وہ لاہور کہیں کھو گیا

January 24, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے اس ہوسٹل کا نام بروم ہوسٹل ہے۔ آج بھی کسی حد تک یہ عمارت اپنی اصل شکل و صورت اور بہترین فن تعمیر کے ساتھ موجود ہے۔ کبھی یہاں مریضوں کو بھی داخل کیا جاتا تھا۔

یہ سرُخ اینٹوں سے تعمیر کردہ ایک نہایت پرکشش عمارت ہے۔ کبھی لاہور میں سرخ اینٹوں کی بے شمار تاریخی اور خوبصورت عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ بروم ہوسٹل کے برآمدوں میں لوہے کے جنگلے انگریزوں کے زمانے کی یادگار ہیں جو آج بھی بہترین حالت میں موجود ہیں۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کے پاس نولکھا تھیٹر، نولکھا چرچ، سینٹ پال چرچ اور نولکھا تھانہ واقع ہیں۔ کبھی نولکھا ہوٹل اور نولکھا بازار بھی یہاں ہی تھے۔

نولکھا چرچ اور سینٹ پال چرچ دونوں 1860ء کے زمانے کے ہیں۔ دونوں گرجا گھروں کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں اس چرچ کو نولکھا اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی تعمیر پر نو لاکھ روپے اس زمانے میں خرچ ہوئے تھے۔ آئندہ کسی کالم میں آپ کو نو لکھا چرچ اور سینٹ پال چرچ کے بارے میں بتائیں گے۔ بہرحال کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر دونوں گرجا گھروں میں بہت رش ہوتا ہے۔ ان دونوں گرجا گھروں کے پاس ایمپریس روڈ پر بھی دو گرجا گھر ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں اینگلو انڈین کافی تعداد میں رہتے تھے۔ میکلیگن روڈ، ایمپریس روڈ، کوئنز روڈ، گڑھی شاہو اور وکٹوریہ پارک میں اینگلو انڈین بہت بڑی تعداد میں رہائش پذیر تھے۔ 1970ء کے بعد اینگلو انڈین بیرونِ ملک آباد ہونے لگے۔ اس طرح پارسی بھی 1980ء کے بعد بتدریج کم ہوئے ہیں۔ اور کچھ یہودی بھی لاہور میں رہتے تھے، شاید اب بھی ہوں۔ ہم نے بے شمار اینگلو انڈین اور پارسیوں سے ملاقاتیں کی ہیں بلکہ ہمارے گھر کے بالکل قریب صرف چار گھر چھوڑ کر پارسیوں کا عبادت خانہ تھا۔ ہم اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ اس عبادت خانے میں انجیر کے درخت تھے۔ تازہ انجیر کھانے ہم اکثر وہاں جاتے تھے۔ لاہور کی سرزمین انجیر اور چیکو کے لئے بہترین ہے۔ پارسیوں کے عبادت خانے کی مسز بروز بڑی نفیس خاتون تھیں۔ یہ عبادت خانہ ریٹی گن روڈ پر تھا۔ وہاں پرانے وقتوں کا ایک بہت بڑا کنواں تھا جس سے پورے عبادت خانے کو پانی ملا کرتا تھا۔ شام کو عبادت خانے میں صندل کی لکڑی جلائی جاتی تھی جس سے پورا ریٹی گن روڈ اور ٹیپ روڈ مہک جاتی تھی۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا۔ اس سڑک پر کارپوریشن کی بیل گاڑی والے پانی کے ٹینکر سے چھڑکائو کیا کرتا تھے‘ کیسی بھینی بھینی خوشبو آتی تھی۔ ہمارے گھر کے پاس دو پارسی خواتین رہتی تھیں۔ شام کو ہم ان کے ساتھ تاش کھیلنے جاتے تھے۔ ہمیں ان دو بہنوں نے جو کہ ہماری والدہ محترمہ کی ٹیچر تھیں، ہمیں تاش کے کئی کھیل سکھائے تھے۔

پارسی ناریل کے تیل میں کھانا پکاتے ہیں اور شام کو یہ دونوں بہنیں دودھ اور ناریل کے گھی کا پراٹھا کھاتی تھیں۔ دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی، اپنے خانساماں مولا بخش کو اپنے پیسوں سے حج بھی کرایا تھا۔ یہیں پر بنک آف بنگال کی سرخ اینٹوں کی عمارت ایستادہ ہےجہاں اب یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز قائم ہے۔ ہاں تو دوستو بات ہو رہی تھی اینگلو انڈین جو لاہور میں رہتے تھے۔ مال روڈ پر انڈس ہوٹل کے پچھلی طرف وکٹوریہ پارک میں اینگلو انڈینز کے کئی مکانات تھے جن کی بالکونیاں بھی تھیں۔ مال روڈ پر ہی سر گنگا رام مینشن میں آج بھی ہندو اوقاف بورڈ کے کئی بڑے خوبصورت فلیٹس ہیں جن کی سیڑھیاں لکڑی کی ہیں۔ ان کی بالکونیاں بھی ہیں اور اکثر بالکونیوں سے پھولوں کی بیلیں لٹک رہی ہوتی ہیں۔ بڑا خوبصورت ماحول تھا۔ اب تو گنگا رام مینشن کا ماحول ہی گندا ہو گیا ہے۔ وکٹوریہ پارک کے کئی گھروں کی بالکونیوں میں اینگلو انڈین خواتین شام کو چائے/کافی سے لطف اندوز ہوا کرتی تھیں۔ کوئی یقین نہیں کرے گا کہ لاہور کی مال روڈ پر جاز میوزک، یعنی لائیو میوزک پر جوڑے ڈانس کیا کرتے تھے۔ کئی ریسٹورنٹس اوپن ہوتے تھے۔ لگتا تھا کہ آپ پیرس میں آ گئے ہوں۔ لارڈز ہوٹل جس کا پہلا نام کسینو تھا، وہاں لائیو بینڈ کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے تو صرف پیرس بنانے کے نعرے لگائے۔ لاہور واقعی کبھی پیرس تھا۔ مال روڈ پر یاسمین کے پھولوں کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ لارنس گارڈن میں رات کی رانی کی خوشبو آیا کرتی تھی اور بے شمار جگنو نظر آتے تھے۔ لاہور کے ہر سینما گھر میں فلم شروع ہونے سے قبل قومی ترانہ ضرور بجایا جاتا تھا، اس کے بعد طلعت حسین کی آواز میں پاکستان کا تصویری خبرنامہ نشر کیا جاتا تھا اور یہ الفاظ ادا ہوتے تھے۔ پاکستان کا تصویری خبر نامہ طلعت حسین کی زبانی سنیں، یہ خبرنامہ مرکزی محکمہ اطلاعات و نشریات ہر سینما ہائوس کو حکومت پاکستان کی سرگرمیوں پر تیار کر کے دیا کرتا تھا۔ یہ تصویری خبرنامہ طلعت حسین کی آواز میں بڑی طویل مدت تک دکھایا جاتا رہا۔ لاہور کی سڑکوں پر مختلف دیواروں پر فلموں کے بڑے سائز کے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ یا پھر یک رنگ نیلے، لال، سبز رنگ کے پوسٹرز بھی چسپاں کئے جاتے تھے۔ اگر کوئی فلم اچھی ہوتی۔ یا اس کی مشہوری زیادہ کرنا ہوتی تو لکشمی چوک، رائل پارک یا پھر کسی بھی سڑک یا چوک پر بڑے ٹین کے سائن بورڈ پر فلم کے اداکاروں کی تصاویر نام کے ساتھ لگائی جاتی تھیں۔ لکشمی چوک، رائل پارک میں فلموں کے ڈسٹری بیوٹرز فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے دفاتر کے باہر بھی بڑے بڑے بورڈ لگائے جاتے تھے۔ رائل پارک کا ایک الگ ہی ماحول تھا۔ پان کی دکانیں، حلوہ پوری والے کی پچھلے 70برس سے قائم دکان اور 1940ء سے قائم ہونے والا آرٹ پریس آج بھی موجود ہے۔ (جاری ہے)