صحافت کے پرچم کی حفاظت

November 26, 2020

حرف و حکایت … ظفرتنویر
یہ تین گرایوں کی ملاقات تھی، تینوں کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے،ایک عرصہ کے بعد ہونے والی اس ملاقات میں سبھی کچھ تھا ،دکھ اور درد بھی، ہنسی اور مذاق بھی اور جدوجہد کا حوصلہ بھی،جدوجہد اپنے وطن کی خدمت کرنے کی اور حوصلہ راستے میں آنے والی تمام سختیوں کو جھیلنے کا، میر شکیل الرحمان کی ضمانت منظور ہونے سے دو روز قبل جب برادرم سہیل احمد (عزیزی) اور طاہر سرور میر انہیں ملنے گئے تو انہوں نے میر شکیل الرحمان کو اسی طرح پایا جس طرح وہ عام ملاقاتوں میں ہوتے تھے ، نہ ان کے چہرے پر پریشانی کے کوئی آثار تھے اور نہ ہی ان کے لبوں پر کوئی شکوہ یا شکایت ،وہ آج بھی اسی طرح چاک و چوبند اور اپنے معاملات سے آگاہ تھے جو ان کی عادت ہے، ظاہر ہے حوصلہ اور جوانمردی سے حالات کا مقابلہ کرنا ایسے ہی نہیں آتا، یہ صحیح ہے کہ یہ انہوں نے اپنے والد میر خلیل الرحمان کی جدوجہد سے ہی سیکھا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں تو لنڈی کوتل سے کراچی اور گلگت سے برنالہ تک پاکستان کے صحافی ان کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے ہر روز نئے سرے سے مظاہرہ کرنے کو تیار ہوتے تھے۔ میر شکیل الرحمان کو آٹھ ماہ تک بغیر کسی جرم کے بند رکھا گیا اور مسلسل آٹھ ماہ پاکستان کے صحافی اس جبر کے خلاف سراپا احتجاج رہے، کرتے بھی کیوں نہ ایم ایس آر نے اپنے ان ہی صحافیوں اور کارکنوں کو اپنا خاندان سمجھا اور ان کے حقوق کا خیال رکھا۔ طاہر سرور میر بتاتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے میں جنگ چھوڑ کر ایک دوسرے ادارہ میں چلا گیا وہاں مجھے ملازمت کرتے چار پانچ برس ہوگئے تھے کہ ایک دن جنگ کے اکائونٹس ڈپارٹمنٹ سے فون آیا کہ ’’آپ کے کچھ واجبات نکلتے ہیں آکر لے جایئے‘‘ میں حیران تھا کہ کون سے واجبات کیوں کہ جنگ چھوڑتے ہوئے میں اپنا حساب بے باک کرکے بقایاجات لے کر آیا تھا، طاہر سرور کا کہنا ہے کہ جب میں جنگ دفتر پہنچا تو مجھے تین لاکھ روپے سے زائد کی رقم کا چیک ہاتھ میں تھما دیا گیا اور جب میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ یہ کس لئے تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کے جانے کے بعدساتویں ویج بورڈ میں طے کئے گئے ضوابط کے تحت اس رقم پر آپ کا حق بنتا ہے ایک طرف یہ ہے اور دوسری طرف بعض ایسے اخبار نویس بھی ہیں جو مشکل دیکھتے ہی ان صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں جن صفوں پر کسی چھتری کا سایہ ہو۔ طاہر سرور میر بات کرتے ہوئے یا کچھ لکھتے ہوئے کہیں نہ کہیں سے کوئی راگ کوئی تان کوئی سُر ڈھونڈ کر اس میں شامل کرلیتے ہیں ایسے ہی صحافیوں کے بارے میں وہ راگ چھیڑتے ہوئے اکثر ان کے عجیب و غریب نام رکھ دیتے ہیں جہاں تک جنگ / جیو کے صحافیوں کا تعلق ہے یہ صحیح ہے کہ جو بھی اس ادارہ میں آیا اپنی مرضی سے ہی کہیں اور گیا تو گیا ادارے نے اسے کبھی نہیں نکالا۔ بڑی بڑی فہرستیں بنائی گئیں ایم ایس آر پر بڑا زور ڈالا گیا، بڑا دبائو ڈالا گیا کہ اس کا کالم بند کردو، اس کا پروگرام روک دو، فلاں کو نکال دو لیکن کوئی بھی ایسا کچھ نہیں کرسکا۔ ایم ایس آر اپنے کارکنوں اپنے صحافیوں اور دبائو ڈالنے والوں کے درمیان ایک دیوار بن گیا اور ایسی دیوار جس میں 240 دن کی قید بھی کوئی شگاف نہیں ڈال سکی۔ سہیل احمد (عزیزی) کہتے ہیں کہ یہ تو پرانی چیز کو نہیں چھوڑتے پرانے ساتھیوں کو کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ بقول عزیزی گوجرانوالہ میں میر شکیل الرحمان کا آبائی مکان بھی اسی طرح پڑا ہے اور فائیو سسٹرز (پانچ بہنیں) کے نام سے ابھی تک وہیں ہے اس سے بھی لگتا ہے کہ انہیں پیسے کی بجائے اپنے ورثہ کی قدر ہے وہی ورثہ وہی ثقافت جو جیو کی سکرین سے جھلکتی اپنے ہموطنوں کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے، حوصلہ کی ضرورت تو اب ان کو بھی ہے جو چھتری کے نیچے بیٹھے جو منہ میں آتا ہے بولتے جاتے ہیں ایسے میں ایک ’’انڈر چھتری‘‘ صحافی نے جب طاہر سرور میر سے گلہ کیا کہ یار کیا دور آگیا ہے کہ ہم جوں ہی اپنے مقتدر ادارہ کا نام لیتے ہیں ہمارے پروڈیوسر کی قینچی باہر نکل آتی ہے۔ ’’طاہر اتنی زبان بندی تو پہلے نہ تھی‘‘۔ طاہر ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ جس ریاست میں یہ حالت ہو اس ریاست میں صحافت کے پرچم کی حفاظت کرنا کتنا کٹھن ہوگا۔