خوبصورت نہیں ’’کھو بصورت‘‘

February 26, 2021

پروفیسر طاہرہ اقبال

آج کل میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے ہاتھوں بڑی تنگ ہوں ۔میں آواز دیتی ہوں ’’صہیب بیٹے !ذرا بات سنو ‘‘۔ جواب آتا ہے ۔

’’ماما!آپ نے تو میری شانتی بھنگ کردی آپ کا نالج ’’تو شنے ‘‘ہے یعنی (You don't know)میں بھوجن نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے ،میں نے صہیب کو نہیں کسی ’’سوراج ‘‘ یا ’’رام پر شاد ‘‘ کو آواز دی ہے ۔

’’بیٹے اپنی زبان بولو ،لوگ کیا کہیں گے ،ماں اردو ادب کی پروفیسر اور بیٹا_…‘‘

’’ماما میرے سارے friends speak like that اتیک بھاشا اراب یعنی (out dated ) ہے۔ میں تو ایسے ہی بولو گا ‘‘۔صہیب ہونٹ اور آنکھیں مٹکا تا ہواکوئی دوسرا انڈین چینل بدلتا ہے ۔جدھر جائو یہ نیا اسٹائل پھن پھیلائے ناگ کی طر ح ہماری شناخت کولپیٹے پھنکا رہا ہے ۔تاریخ کہتی ہے ،جب کسی قوم کی زبان ،ثقافت اور ماضی مٹادیے جاتے ہیں ،تو پھر اس کی شناخت ،اس کی انفرادیت مٹ جاتی ہے ،جو کسی قوم کے الگ وجود کے خاتمے کا آغاز ہوتا ہے ۔اسی لیے فاتحین جب کسی ملک کو مغلوب کرتے ہیں تو ساتھ ہی تاریخ وثقافتی ورثے کی ریخت اور لوٹ مار کا اذن عام بھی دیے دیتے ہیں ،تا کہ شکست خورد ہ قوم کا کوئی ماضی ،کوئی انفرادیت باقی نہ رہ پائے کہ جسے بنیاد بنا کر وہ کبھی اپنی شناخت کی تگ ودو پھر سے کرنے لگیں ۔

ہم مفتوحین کے کس در جےپر ہیں کہ ہماری زبان تہذیب ،تاریخ سب ہماری نظروں کے سامنے بھنور میں گم ہورہے ہیں لیکن بے حسی اور محکومیت سے سرشار خوش ہیں کہ ہمارے بچے ماڈرن ہورہے ہیں ۔

ہمارے بڑے جو زبان بولتے تھے اس میں اردو کے پیوند لگا کر انگریزی کو ہندی کے پیوند لگاتے ہیں ،کیوں کہ سارے ہندوستانی چینلز پر جوزبان بولتے ہیں وہی روز مرہ ہمارے بچوں کا بنتا جارہا ہے ۔اُن چینلز پر بچوں کو جو پروگرام دکھائے جاتے ہیں وہ ایسے دل چسپ اور معلوماتی ہوتے ہیں کہ ایک لفظ اپنی بھر پور شناخت کے ساتھ بچوں کی یاد داشتوں کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کے متبادل الفاظ اگر وہ سنتے بھی ہیں تو اس قدر غیر دل چسپ اندازمیں کہ وہ یاد داشتوں کو چھوڑ شناخت کے کسی عمل کو بھی نہیں گدگدا پاتے۔

تمام مشہور کارٹون ،فلمز ،کارٹون چینلز ،جیو گرافک چینلز ،بچوں کی ڈرامائی فلمیں اور ڈرامے سب کی ہندی ڈبنگ موجود ہے ،جو اپنی زبان کو اس خوب صورتی سے ہمارے بچوں کے ذہنوں میں اتاررہے ہیں کہ ایک بار سنا ہو الفظ انہیں ازبر ہوجاتا ہے اور اپنی زبان کی یادداشتوں سے محو ہوجاتے ہیں ۔ لڑکیاں ’’ہائے اللہ مرگئی ‘‘ کی بجائے ’’ہائے راما‘‘ کہہ کر مرتی ہیں اور یہ تو مدت ہوئی کہ ہماری زبان سے خ غ اور ج وغیرہ ختم ہوچکے ہیں ۔اب ہم ’’کھو خوب صورت ‘‘،’’کھش کھیال ‘‘ ،’’گریب ‘‘ اور ’’جرور ‘‘ وغیرہ بولتے ہیں ۔ ساسوماں اور دیدی بولتے ہیں ،یعنی ہماری زبان ،لباس اور رشتوں تک کو ان ڈراموں اور فلموں نے لپیٹ لیا ہے ۔

وہ ملک جہاں کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہے وہ اپنے ڈراموں ،فلموں میں جو ماحول پیش کرتے ہیں ،اس کا گلیمر دیکھ کر بچے اور خواتین اسے کوئی خوابوں کادیس ہی سمجھتے ہیں جہاں سون پریاں اترتی ہیں اور وکرال اور گبرال سونے کے سکے اچھالتے پھرتے ہیں۔جہاں لاکھوں بچے فٹ پاتھوں پر جنم پاتے اور وہیں مرجاتے ہیں ،جہاں ایک وقت کا کھانا کم لوگوں کو جڑتا ہے اور جھوپڑیوں اور کھولیوں کی اصطلاح وہیں سے آتی ہیں ،کاش اک جھلک ان حقائق کی بھی کوئی ہمارے بچوں کو دکھا دے ،ا س ریا کار سحر کاری کے مقاصد انتہائی ہولناک ہیں ویسے ہی خطرناک جیسے برسو ں پہلے مشرقی پاکستان کو فیڈ کیے گئے اور بالآخر وہ انہی کی بولی بولنے لگے۔ان پروگراموں سے ہمارے بچےصرف اپنی زبان اور ثقافت ہی نہیں بھول رہے عقائد اور نظریات ہی نہیں تبدیل کررہے بلکہ وہ قبل ازوقت ذہنی اور جذباتی ہیجان سے بھی دو چار کیے جارہے ہیں ۔کارٹونز فلمیں تک لواسٹوریزپر مشتمل ہوتی ہیں ۔یہ سب ہمارے بچے دیکھ رہے ہیں ۔

اشتہار تک دیکھنے کی تاب نہیں رہتی ۔حد تو یہ کہ وہ گر افک چینل جو جنگل کے جانوروں کی زندگیوں کا مطالعہ پیش کرتا ہے اور انتہائی مفید معلومات فراہم کرتا ہے ۔کیا ہمارے ٹی وی پروگرام ترتیب دینے والے اس قدر بے بس ہیں کہ انہیں انگریزی پروگراموں کے قابل اعتراض مناظر حذف کرکے اردو میں ڈبنگ کرکے اپنے چینلز پر نہیں دکھا سکتے ۔پرکیوں _…ہمیں تو آپادھاپی پڑی ہے ۔

قومی اور ملکی نوعیت کے معاملات سےہمیں کیا ۔ہمیں تو اپنی اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے اپنے آقائوں کی خواہشات کی تکمیل اور نتیجتاً اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت ہی کہاں ۔ملکی وقار اور قومی شناخت کسی چیز کا نام ہے؟ ان فلموں ڈراموں کا ایک اور خاص پہلویہ ہے کہ برائی کو ایسے گلیمرس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ہیرو کی بجائے ولن اور اچھائی کی بجائے برائی زیادہ متاثر کرتے ہیں اور بچے اسی کو اپنا لیتے ہیں ۔کسی بھی ہندی ڈرامے کو دیکھ لیجیئے ۔

منفی کردار ،منفی جذبے ،منفی ارادے ،پورے ڈرامے کو لپیٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔کوئی نہ کوئی سازش چل رہی ہوگی کسی کو مارنے یا لوٹنے یا بے وقوف بنانے کی پلاننگ ہورہی ہوگی ۔بڑوں کو قابل احترام رشتوں کو الٹ کر جواب دینا،فقرہ بازی ،جملہ اچھال کرمنہ پر مارنا جسے مجموعی طور پر بد تمیز کہا جائے یہاں طباعی اور ذہانت کا معیار سمجھا جاتا ہے دھوکا دہی ،مکاری اوربرائی سکھانے کی یہ اکیڈمیاں ہیں جو دن رات ہمارے گھروں میں کھلی ہوئی ہیں ۔شاید یہ خاص ہندو انہ ذہینت کی عکاسی پر مجبور ہیں لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے بچے ان سے متاثر ہوکر منفی کردار ساخت کررہے ہیں پر افسوس کہ یہ افیون زدہ قوم بے حسی کے اس درجےپر ہے جہاں اپنے ہی جسم کی قطع برید کا احساس خود کو ہی نہیں ہو پاتا۔

نوٹ:کوئی کچھ نہ کرے لیکن اب خواتین کو بچوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ،ورنہ بہت کچھ بدل سکتا ہے ،ایسا بدلائو جو شاید ناقابل برداشت ہو ۔