ناظرین کے آنسو چُرانے والا فنکار ’’ماجد جہانگیر‘‘

January 19, 2021

پاکستان میں ٹیلی وژن کے قیام کو پانچ دہائیاں گزر چکی ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی وی نے اپنی 56 ویں سالگرہ منائی ہے۔ یہ 56 سال یادگار ڈراموں، موسیقی کے پروگراموں، گیم شوز، کوئز شوز اور بچوں کے پروگراموں کی یاد دلاتے ہیں۔ہمیں فخر ہوتا ہے کہ ہم بچپن سے ٹی وی سے وابستہ رہے ہیں اور بلیک اینڈ وائٹ سے لے کر آج تک کے جدید دور تک ہمارا پی ٹی وی سے مضبوط رشتہ ہے۔ اگرچہ پی ٹی وی کا سنہرا اور بہترین دور کہیں دُور رہ گیا ہے ۔تاہم آج بھی اس کے معرکۃ الآرا پروگرام ذہنوں میں تازہ ہیں۔

یُوں تو طنز و مزاح کے حوالے سے بہت سے پروگرام ٹیلی وژن پر نشر ہوئے ہیں، مگر جیسی شہرت و کام یابی مزاحیہ پروگرام’’ففٹی ففٹی‘‘ کو ملی،اس کی مثال نہیں ملتی۔ ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے ڈائریکٹر شعیب منصور تھے اور شعیب منصور جنہیں عرفِ عام میں شومین کہا جاتا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ جو پروڈکشن کی لاجواب کی۔ تاہم اُن کے پورے کیریئر میں صرف ایک دعائےریم ہی ایسی پروڈکشن تھی،جس پر انہیں عوام کی بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، ورنہ ان کے تمام ڈرامے اور پروڈکشنز کو ناظرین بے حد پسند کرتے ہیں۔ محض اتفاق ہی ہے کہ ماہرہ خان کی فلم ورنہ اور مائرہ خان کا گانا ’’دعائے ریم ‘‘ شعیب منصور کو وہ تعریف و توصیف نہ دلوا سکا، جس کی اُمید کی جارہی تھی۔

شعیب منصور کے شاہ کار پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کا تذکرہ ہم کر رہے تھے، جس میں ماجد جہانگیر، اسمٰعیل تارا، زیبا شہناز، آرزو، عادل واڈیا، اشرف خان، تہمینہ، اور رئوف عالم اسٹاک کریکٹرز تھے۔ یعنی فن کاروں کی یہ ٹیم تھی، جو ہر ہفتہ ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے خاکوں میں مختلف رُوپ بھرا کرتی تھی۔ ہر فن کار کو ان خاکوں کے ذریعے نہ صرف مختلف بہروپ اختیار کرنے کا موقع ملتا تھا، بلکہ اپنی فنّی صلاحیتیں بھی اُجاگر کرنے کا موقع ملتا تھا۔ سبھی فن کار لاجواب اداکاری کرتے تھے۔

لطیف کپاڈیا، انور مقصود، ارشد محمود، بشریٰ انصاری اور حیدر رضا بھی ففٹی ففٹی کے خاکوں میں آتے تھے، سب سے زیادہ ففٹی ففٹی سے جن فن کاروں کو شہرت ملی، وہ اسمٰعیل تارا اور ماجد جہانگیر ہیں۔ آج بھی ان ففٹی ففٹی کے نام سے یہی دو نام سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ زیبا شہناز، آرزو، اشرف خان، تہمینہ اور عادل واڈیا بھی بہت معروف فن کار ہیں اور انہوں نے بہت سے دُوسرے ڈراموں میں کام کیا، آرزو نے تو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن ان سب فن کاروں کا تشخص ففٹی ففٹی سے ایسا جُڑ گیا ہے کہ اب الگ ہونا ناممکن ہے۔

اسمٰعیل تارا اور ماجد جہانگیر کو ففٹی ففٹی سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ دُنیا بھر میں ان کے شوز ہوتے تھے، لوگ ان کے دیوانے تھے۔ اسمٰعیل تارا اور ماجد جہانگیر اسٹیج شوز میں اپنے خاکے پیش کرتے تھے اور داد و تحسین وصول کرتے تھے۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود آج بھی لوگ ان کی جوڑی اور ان کے خاکے یاد کرتے تھے۔ خاص طور پر منوا ببوا والا خاکہ تو اِن کا خاص یادگار خاکہ تھا۔ہمیں تو ’’ففٹی ففٹی‘‘ کا سانوریا یعنی رئوف عالم بھی بہت پسند ہے، قارئین کو یاد ہوگا کہ حسین و جمیل ماڈل آرزو اپنی سبز آنکھوں، سنہرے ریشمی بالوں اور دل فریب ادائوں کے ساتھ گانا گا رہی ہوتی تھیں ،او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، اور اس کا سانوریا یعنی رئوف عالم ہونّق شکل بنائے آنکھیں ترچھی کیے بانسری بجائے جا رہا ہے۔

یہ خاکہ ایسا مشہور ہوا کہ رئوف عالم کا کوئی بھی اسٹیج ڈراما ہو ان کے نام کے ساتھ ففٹی ففٹی کا سانوریا ضرور لکھا جاتا ہے۔ رئوف عالم نے چند دن قبل فیس بک پر ففٹی ففٹی کے نامور فن کار ماجد جہانگیر کی تصاویر اور وڈیو شیئر کی تو دِل بہت دُکھا۔ ماجد جہانگیر وہیل چیئر پر تھے، اُن کو بڑے اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا۔ ماجد جہانگیر کو اس حال میں دیکھ کر بہت دکھ اور دلی افسوس ہوا، زمانے کی ستم ظریفی اور وقت کی ناقدری نے بہت تکلیف دی۔ اس سے قبل بھی ہم نے ماجد جہانگیر کی کچھ ایسی تصاویر پریس کلب کے باہر دیکھی تھیں، جن میں وہ نہایت بیمار اور لاغر نظر آ رہے تھے۔ ماضی کا سُپر اسٹار آج بدحال، بیمار اور اکیلا ہے۔

اُس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ وقتاً فوقتاً اُن کی امداد کے لیے احباب کچھ نہ کچھ کاوشیں کرتے رہتے ہیں۔ تاہم اُن کے حالات بہتر نہیں ہوئے۔ ہم نے ماجد جہانگیر کا اچھا وقت دیکھا ہے۔ اُس زمانے کی بات ہے، جب ہم شو کرنے امریکا گئے تھے۔ کیلیفورنیا میں ماجد جہانگیر سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے پاس ایک بڑی سی سفید گاڑی تھی، جس کی نمبر لیٹ اسپیشل تھی اور جس پر لکھا تھا PTV-5050 .۔ اس زمانے میں ماجد جہانگیر خوش حال تھے، امریکا جا بسے تھے، ففٹی ففٹی ختم ہو چکا تھا، مگر اُن کے نام کے ڈنکے بجتے تھے۔ اُن کی بیگم سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ وقت گزرا، حالات بدلے اور ماجد جہانگیر وطن واپس آگئے۔ یہاں ان کے صحت کے اور معاشی مسائل پیدا ہوگئے، دوستوں نے سنبھالا دینے کی کوشش کی ، لیکن ماجد جہانگیر کی حالت اَبتر ہوتی گئی۔

کچھ سال قبل جیو کے مارننگ شو میں بھی رئوف عالم سانوریا اور ماجد جہانگیر کے خاکے خصوصی طور پر پیش کیے گئے، ہمارے مارننگ شو میں بھی یہ خاکے جاری رہے۔ تاہم ففٹی ففٹی والی بات نہ آ سکی۔وقت گزرتا رہا اور حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ آج ماجد جہانگیر، مفلسی، بیماری اور پریشانی کا شکار ہے، بین الاقوامی شہرت، ہر طرف بجنے والی ستائشی تالیاں، لوگوں کی واہ واہ، آٹو گراف، فوٹوگراف، خبریں، انٹرویو سبھی کچھ قصّۂ پارینہ بن چکا ہے۔

ہم سوچتے ہیں، وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے، کیا زمانہ تھا ففٹی ففٹی کا۔ ہم نے بھی چند خاکوں میں کام کیا تھا۔ زیبا شہناز، اسمٰعیل تارا، ماجد جہانگیر، آرزو، تہمینہ، سانوریا رئوف عالم سب ہمارے ذہن میں آج بھی تر و تازہ ہیں۔ لگتا ہے جیسے کچھ نہیں بدلا، سب ویسے ہی ہیں ،لیکن اگلے ہی لمحے ہم حقیقت کی دُنیا میں لوٹ آتے ہیں، جہاں آرزو کہیں کھو گئی ہے، تہمینہ کی بھی کوئی خبر نہیں، ماجد جہانگیر مایوسی اور محتاجی کی جیتی جاگتی تصویر بنا لوگوں سے سوال کر رہا ہے کہ کیا فن اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کےبعد ایسا زوال کسی فن کار کا مقدّر کیسے بن سکتا ہے؟

شوبزنس کی چمکتی دمکتی دُنیا بہ ظاہر بہت رنگین ہے، لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ یہاں پل بھر میں سب کچھ تاریک ہو سکتا ہے۔ دُنیا چڑھتے سُورج کی پجاری ہے، ڈھلتے ہوئے کو کوئی نہیں پوچھتا۔ آہ! آج بھی ہمارا فن کار بے بس ہے، بیمار ہے اور اکیلا ہے۔ میرا رب انہیں صحت عطا کرے،آمین