آخر سچ کیا ہے؟

January 11, 2021

چلیں مان لیتے ہیں کہ سب جھوٹے اورآپ سچے ہیں۔ آپ کے خلاف سب کہانیاں من گھڑت، مفروضوں اور بہتان پر مبنی ہیں۔ آپ جو بھی کہتے ہیں سچ ہی توکہتے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ دیانت دار ہیں اور باقی اگلے پچھلے سب چور، ڈاکو، رسہ گیر، قبضہ مافیا کے اہلکار ہیں۔ مان لیتے ہیں آپ کی حکومت پر جو آئے دن نت نئے بیڈ گورننس، بد انتظامی، نااہلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں‘ یہ سب کچھ میڈیا کا ہی کیا دھرا ہے یا سیاست دانوں کی ملی بھگت؟ مان لیا آپ ہمیں ہرروز ایک نیا خواب دکھاتے اورامید دلاتے ہیں۔ پھر ہم اس خواب کی تعبیر کے خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں اور اسی امید کے ساتھ جئے جاتے ہیں کہ آپ سچے باقی سب جھوٹے ہیں۔ ایل این جی کی مہنگے داموں خریداری ہو یا شوگر مافیا کی اجارہ داری، یوٹیلیٹی سٹورز پر صرف ایک آئٹم ناقص گھی کی اونچے داموں خریداری میں ستر کروڑ کادن دہاڑے ڈاکا ہو یا گندم بحران پیدا کرکے غریب کو بھوکوں مارنے کا سیٹھ مافیا کا کرشمہ ساز منصوبہ یا جلتی پر تیل چھڑکنے کا پٹرول بحران ہو اور اس بحران میں حکومتی مشینری اور اس کے کل پرزے شامل ہوں یا ادویات کی مہنگے داموں فروخت میں آپ ہی کے مشیر، وزیر ملوث ہوںیہ سب جھوٹ ہی تو ہے ، آخر سچ کیا ہے؟ جب آپ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہونے والی دن دگنی رات چوگنی ترقی کے نتیجے میں گزشتہ سال کی نسبت برآمدات میں بیس فیصد سے زائد تاریخ ساز اضافے کے ڈونگرے برساتے ہیں اورتعمیراتی شعبےکو ایمنسٹی سکیم میں توسیع کے اعلانات کرتے ہیں اور اسی دن ایل این جی، پٹرول، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی آتش بازی کرکے جشن مناتے ہیں تو پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے۔ یہ کیسی گڈ گورننس ہے کہ شدید سردی کی حالت میں گیس کی عدم دستیابی کے باعث عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوں ا ور سوئی گیس کی لائنوں سے نکلنے والی ہوا کے بل بھی زور زبردستی سے وصول کئے جارہے ہوں اوران انہیں کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوکہ گزشتہ دو ماہ سے غریبوں کے چولہے گیس کو ترس رہے ہیں لیکن بل پہلے سے بھی زیادہ بھیجے جارہے ہیں آخر ایسا کیوں؟ کوئی صاحب اقتدار، کوئی صاحب اختیار، کوئی صاحب انصاف اس ڈاکے کا نوٹس کیوں نہیں لے رہا اور کیوں نہیں پوچھتا کہ گیس مافیا اتنا بے لگام کیوں ہوگیا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی گیس کی بجائے ہوا کے بل وصول کئے جارہا ہے۔ آخر اربوں روپے کی کرپشن کا یہ پیسہ کون کھا رہا ہے؟ کون ہے اس کا حصے داراور کس کی جیبوں میں بھتے کی اس رقم کا حصہ جارہا ہے؟ صاحبان اقتدار واختیار !خلق خدا بڑی بے بسی سے یہ سب بھگت رہی ہے۔ وہ اداروں کو بھتہ بھی دے رہی ہے، ایل پی جی، ایل این جی مافیا کے ہاتھوں لٹ بھی رہی ہے لیکن کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔ آخر یہ کس جرم کی سزا ہے کہ ایک کمرے کے دورہائشیوں کے بے نامی گیس کا بل ایک ہزار ماہانہ سے زائد بھی ادا کیا جائے اور چولہا بھی نہ جلے اور چولہا جلانے کی خاطر متبادل گیس کے سلنڈر اس سے دوگنا قیمت پر بھی خریدنا پڑیں؟ سرکار کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پندرہ بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا ایک شخص جو دو کمروں کا کرایہ سات آٹھ ہزار روپے ماہانہ ادا کررہا ہو اور گیس کی بجائے ہوا کا بل بھی ادا کرے اور چولہا جلانے کے لئے ایل پی جی کا اضافی بھتہ بھی دے ‘وہ کیسے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزار سکتا ہے؟ مان لیا آپ جو کچھ بھی کہتے ہیں، سچ ہی کہتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی الہٰ دین کا چراغ تو نہیں کہ جسے رگڑا تو ہر طرف سکون ہی سکون ہو لیکن اس بجھتے چراغ کو ذرا صحیح طریقے سے استعمال کیجئے آپ نے تو الہٰ دین کے چراغ کی بجائے عوام کو ہی رگڑا لگا دیا ہے۔ اب بات چیخوں سے قبر کے سکون تک پہنچ گئی ہے۔ سرکار ہمارے ناتواں کندھے آپ کے ان گنت احسانات کا بوجھ اٹھانے سے بالکل قاصر ہیں، آپ جو کہتے ہیں مان لیا سچ ہے لیکن پھر آپ ہی بتائیے کہ جب ہر طرف دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور آپ ایک صفحے پر بھی ہیں اورصفحے کے دونوں رخ ایک ہی سبق پڑھ رہے ہیں تو پھرعوام میں اتنی بے چینی، غصہ، نفرت کیوں ہے؟ کیوں وہ دہائی دیتے ہیں کہ اس سرکار کی ایک بھی کل سیدھی نہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ جب سے آپ کی سرکار آئی ہے آپ سے ایک پنجاب پولیس ہی سنبھالی نہیں جارہی ۔ پہلے آئی جی پر آئی جی تبدیل ہو رہا تھا۔ اب سی سی پی او لاہور۔ آپ ایک مہا دیانت دار ڈھونڈھ کر لاتے ہیں ،تعریفوں کے ایسے پل باندھتے ہیں کہ جیسے ٹیپو سلطان کا دور لوٹ آیا ہو۔ پھر اسی ٹیپو سلطان کو اپنوں ہی کے ہاتھوں رسوائی سے دو چار کرا دیتے ہیں اور بد سے بدترین کو لا کر کہا جاتا ہے کہ یہ بندہ ایمان دار ہے۔ سرکار! آپ کی اپنی سلطنت کے نئے بہادر خان وزیر داخلہ کی ناک تلے دن دہاڑے آپ ہی کی جماعت کے ایک نوجوان طالب علم کارکن اسامہ ستی کو اسلام آباد پولیس نے بے دردی سے جعلی مقابلے میں شہید کر دیا اور ایک ہی دن بعد بلوچستان میں ہزارہ برادری کے گیارہ بے گناہ کان کنوںکو شہید کر دیا گیا کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ان تمام اعمال کا بوجھ کس کے کندھوں پر آئیگا؟ اور جب اپنا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈالا جائے گا تو دباؤ یقیناً انہی کندھوں پر آئے گا جن کندھوں کے سہارے آپ سرکار چل کر آئے۔ سرکار ہمیں آپ کے آنے جانے سے کوئی شکوہ شکایت نہیں بس اتنا خیال کیجئے کہ اب ہم سے زندگی کا یہ بوجھ اٹھایا نہیں جائے گا۔ جسم و روح میں اتنی جان اور حوصلہ تو باقی رہنے دیجئے کہ چھ بلوچ بہنوں کو یہ دل دہلا دینے والا فقرہ نہ دہرانا پڑے کہ ”ہم چھ بہنیںاپنے بھائی کا جنازہ اٹھائیں گی؟“