اسلامی معاشرے میں تعلیم و تربیت کی اہمیت

January 15, 2021

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جواُن سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے،اُنہیں پاک صاف بنائے، اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے،جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔(سورۂ آل عمران ۱۶۴)

نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے: ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا۔ ‘‘(ابن ماجہ؍ دارمی) آپﷺ میں وہ تمام صفاتِ عالیہ موجود تھیں جو ایک معلمِ کامل میں مطلوب ہیں،آپﷺ کمالِ علم،خلقِ عظیم،اُسوۂ حسنہ ،کمال شفقت ورحمت جیسی صفات سے متصف تھے، آپ ﷺ کی تعلیم وتربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی،جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ’’اور تمہیں اُن باتوں کا علم دیا جو تم نہیں جانتے تھے۔(سورۃالنساء) آپ ﷺ کی عالی صفات میں کمالِ علم،عظیم حکمت،اعلیٰ اخلاق،شاگردوں کے ساتھ شفقت ورحمت اُن کی تعلیم وتربیت کے لیے عمدہ اور مفید اُسلوب کا استعمال اور اس کی خبر گیر ی وغیرہ جیسے اوصاف اپنے کمال کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔لہٰذا جو مدرس واُستاذ آپﷺ کا نائب بننا چاہے اور فن تدریس میں کمال تک پہنچنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معلّمِ اعظم نبی کریم ﷺ کی صفات وکمالات جو فن تدریس سے متعلق ہیں ،ان سے آشنا ہو اور پھر آپ کے نقشِ قدم پر چلے۔

پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معلم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیا فرمایا:’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن خود سیکھے اور دوسروں کو سکھائے‘‘(مشکوٰۃ)ایک حدیث میں ہے:’’خیر کی تعلیم دینے والے اُستاد کے حق میں دنیا کی ہر شے دعا گو ہوتی ہے، حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں بھی‘‘ (ترمذی) ایک اور جگہ فرمایا: ’’دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، وہ سب ملعون ہے، سوائے اللہ کے ذکر کے اور معلّمِ خیر اور متعلّم کے‘‘۔(ترمذی) اس سے آگے بڑھ کر مستجاب الدعوات رسول اللہ ﷺنے معلّمِ خیر کے لیے دعا فرمائی’’اللہ تعالیٰ خوش وخرم رکھے ،اُس شخص کو جس نے ہم سے کچھ سنا اور اسے محفوظ رکھا اور پھر آگے پہنچایا یعنی لوگوں کو بتایا۔(ابن ماجہ)

حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ دعا فرمائی :اے اللہ!قرآن سکھانے والوں کی مغفرت فرما،اُن کی عمریں دراز فرما،اُن کی کمائی اور معاش میں برکت فرما۔(تحفۂ معلم:ص۱۹)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُستاذ کامرتبہ کتنا بڑا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بڑی نعمت علم ہے اور علم صاحبِ علم کے تمام عیوب کو چھپا لیتا ہے،اسی لیے معاشرے میں اساتذہ کے بارے میں یہ بات کبھی سننے کو نہیں ملتی کہ فلاں اُستاد کالا ہے،فلاں اُستاد فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہے،لہٰذا میں اس سے نہیں پڑھتا،بلکہ حکماء فرماتے ہیں کہ بادشاہ تو لوگوںکے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور معلّمین بادشاہوںپر حکومت کرتے ہیں۔اُستاد کو اولاً اللہ کا شکر بجالانا چاہیے کہ اس ذاتِ عالی نے اسے علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائی۔

سب سے پہلے تاکیدی امر یہ کہ تدریس کا عمل ریا سے خالی ہو،حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ، قیامت کے دن عالم کو اللہ رب العزت طلب فرمائےگا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم دیا تھا تو نے اس کا کیا حق ادا کیا؟ وہ کہے گا الٰہ العالمین! میں نے آپ کی رضا کے لیے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا کہ آپ راضی ہوجائیں ،اللہ فرمائےگا، جھوٹ بولتا ہے تو عرش اور فرش کے سارے فرشتے بھی کہیں گے جھوٹ ہے، جھوٹ ہے،تونے اس لیے سیکھا اور سکھایا تھا کہ لوگ کہیں بڑا عالم ہے ،سو تجھے دنیا میں کہا جا چکا اور پڑھنے پڑھانے سے جو غرض تھی، پوری ہوگئی،پھراللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ اسے جہنم کی آگ میں اوندھے منہ پھینک دیں گے۔(مسلم، نسائی)

شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ یہ حدیث سناتے ہوے تین بارغش کھاکر گرے تھے،اور پانی کے چھینٹے ڈال کر آپ کی طبیعت کو بحال کیا گیا تھا،لہٰذا مدرسین کو یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ الٰہ العالمین! مجھے اخلاصِ نیت نصیب فرما،اور ریاکاری سے محفوظ فرمااور مدرسہ کی جو خدمت تدریس وغیرہ کی صورت میں کررہا ہوں اسے اپنی بارگاہ میں قبولیت عطا فرما۔

بعض بزرگوں نے فرمایا کہ کتاب میں نشانی کے لیے جو کاغذ رکھا جاتا ہے،اُستاذ کو چاہیے کہ اس پر لفظ’’اخلاص‘‘لکھ لے،تاکہ روزانہ سبق پڑھانے بیٹھے تو اس کاغذ پر نظر پڑے گی تو استحضار ہوجائے گا کہ یہ پڑھنا پڑھانامحض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کر رہا ہوں،اسی طرح جب گھر سے نکلے تو اس نیت کا استحضار کرلے کہ اے اللہ ! آپ کی رضا کے لیے پڑھانے جا رہا ہوں آپ مجھے علمِ نافع عطا فرمائیے اور مجھے اس سے ہدایت نصیب فرمایئے!بزرگوں کا ارشاد ہے’’ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں اولاد کو عرش سے فرش پر لانے کا‘‘اور اُستاذ تربیت کر کے اُن بچوں کو فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے۔

اساتذۂ کرام اپنی حیثیت پہچانتے ہوئے اس بات کاخیال رکھیں کہ آپ کا مقام یہ ہے کہ آپ شاگردوں کو فرش سے عرش تک پہنچاتے ہیں،لہٰذا آپ کو ہر مرحلے پر بہت ہی مناسب رویہ اختیار کرنا پڑے گا،خصوصاً اُس وقت جب آپ کو طالبِ علم پر غصہ آئے،مثلاً بلا وجہ مہتمم تک آپ کی شکایت پہنچائی، آپ کے طرزِ بیان وغیرہ کی نقل اُتارتے وقت آپ کی نظر پڑجائے،یا باربار تنبیہ کے باوجود وہی پچھلی شرارت جاری رکھیں وغیرہ تو ایسے وقت فطری طور پراپنے شاگردوں پر شدید غصہ تو آتا ہی ہے ،اب یہ وقت ہوگا کہ اُستاذاس حقیقت کا استحضار رکھتے ہوے کہ’’اُستاد وہ ہستی ہے جس کا کام شاگردوں کی تربیت کرکے انہیں فرش سے عرش تک پہنچانا ہے‘‘ اپنی قوتِ برداشت میں اضافہ کرنے اور اس صلاحیت کو کام میں لاتے ہوے صبروتحمل کا مظاہرہ کرے۔

اس وقت تنبیہ کے طور پر کوئی طرزِ عمل ایسا نہ اختیار کرے اور نہ ایسا کوئی جملہ زبان سے کہے کہ جس سے وہ بے تربیت بچہ مزید اخلاقی پستی کا شکار ہوجائے اور کہیں وہ یہ سوچنے پر مجبورنہ ہوجائے کہ انسانیت کی تربیت کرنے والے اداروں میں ہمیں سلیقہ سکھانے والے تو وہی زبان بول رہے ہیں جو میں گلیوں اور بازاروں میں سنتا رہتا ہوں،لہٰذا یہ بات یاد رکھیں کہ اُستاذ صرف اس وقت اُستاذ نہیں ہوتا جس وقت وہ سبق پڑھا رہا ہو، بلکہ وہ اس وقت بھی اُستاد ہوتا ہے جس وقت وہ شاگرد سے سبق سن رہا ہو۔شاگرد کی اچھائی سامنے آنے پر بھی وہ اُستاد ہے اور شاگرد کی برائی سامنے آنے پر بھی وہ استاد ہے،شاگر د کے ذہین اور ہوشیار ہونے پر بھی وہ اُستاد ہے،اور شاگر دکے غبی اورکم فہم ہونے پر بھی وہ اُستاد ہے،شاگردوں کی حوصلہ افزائی کا موقع آئے تب بھی وہ اُستاد ہے اور جب اصلاح وتادیب کا وقت ہو تب بھی وہ اُستاد ہے۔

غرض اُستاد کو مختلف اوقات میں بہت ہی زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ میرا کوئی فعل یا عمل ان شاگردوں کے لیے برا نمونہ نہ بن جائے،خصوصاً جب کہ زیادتی شاگردوں کی طرف سے ہو،اور ایسی زیادتی جو بہت بری ہو،لیکن پھر بھی اُستاد کو یہی سوچنا چاہیے کہ کسی طرح یہ شاگرد اس برائی،اس بدتمیزی ،اس بد اخلاقی سے بچ جائے اگر اس موقع پر میرے صبر کرنے اور اس کے لیے دعا کرنے اور پھر تنہائی میں اسے سمجھانے سے اس کی یہ برائی ختم ہوجاتی ہے تو الحمد للہ ،واقعی میں اُستاد ہوں اور اللہ نے ایک بندے کی بری عادت کے چھڑانے کا ذریعہ مجھے بنادیا،اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ کا مبارک عمل ہم سب کے لیے نمونہ ہے ۔

معلم اور مدرس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتیٰ الامکان طلبہ سے خدمت لینے میں احتیاط سے کام لے،بلکہ اس پہلو کو مد نظر رکھ کر وقت گزارے کہ پیارے نبی ﷺاپنا کام اپنے ہاتھ سے خودکیا کرتے تھے،اُستاذ کے لیے یہ عافیت اور فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ رسول ِاکرم ﷺ معلم انسانیت ہیں،آپﷺ نے اپنے اُسوۂ حسنہ ،مثالی طرزِ عمل اور تعلیم و تربیت کے منفرد انداز کی بدولت اسلامی معاشرے میں معلم اور مدرس کےلیے ایسا کامل نمونہ پیش فرمایا ،جس کی اقتداء اور پیروی تعلیم وتربیت کی بنیاد اور تدریس کی اساس ہے۔اس کی اتباع اور پیروی کرکے ہی اسلامی معاشرے میں تعلیم و تربیت کو فروغ دیا جاسکتا اور مثالی تعلیمی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔