنے شہر، اور کراچی کے فٹ بال سے تعلق والے افراد کو مدعو کیا۔ ان مہمانوں میں حیدرآباد شہر کے دونوں رکن قومی اسمبلیز بھی شامل تھے جن کو اعظم خان نے حیدرآباد آباد شہر کے اجڑے ہوئے کھیلوں کے میدانوں کی بدترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عنقریب معروف اسپورٹس آرگنائزر چاچا رضا اللہ خان کے نام سے محبوب گرائونڈ جبکہ شہید پولیس اہلکاروں کے نام سے پولیس گراؤنڈ میں ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جائے گا۔

فائنل کے اختتام پر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلیز صابر قائم خانی اور صلاح الدین نے کہا کہ حیدرآباد ہر کھیل میں اپنا اور اپنے شہر کا نام پیدا کرنے والے کھلاڑیوں کا شہر ہے، حیدرآباد کے گرائونڈ کی تزئین و آرائش کے لئے خصوصی بجٹ سے کام کرایا جائے گا ، ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب میں صابر قائم خانی، صلاح الدین، حیسکو کے انجینئر ظہیر شیخ، محمود علی قائم خانی، شفیق میمن اور انٹرنیشنل فٹبالر علی نواز، سلیم پٹنی، علی بہار اور دیگر نے ونر ٹیموں اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی قریشی الیون کی ٹیم کے کپتان میں ٹرافیاں تقسیم کیں۔

تقریب میں انٹرنیشنل فٹبالر علی نواز، علی بہار، سلیم پٹنی، راشد صدیقی، شکیل کانگا، دارا ظفر، رانا یوسف سمیت اسپورٹس یوتھ نے شرکت کی۔