یہود و ہنود دشمنی؟

November 28, 2020

اِن دنوں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں کہ اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ پاکستانی وزیراعظم، وزیر خارجہ اور حکومتی ترجمانوں کی طرف سے بار بار اِس نوع کے بیانات جاری کئے جاتے ہیں کہ ہم کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔

وہ ایک قابض ریاست ہے، ایک ناسور ہے، ایسا خنجر ہے جو عربوں یا عالمِ اسلام کے سینے میں گھونپا گیا تھا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم پر شدید عالمی دبائو ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لو کیونکہ پاکستان عالمِ اسلام کا انتہائی اہم اور واحد جوہری طاقت کا حامل ملک ہے جس کی مسلم اُمہ میں بڑی قدر و منزلت ہے۔

اِس لئے بڑی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اسرائیل کے وجود کی سلامتی کیلئے اُسے تسلیم کر لے مگر ساتھ ہی یوٹرن لیتے ہوئے یہ ہانکی جاتی ہے کہ ہم پر کسی نوع کا کوئی عالمی دبائو نہیں ہے، کسی نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ تم اسرائیل کو تسلیم کر لو، اِس لئے ہم اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔

کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ چاہے ساری دنیا اسرائیل کو تسلیم کر لے مگر ہم کبھی اِس قابض ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے، یہ ہمارا اصولی موقف ہے اور کبھی پینترا بدلتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کا قاتل ہے، جس نے پون صدی سے فلسطینیوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔

جب تک ہمارے فلسطینی بھائیوں کے حقوق بحال نہیں کئے جاتے اور اُن کی بھی اِسی طرح کی متوازی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، تب تک ہم اُسے تسلیم نہیں کریں گے یعنی بالواسطہ طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کو اُن کا حق دے دے تو پھر ہم بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔

یہ تو ہے پاکستانی سرکار کا موقف، رہ گئی پاکستان کی سیاسی قیادت، دینی و مذہبی طبقات یا پاکستانی میڈیا، تقریباً پچانوے فیصد اِسی سوچ کے حامل ہیں اور جو اِس کے برعکس سوچتے ہیں۔

وہ بھی عوامی دبائو یا رائے عامہ کے پریشر کے باعثیہی سمجھتے ہیں کہ اِس حوالے سے کسی قسم کی نرم بات نہ کی جائےورنہ پاکستانی مذہبی قیادت اور بنیاد پرست میڈیا ہمارے لتے لیں گے، ہمیں یہود و ہنود کا ایجنٹ ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گے۔

ہمارے پاکستانی مسلم سماج میں ایک معمولی اقلیتی سوچ یہ ہے کہ اسرائیل سے ہماری براہِ راست کوئی لڑائی یا دشمنی اور نہ مفادات کا کوئی ٹکرائو ہے تو پھر یہ نام نہاد دشمنی کیسی؟

یہ نفرت اِس قدر زیادہ ہے کہ ضیاء دور میں یو این کا ایک عالمی وفد پاکستان آ رہا تھا جس کے ایک ممبر کا نام اسرائیل تھا، پاکستانی دفتر خارجہ نے مطالبہ کر دیا کہ یا تو یہ وفد پاکستان نہ آئے یا اِس ڈیلیگیٹ کا نام فہرست سے خارج کیا جائے، عالمی ادارے اِس سوچ پر حیرت زدہ ہو ئے جو پاکستان میں اسرائیل کے متعلق پائی جاتی ہے۔

اِس نوع کی سوچ رکھنے والے ایسے پاکستانی بھی ہیں جو بین الاقوامی معاملات کو اصولوں کی بنیاد پر نہیں، محض مفادات کے زیر اثر دیکھتے یا سوچتے ہیں۔ اُن کا بیانیہ یہ ہے کہ اسرائیل اگرچہ حجم کے لحاظ سے کافی چھوٹا ملک ہے لیکن عالمی اثر و رسوخ ، جدید ٹیکنالوجی اور ترقی میں بہت آگے ہے۔

ہمارا روایتی حریف بھارت اُس کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر بھرپور فائدے اُٹھا رہا ہے، ہم نے خواہ مخواہ کی دشمنی پال کر سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں کیا ہے لہٰذا نیشنل انٹرسٹ یا عوامی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اسرائیل کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرتے ہوئے اپنے ملک کے فائدے کا سوچیں۔

اِن دنوں اِس نوع کی بحثیں اس لئے بھی تیز ہو گئی ہیں کہ حال ہی میں تین اسلامی ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین اور پھر سوڈان نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے قومی مفادات کو اُمہ کے مفادات پر ترجیح دی ہے اور اب اِس سب سے بھی بڑھ کر سب سے اہم عرب ملک بھی اسرائیل کے بہت قریب چلا گیا ہے۔

یہ خبر بھی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے کہ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا ہے، جس میں سعودی قیادت کیساتھ اُن کی طویل ملاقات ہوئی ہے، ملاقات کے حوالے سے گو تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں مگر عالمی حالات پر نظر رکھنے والوں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اِسے سعودی ایران دشمنی کے تناظر میں بھی دیکھا یا سمجھا جا سکتا ہے۔ حقائق کو ہم درست کہیں یا غلط مگر اُن کا منہ نہیں چڑا سکتے۔

ایک وقت تھا جب اسرائیل یا یہود سے امن و دوستی کی بات کرنے والوں کو قابلِ گردن زدنی سمجھا جاتا تھا مگر اب صورتحال اِس قدر بدل چکی ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا بےمعنی ہونے کو ہے۔ حالیہ برسوں کے عالمی حالات میں پاکستان جس تیزی کے ساتھ غیراہم ہوا ہے، اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی نے ہمیں دنیا میں بےتوقیر کیا ہے۔

ہم قدامت پرستی میں پھنسے لوگ بدلتی دنیا کے ساتھ چلنے سے قاصر ہیں، اگر ہم نےتلخ زمینی حقائق کا ادراک نہ کیا تو نفرت و تشدد کی شاہکار پالیسی ہمیں مزید سفارتی تنہائی کا شکار کر دے گی۔ ہم یہود و ہنود کے خلاف راگ الاپتے رہیں گے لیکن مہذب دنیا میں گیریژن اسٹیٹ کے طور پر پہچانے جائیں گے۔

اگر ہم نے حقائق کا درست ادراک نہ کیا تو آج متحدہ عرب امارات نے ہمارے شہریوں پر جو پابندیاں لگائی ہیں، اِس نوعیت کی پابندیاں لگانے کا فرانس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی سوچ سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)