پاکستان ، برطانیہ اور فرق ؟

January 24, 2021

فرق نہیں پڑتا اگر یہ دہائی دی جائے کہ ہم تو 74سال پہلے آزاد ہوئے اور برطانیہ کی تاریخ تو سینکڑوں سال کی ہے، انگریزوں نے تو ہندوستان کےساتھ ساتھ ساری دنیا پر حکومت بھی کی اور محکوم ملکوں کے ثمرات کو برطانیہ میں اکٹھا بھی کیا یا اس قسم کی دیگر کئی تاویلات اس وقت دی جاتی ہیں جب برطانیہ اور پاکستان کا کسی بھی لحاظ سے تقابل کیا جائے چنانچہ ان باتوں کا جواب یہ بھی تو ہوسکتا ہے، پچھلے 74سال سے برطانیہ یا دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی روشن مثالیں بھی تو پاکستان کے سامنے موجود ہیں تو کیا ہم نے ان مثالوں سے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔چند ایک مثالیں یوں ہیں کہ 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا تو پاکستان کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ نہیں تھی، 74سال بعد آج پاکستان کی آبادی 23کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے یعنی 16کروڑ بڑھ چکی ہے اور سب جانتے ہیں کہ آبادی کا حد سے زیادہ بڑھنا اقوام میں غربت کے ساتھ ساتھ دیگر کئی ایک مسائل کو بھی جنم دیتا ہے، دوسری طرف جب پاکستان بنا تو برطانیہ کی آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ نہیں تھی جو آج 2021ء میں صرف 2کروڑ زیادہ ہوئی ہے اس کے باوجود کہ برطانیہ میں دنیا بھر سے لوگ ترک وطن کرکے یہاں مستقل طور پر آباد ہو رہے ہیں، صرف لندن میں ہی ہر تیسرا شخص برطانیہ سے باہر پیدا ہوا ہے لندن کی تقریباً 75لاکھ آبادی میں اڑھائی ملین یا 25لاکھ سے زیادہ لوگ بیرونی دنیا سے آئے ہیں لندن کی آبادی اگر 74سال پہلے 50لاکھ تھی تو آج اس آبادی میں صرف 40لاکھ کا اضافہ ہوا ہے اور یہاں 300زبانیں بولی جاتی ہیں ۔پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی او رلاہور کی بات کی جائے تو 1947ء میں کراچی کی آبادی پانچ لاکھ اور لاہور کی آبادی سات لاکھ سے زیادہ نہیں تھی اور آج کراچی اڑھائی کروڑ سے زیادہ اور لاہور دو کروڑ آبادی والا شہر بن چکا اب بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے صرف ایک نکتے یعنی دونوں ملکوں کی آبادی کے تناظر میں پاکستان کو بطور ایک ریاست کے چلانے والوں نے اس قوم کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

سات کروڑ آبادی والے برطانیہ میں 2ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے ہسپتال، 4ہزار سے زیادہ پبلک لائبریریز ،27ہزار پبلک پارکس جن میں 3000 صرف لندن میں ہیں، انگلینڈ میں 1400فائر بریگیڈ اور 32ہزار سے زیادہ فائر فائٹرز ہیں، تقریباً 150یونیورسٹیز ہیں جن میں دنیا کی نمبرون آکسفورڈ یونیورسٹی بھی شامل ہے ۔43ٹاپ پولیس فورسز کے علاوہ 202,023کمیونٹی سپورٹ یا پولیس ورکرز بھی ہیں، یوکے بھر میں کوئی 30سے زیادہ موٹرویز جنہیں ایم روڈ کہا جاتا ہے اور سینکڑوں اے روڈ یا نیشنل ہائی ویز ہیں جبکہ پاکستان میں شائد چار موٹر وے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے کہ برطانیہ میں صدیوں سے ذکر کئے گئے ادارے اور اشیا موجود تھیں لیکن صدیوں سے علم و تحقیق کے در ضرور برطانیہ میں کھلے تھے اور یہی وہ ایک وجہ تھی جس نے یہاں تہذیب و تمدن اور اداروں کی مضبوطی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور قوم کی اخلاقی قدروں کو بلندیوں تک پہنچانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا جب ملکی ادارے مضبوط ہوئے قانون و انصاف عام آدمی اور خواص میں تمیز نہیں کرتا تھا اندازہ کریں کہ آج سے کوئی 170سال پہلے فلش کرنے والا ٹوائلٹ سسٹم صرف شاہی محل میں ہی ہوتا تھاپھر آہستہ آہستہ یہ سسٹم ہر گھر میں لازم و ملزوم ہو گیا، آج برطانیہ میں 100فیصد سیوریج کو ٹریٹ کرنے کے بعد دریا میں ڈالا جاتا ہے لیکن ،خدشات ہیں کہ اس کے باوجود کئی ملین ٹن کچرا اور سیوریج کا پانی ٹریٹ کئے بغیر دریائے ٹیمز میں چلا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں تو صرف ایک فیصد سیوریج ٹریٹ کیا جاتا ہے !!

تو پھر آخر کیا امر مانع تھا کہ پاکستان میں نہ ادارے بنے نہ یہ آزاد ہوئے نہ ان اداروں میں غریب و امیر کا فرق ختم ہوا، نہ یہاں انصاف ہوا نہ ملک و قوم کی بہتری، فلاح وبہبود کیلئے کوئی کوشش ہوئی ، سیاست آزاد و خودمختار ہوئی نہ صحافت پر دبائو یا حدودوقیود میں جدید دنیا جیسا کوئی فرق آیا۔ 74سال میں اور تو چھوڑیں پاکستانیوں کی ا خلاقی قدریں بھی پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پہنچیں، معاشرتی قدریں مفاداتی فلاسفی، حرص و لالچ کی نذر ہو چکیں، آپا دھاپی، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ مکروفریب، مار دھاڑ، اقربا پروری کے جاری نظام نے اک عجیب وغریب تہذیب کو پروان چڑھایا ہے جہاں ہر کوئی دوسرے کی ’’جیب‘‘ پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ہر کوئی ایک خاص طرح اور خاص زاویے سے دوست احباب کے ساتھ ملتا جلتا مصافحہ و معانقہ کرتا ہے، دولت کہاں ہے، فوائد کہاں سے حاصل ہو سکتے ہیں، عہدہ کس کے پاس بڑا ہے۔مالی منعفت، طمع و لالچ کے بدتہذیبی پر مشتمل ایسے اصول وضع کئے جا چکے ہیں کہ اس معاشرے میں اب یہی اصول درست سمجھے جاتے ہیں، جدید اور مہذب انسانی معاشروں کے اصول و ضوابط کی بات کرنے والے کو سرپھرا، کم عقل اور زمانے کے حساب و رواج (اپنے تشکیل کردہ) کے مطابق نہ چلنے والا مشہور کرکے دھتکار دیا جاتا ہے، جزا و سزا اور احتساب اور ملنے جلنے کے دنیا سے اچھوتے جو پیمانے اس معاشرے نے اپنے لئے درست اور منافع بخش سمجھ کر اپنا رکھے ہیں وہ بحیثیت مجموعی پوری قوم کو ذہنی بیمار اور افیون زدہ بنانے کی وجہ ہیں۔ آج پاکستان میں احساسات اصلی ہیں نہ جذبے سچے، باہمی رویے سرد اور بے مہر ہونے کے ساتھ لوگ تمیزوتہذیب اور طے شدہ انسانی اخلاقیات کو ہیچ سمجھ کر کہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں، خونی رشتوں تک میں یگانگت اور مہرووفا کی وہ گرمجوشی ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتی جو انسانی احساسات پر چلنے اور یقین رکھنے معاشروں کی بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی سمجھی اور پریکٹس بھی کی جا تی ہے، لہٰذا اس قسم کے پراگندا ماحول میں کیا آبادی پر کنٹرول، کیا عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے اور کیا صاف ستھرے سچے کھرے رشتوں، جذبوں اور انسانی انصاف، معاشرے کی ’’یو ٹوپیا ‘‘ جیسی انہونی باتیں !