ٹرمپ بازی ہار گیا

January 16, 2021

روز آشنائی … تنویر زمانخان، لندن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاتے جاتے امریکہ کی جمہوریت کی گرد ن پرچھری چلا دی ۔ آئین کی تقدس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور جس کانگریس میں بیٹھ کر چار سال دنیا کا طاقتور ترین شخص کہلاتا رہااسی کانگریس پر چڑھ دوڑا۔ اپنے مسلح حامیوں کے ذریعے کانگریس پر ایسا حملہ کیا کہ پانچ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس ہاؤس کا لیڈر تھا اسی کو برباد کرنے چل پڑا۔ کانگریس نے 197 کے مقابلے میں 232 ووٹوں سے اس کا مواخذہ بھی کر ڈالا۔ جاتے جاتے صرف چند روز قبل اسے اس عدم اعتماد کی ذلت کا سامنا بھی کرنا پڑگیا۔ ابھی وہ کون کون سے مقدمات کا سامنا کرے گا اس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں۔ لیکن کیپٹل ہل پر حملہ اس کے ذاتی اثاثوں پر حملہ ثابت ہورہا ہے۔ امریکہ کے بنک ، سرمایہ کاری کرنے والے ادارے ، اس پر انحصار کرنےو الے بڑے اسٹور، مارکیٹ میں اس کی ڈیزائننگ کمپنیاں سب پر بحران طاری ہوگیاہے۔ جو گالف کمپنیاں اس کے کلبوں میں بزنس لاتی تھیں وہ پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک کینیڈین کمپنی جو کہ ٹرمپ کے آن لائن اسٹورز کے پیچھے تھیاس نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ ٹرمپ کے حامی ہی کہتے ہیں کہ اس نے جاتے جاتے اپنے ہی کپٹیل پر حملہ کروا کر اپنی ساکھ خراب کرلی ہے۔ اس کے اپنے ہی سینیٹرز اور کانگریس کے ریپبلکن کے ارکان کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ امریکی تاریخ کا بدترین صدر کہلائے گا جس نے صدارتی محل میں چار سال بھی گزارے الیکشن بھی ہارا اب بجائے الوادعی دعوتیں اڑانے کے اس نے کلہاڑی اٹھالی اور اپنے پچھلے چار سا ل پر چلانا شروع کردی اور بالآخر اپنے ہی پاؤں میں دے ماری۔ اس پاگل پن کو اس کےایڈوائزاروں کا قصور نہیں کہا جاسکتا۔ ٹرمپ کی دھڑام سے نیچے گرتی ساکھ دیکھ کر وال اسٹریٹ (Silicon Valley)اورواشنگٹن سب جگہ سے مسترد کیا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ کمپنیوں نے اس کے ٹویٹ، فیس بک اکاؤنٹ سب بلاک کردیا ہے۔ اس کے فون پر چیک لگادیا گیا ہے۔ اپنے فالوورزکو تشدد پر اکسانے پر اس کے الیکٹرانک کا موس اسٹورز بند کردئیے گئے ہیں جس سے اس کی صدارتی کمپین شاپ بھی بند ہوگئی ہے۔ ٹرمپ فیملی کےساتھ کام کرنے والے بنک اور دیگر کئی ادارے خود کو ٹرمپ سے دور کررہے ہیں۔ جرمن (Deutsch Bank AC)جو کہ امریکہ میں بڑا بنک اور مالیاتی ادارہ ہے جس نے خود کو ٹرمپ سے دور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔یہاں یاد رہے کہ ٹرمپ نے اس بنک کا 300 ملین ڈالر کا قرضہ بھی دینا ہے۔ اگلے سال کی امریکہ کی گالف چیمپئن شپ کا مقابلہ ٹرمپ کے گالف کورس میں ہوتا تھامگر اب وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ لکھتے ہوئےمحسوس ہورہا ہے کہ ہم کسی امریکی صدر کا نہیں بلکہ کسی ایسے جرائم پیشہ فرد کا ذکر کررہے ہیں جو برسوں سے اشتہاری مجرم ہو اور وہ نہ صرف یہ کہ اچانک منظر عام پر آیا ہوبلکہ اس کے یہ تمام انکشافات بھی نئے نئے ہورہے ہوں۔ اس کے ہمدردوں کا خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہ بھی شاید دنیا کو اسی زوایہ سے دیکھتے ہیں۔ جس طرح کہ ٹرمپ ۔ ٹرمپ کے سپورٹروں کے مطابق دائیں بازو کا میڈیا اس کی سپورٹ جاری رکھے گا بلکہ ٹرمپ کی ایک ڈیزائزنگ کمپنی کے پالیسی ساز نے یہاں تک کہا ہے کہ تاریخ میں دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ یعنی لوگ بہت جلد سب بھول جاتے ہیںحالانکہ ٹرمپ کی اس لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی حرکت کو اگر امریکی ادارہ قانون و انصاف نے نظر انداز کیا۔ پانچ افراد کا قتل نظر انداز ہوگیا تو پھر امریکی کپیٹل ہل پر آئے دن کے حملے روایت بن جائیں گے ۔اگر پورا انصاف کیا گیا تو ان ٹرمپ کے حامیوں کو پتہ چل جائے گا کہ ان کے وحشیانہ ٹرمپ کی حمایت میں تشدد پسندی نے ان کے لیڈر کا معاشی اور سیاسی دونوں طرح سے بیڑہ بٹھا دیا ہے۔ سیاسی طور پر ٹرمپ پر کیپٹل ہل پر حملہ کرنے کے لئے اپنے حمایتوں کو اکسانے اور قتل سے لیکر توڑ پھوڑ تک کے اقدامات پر ٹرمپ پرمقدمہ بنے گا جس کے لئے ٹرمپ کو کٹہرے میں لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں ان میں ٹرمپ کو کن کن چیزوں پر استثنیٰ حاصل رہے گایہ نکات قانونی ماہرین دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اب اس کا سینیٹ میں ٹرائل ہوگا۔ ابھی 2020میں جب یوکرین پر اپنے اختیارات سے تجاوز پر ٹرمپ کا مواخدہ ہواتھا تووہ سینیٹ میں بچ گیا تھا لیکن اب سینیٹ کی صورتحال بدل چکی ہے۔ اب زیادہ امکان ہے کہ ٹرمپ کے19 جنوری کو آفس چھوڑنے کے بعد ہی ٹرمپ کا سینیٹ میں ٹرائل ہوگا۔ وہاں سے اس کے خلاف منظوری کے بعدآئندہ سال کیلئےکسی بھی پبلک آفس کیلئے نا اہل ہوجائے گا۔وہ اپنی دو لاکھ 21 ہزار سالانہ کی پنشن سے محروم ہوجائے گا۔اس کے علاوہ ایک ملین ڈالرسالانہ صدر کی اسٹاف رکھنے او ر سفر کرنے کے الاؤنس سے محروم ہوجائے گا۔ اس کی بیوی 5 لاکھ ڈالر سالانہ سے محروم کردی جائے گی مرنے کی صورت میں سرکاری پروٹوکول واپس لے لیا جائے گا۔ عدالت سے سزا یافتہ ہونے پر یہ تمام مراعات فوری طور پر منسوخ ہوجائیں گی۔ اب یہ آنے والی ڈیموکریٹ حکومت اور جوبائیڈن پر منحصر ہوگا کہ کتنی جلدی ٹرمپ کو امریکی جمہوریت میں نشان ِعبرت بناتے ہیں تاہم اب عالمی طور پر ٹرمپ پر اتنا کچھ لکھا اور بولا جائے گا کہ ٹرمپ دنیا بھرمیں پھیلی اپنے خلاف نفرت کے داغ کبھی نہ دھوسکے گا۔