جاپانی ناول نگار ’’ماسوجی ایبوسے‘‘

February 08, 2021

دوسری جنگ عظیم نے جہاں دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی جان لی، وہیں کئی ایسی واقعات رونما ہوئے، جن کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ اس جنگ میں ایسا ہی ایک غیر معمولی واقعہ ایٹم بم کا استعمال تھا، اس خطرناک ترین بم کانشانہ جاپانی شہر’’ہیروشیما‘‘اور’’ناگاساکی‘‘بنے۔ لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔ اس واقعہ نے انسانیت کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا۔ دنیا بھر سمیت جاپانی ادب میں، اس تناظر میں بہت کچھ تخلیق کیا گیا، بلکہ موجودہ ادبیات میں آج تک یہ واقعہ موضوع سخن بنا ہوا ہے۔

اس حوالے سے، جس جاپانی ادیب کو شہرت ملی، ان کا نام’’ماسوجی ایبوسے‘‘ ہے۔ ان کے سب سے مشہور ناول کا جاپانی نام’’کوروئی آمے‘‘ ہے۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ’’بلیک رین‘‘ کے عنوان سے ہوا،جبکہ’’جون بسٹر‘‘اس کے انگریزی مترجم ہیں۔ یہ ناول اردو زبان میں’’کالی بارش‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہوا، جس کو معروف اردو مترجم’’اجمل کمال‘‘نے اردو میں ترجمہ کیا۔

انہوں نے اردو میں ترجمہ نگاری کے علاوہ، پیش لفظ میں بہت جامع انداز میں، اس ناول کے خالق اور اس تخلیق کے بارے میں اظہار خیال کیا، جس کو پڑھ لینے کے بعد، ناول کا سیاق و سباق سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس ناول کی اشاعت اردو زبان میں، اشاعتی ادارے’’مشعل ‘‘کے توسط سے ہوئی تھی، جبکہ اس کو جاپانی تجارتی ادارے کا تعاون بھی حاصل تھا۔

جاپانی ادیب’’ماسوجی ایبوسے‘‘ 1898میں پیدا ہوئے، جبکہ ان کا انتقال 1993 میں ہوا۔ آپ کی پیدائش جاپان کے صوبے ہیروشیما کے ایک مقام’’کامو‘‘ کی ہے۔ ابتدائی تعلیم وسیدا یونیورسٹی، ٹوکیو سے حاصل کی۔ درسی ضرورت کے تحت فرانسیسی ادب کا مطالعہ کیا، لیکن ذاتی دلچسپی روسی ادبا میں تھی۔ ان کی پہلی کہانی 1923 کو ایک جاپانی ادبی رسالے میں شائع ہوئی۔

انہوں نے واحد متکلم انداز تحریر کو برتتے ہوئے متاثر کن فکشن تحریر کیا، صرف یہی نہیں بلکہ اپنی کہانیوں کے ذریعے اس صنف میں بہتری بھی لائے، البتہ ان کی کہانیوں اور کرداروں کی بنت میں مغربی ادب کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص ان کی ادبی تخلیقات پر برطانوی ادیب اور شاعر’’ولیم شیکسپیئر‘‘ اور کلاسیکی جاپانی شاعر’’باشو‘‘ کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم سے کچھ عرصہ قبل یہ جاپانی فلموں کے لیے بطور فلم نویس بھی اپنے فلمی کیرئیر کی ابتدا کرچکے تھے۔

دوسری جنگ عظیم کا آنکھوں دیکھا حال ان کے دل میں پناہ گزیں تھا، انہوں نے جس کو پل پل محسوس کرتے ہوئے اپنافکشن تخلیق کیا اور ان کی تخلیقات میں سرفہرست ان کا ناول’’کالی بارش‘‘تھا، جس کی اشاعت 1965کو جاپانی زبان میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدا میں یہ ناول، ایک جاپانی ادبی رسالے کے لیے قسط وار لکھا، بعد میں یہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔

جاپانی ادب میں دوسری جنگ عظیم کے اس دلخراش واقعہ کے تناظر میں لکھے گئے ادب میں، اس ناول کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے ناول، افسانے، اسکرپٹ نویسی سمیت ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کی تخلیقات کے تراجم انگریزی سمیت دیگر کئی بڑی زبانوں میں بھی ہوئے، جس سے ان کی عالمی شہرت میں اضافہ ہوا۔ ان کے عالمی شہرت یافتہ ناول’’کالی بارش کا انگریزی ترجمہ 1966 میں جبکہ اردو ترجمہ 1993 میں کیا گیا۔

اس ناول کے اردو مترجم’’اجمل کمال‘‘ پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ’’اس المیے کا سامنا کرکے زندہ رہ جانے والے چند انسانوں کی کہانی بیان کرنے کے لیے’’ایبوسے‘‘ نے ایک نہایت موثر تخلیقی ہیت وضع کی ہے۔ ناول کا بیانیہ زمانی اعتبار سے چار مختلف سطحوں پر متواتر حرکت کرتا ہے: جنگ سے پہلے کا پرسکون اور ہموار وقت، جنگ کے دوران کا، فوجی فسطائیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دشواریوں سے پُر زمانہ، جنگ کے نقطۂ عروج پر بم کی ہلاکت خیزیوں کے دن اور جنگ کے خاتمہ کے بعد کی زندگی۔ یہ ناول کوئی پیچیدہ پلاٹ نہیں رکھتا۔

اس کی تمام تر کہانی درحقیقت معمر’’شیگے ماتسو‘‘ کی ان کوششوں پر مبنی ہے، جو وہ اپنی بھتیجی ’’یاسوکو‘‘ کو اس سماجی بدنامی سے بچانے کے لیے کر رہا ہے کہ وہ ایٹم بم کی تابکاری کی زد میں آنے کے بعد شادی کے قابل نہیں رہتی‘‘ اس طرح ناول میں کرداروں کی نفسیات، ان کا پس منظر اور کہانی کی مختلف جہتوں کو بہت عمدہ انداز سے بیان کیا گیا ہے۔

جاپان کے معروف فلم ساز’’شوہئی امامورا‘‘ نے اس معروف ناول’’کالی بارش‘‘ پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ ناول کے عنوان سے فلم کا نام تراشا گیا۔ یہ فلم 1989 میں نمائش کے لیے پیش ہوئی اور بہت کامیاب ٹھہری۔ اس بلیک اینڈ وائٹ فلم کو جاپانی سینما کے اعلیٰ ترین اعزازت ملے، جس میں جاپان اکادمی ایوارڈ برائے بہترین فلم اور بہترین ہدایت کار بھی شامل ہیں۔ اس فلم کے اداکاروں میں’’یوشیکو تاناکا‘‘ اور’’کازو کیتامورا‘‘ سمیت متعدد اداکاروں نے بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس کو فرانس کے مشہور فلمی میلے’’بیالیسویں کیننز فلم فیسٹیول‘‘ میں بھی اعزاز سے نوازا گیا۔

دوسری جنگ عظیم پر لکھا ہوا یہ ناول اور اس پر بنائی گئی فلم یہ سبق دیتی ہے کہ تاریخ کو کیسے محفوظ کیا جائے۔ ادب میں ناول کی صنف اور سینما میں فیچر فلم کے میڈیم میں، اس کو بہترین طریقہ سے پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے، دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں یہ ناول اور فلم یادگار سمجھی جاتی ہے۔