نیک تمناؤں کا خون اور احتساب کے گورکن

January 24, 2021

جانے کیوں مملکت خداداد میں ہمیشہ خیر کی نیک تمنائوں کا خون ہوتا رہے گا؟ غضبناک کرپشن کی جو خوفناک کہانیاں بنائی گئیں اور ہمارے ہم عصر کڑے احتساب کے جو خوشنما خواب دکھاتے رہے اور تیزاب کی بھٹیوں میں کرپٹ مافیاز کو ڈبو دینے کی عبرتناک منظر نگاری کرتے رہے، وہ سب کی سب شرمندگی کے جوہڑ میں ڈوب کے رہ گئی ہیں۔ اب کرپشن کی غضبناک کہانیوں کی جگہ محتسبوں کی شرمناک کہانیوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کو نہیں۔ مشرف کے منتقمانہ احتساب، اس کے احتساب کے ادارے (نیب) اور عالمی تفتیش کے لیے تقریباً آدھی درجن جعلی کمپنیوں، براڈشیٹ وغیرہ نے کرپشن کے سراغ میں جو گھپلے، فراڈ اور بے ضابطگیاں کیں وہ محرکین کے لیے شرمندگی کو کافی تھیں لیکن منافقت اور کذب کے بازار میں شرمندگی نام کی کوئی قدر کہاں؟ ابھی تو نیب اور براڈ شیٹ و دیگر عالمی اٹھائی گیروں کے راز کھلنے شروع ہی ہوئے تھے کہ نیب ہی کے آزمودہ پرانے اہلکار کو اپنے ہی سابقہ ادارے کے کرتوتوں کی تحقیق پر لگادیا گیا ہے۔ لندن کی عدالت عظمیٰ کا مصالحت کنندہ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہوا، ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی۔وزیراعظم نے اپنے تین صالح وزرا کی کمیٹی بنائی جو فوراً اپنے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے خلاف 820 ملین ڈالرز کی مبینہ کرپشن کا دعویٰ لے کر میدان میں اتری، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ خان کی حکومت کے وکیل نے 2019ء میں مصالحت کنندہ کی جانب سے شریف خاندان کے اثاثوں کے دس کروڑ ڈالرز کے تخمینہ پہ شدید اعتراض کرتے ہوئے اس کی مبالغہ انگیزی اور ہوائی بنیاد کو چیلنج کیا تھا۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ مصالحت کنندہ نے اپنے تخمینہ کی بنیاد سپریم کورٹ کی بنائی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں دئیے گئے متضاد تخمینوں پہ جانے کس طرح رکھی کہ لندن کی ہائی کورٹ بھی ششدر رہ گئی لیکن قانوناً اس پر فیصلہ صادر نہ کرنے پر مجبور تھی۔

کرپشن کو ایک کرپٹ ادارے اور عالمی فراڈی کمپنیوں کے ذریعہ کرپشن کے خلاف اس خوفناک کہانی کا آغاز و انجام بڑا ہی ہوشربا ہے۔ پاکستان ایئرفورس سے نکالا گیا ایک پائلٹ طارق فوا دملک اپنے سسر جرنیل کی سفارش پر نیب کے پہلے چیئرمین جنرل امجدکو بطور کسی کے فرنٹ مین کے اربوں ڈالرز کی بازیابی کے خواب دکھاتا ہے اور کولوراڈوکے شہر میں ان کی ملاقات جیری جیمز اور ڈاکٹر پیپر سے کراتا ہے جو بظاہر ایک ریکوری فرم Trouvans LLC چلارہے تھے۔ یہ اکتوبر 1999ء کی بات ہے۔ بات پکی ہوجاتی ہے، لیکن ایسٹ ریکوری ایگریمنٹ ایک ایسی فرم کے ساتھ ہوتا ہے جو بعدازاں اس مقصد کیلئے آئزل آف بینڈ میں براڈ شیٹ کے نام سے فقط 200 پائونڈ کے حصص کے ساتھ رجسٹر کرائی جاتی ہے۔ پہلے نیب چیف خوش ہیں کہ یہ نیک لوگ بغیر کسی فیس کے معاہدہ کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں جو (Asset Recovery Agreement)ARA معاہدہ 28مئی 2000ء میں ہوتا ہے اس میں اصل بڑا گھپلا صاف بیان کردیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق (شق4) نا جائز اثاثوں کا محض پتہ لگایا جائے یا وصولی کی جائے بھلے وہ پاکستان میں پاکستانی ادارے کریں یا بیرون ملک براڈ شیٹ کرے اس کا 20فیصد براڈ شیٹ کو بطور کمیشن ادا کیا جائے گا۔ معاہدہ ختم ہونے کی صورت میں کمپنی کا تفتیش اور کمیشن کا استحقاق برقرار رہے گا۔ اس طرح کا تباہ کن معاہدہ یا تو کوئی اندھا کرسکتا تھا، یا اناڑی یا پھر کو ئی گھاگ نوسر باز جو شاید براڈشیٹ کا حصہ دار یا فرنٹ مین تھا۔ جسٹس عظمت سعید بطور نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر اس سے بخوبی واقف ہوں گے اور اب وہی اس سارے اسکینڈل کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کے سربراہ بھی مقرر کیے گئے ہیں جسے اپوزیشن فائول پلے قرار دے کر رد کر چکی ہے۔

نیب 200افراد بشمول شریف خاندان کی فہرست براڈشیٹ کو فراہم کرتا ہے جن کی مبینہ لوٹی ہوئی دولت یا کالا دھن واپس لانا مقصود تھا جبکہ موسوی کی فرم کو بھٹوزرداری خاندان کی تفتیش کا کام دیا جاتا ہے۔ اس دوران براڈشیٹ کچھ کھاتوں کا پتہ لگا بھی لیتا ہے جو اشک شوئی کے مترادف تھا اور نیب ان میں سےکچھ لوگوں کو سیاسی وفاداریاں بدلنے کے عوض مطلوبہ فہرست سے ان کا نام نکالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب مشرف بر طرف وزیراعظم کو ملک بدر کرنے کا مقصد حاصل کرلیتے ہیں تو وہ براڈشیٹ کو ان کی تفتیش سے روک دیتے ہیں۔ پھر نیب 2003ء میں براڈشیٹ سے معاہدہ ختم کردیتا ہے اور چھچھوندر اس کے گلے میں پھنس جاتی ہے کیونکہ تفتیش اور کمیشن پر براڈ شیٹ کا استحقاق برقرار رہتا ہے۔ یوں مطلوب افراد کی فہرست میں سے کسی سے وصولی ہوتی ہے یا کسی کے کالے دھن کی نشاندہی ہوتی ہے اس پر براڈشیٹ اپنے 20فیصد کمیشن کا مطالبہ کرتی ہے جو ہر دو اطراف کے لیےگلے کی ہڈی بن جاتا ہے اور درپردہ کمیشن میں سے کمیشن کی وصولی کی نہ ختم ہونے والی تگ و دو شروع ہوجاتی ہے اور اس میں بڑے بڑے محتسبوں کے نام شامل ہیں۔ اس دوران کچھ لے دے کے آئوٹ آف کورٹ معاملہ نپٹانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس میں بھی فراڈ ہوتا ہے اور جیری جیمز اور موسوی سے لندن میں نیب کے وکیل بلال صوفی ملاقاتیں کرتے ہیں اور جیمز کی کولوراڈو میں جعلی فرم کو پندرہ لاکھ ڈالرز ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، کچھ اور ادائیگیاں بھی کی جاتی ہیں۔ اس دوران جیمز اور ڈاکٹر پیپر علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ براڈ شیٹ دیوالیہ ہوجاتی ہے۔ پھر موسوی اور جیمز میں ففٹی ففٹی کی بنیاد پر معاہدہ ہوجاتا ہے۔ بعدازاں جیمز خود کشی کرلیتا ہے اور موسوی ہرجانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مصالحت کنندہ مقرر ہوتا ہے۔ براڈ شیٹ اور نیب اپنے اپنے آڈیٹرز مقرر کرتے ہیں جن کے تخمینوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مصالحت کنندہ اپنا ایوارڈ دیتا ہے جس کے تحت 28ملین ڈالرز فیس مع سود ادا کیے جاتے ہیں اور قوم کو65ملین ڈالرز دیناپڑتے ہیں۔ نہایت چونکا دینے والا امر یہ ہے کہ موسوی سے شہزاد اکبر اور ایک جرنیل سمیت بہت سے لوگ ملاقاتیں کرتے ہیں اور غیر موصول شدہ رقم پہ دیئے گئے بھاری کمیشن میں حصے، کٹوتی یا کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک اور فرنٹ مین میدان میں اترتا ہے جسے پاکستان میں ہر بڑے آفس تک رسائی ہے وہ موسوی کے ہاتھ نئے معاہدے کی تجویز بھیجتا ہے جس کی پذیرائی ہوتی ہے۔ موسوی کو خوش کرنے کیلئے یا اس سے حصہ کی امید میں نیب ایک خطیر رقم لندن ٹرانسفر کرنے کی درخواست کرتا ہے اور اکنامک کوآرڈنیشن کمیٹی اس کی منظوری دے کر رقم لندن بھجواتی ہے جو مصالحت کنندہ وصول کرلیتا ہے۔ اب یہ ڈرامہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کے لندن کے ہائی کمیشن کے اکائونٹ سے رقم کا نکلوانا سفارتی استثنیٰ کی خلاف ورزی ہے۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، جاری ہے اور جانے ایک دھیلہ وصول کیے بغیر کرپشن کے احتساب کی کرپٹ کہانی کو جاری رکھنے کیلئے قوم کو کیا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے تاآنکہ ایسے احتساب سے توبہ مانگی جائے اور کرپشن جاری و ساری رہے۔ اللہ توبہ!