ریٹائرمنٹ کے بعد آمدنی کیلئے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری

February 12, 2021

جدید دور میں کام کرنے کے انداز بدل رہے ہیں اور ادارے ماضی میں ملازمین کو جن نام نہاد ’’پُرکشش فوائد‘‘کے ساتھ نوکری کی پیشکش کرتے تھے، ان میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو ایک زمانہ ہوتا تھا کہ گریجویشن کے بعد کئی لوگوں کو سرکاری نوکری مل جایا کرتی تھی، اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آپ نے آئندہ 35 سے40برسوں تک آرام سے نوکری کرنی ہے۔ پھر 60سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد اتنی پنشن مل جایا کرتی تھی کہ آپ سکون سے ریٹائرڈ زندگی گزار سکتے تھے۔

اب ایک تو سرکاری نوکری ملنا بتدریج مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے تو ساتھ ہی گزشتہ دہائیوں سے مختلف حکومتیں ان منصوبوں پر بھی کام کرتی رہی ہیں کہ کس طرح ریاستی خزانے پر پنشن کے بوجھ کو کم کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنے والے وقتوں میں سرکاری پنشن کی کشش اور افادیت میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ، نجی شعبہ کی بات کریںتو ریٹائرمنٹ کے بعد ای او بی آئی کی ملنے والی ماہانہ رقم اس قابل نہیں ہوتی کہ ایک شخص اطمینان سے ریٹائرڈ زندگی گزارسکے۔

تقریباً پوری دنیا میں یہی صورتِ حال ہے۔ یہاں تک کہ، امریکیوں کے لیے پنشن ماضی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ 1980ء تک 60فی صد امریکیوں کو ’کمپنی فنڈڈ ریٹائرمنٹ پلان‘ کی سہولت حاصل تھی۔ 40سال بعد، آج امریکا کے نجی شعبے میں کام کرنے والے محض 4فی صد افراد کو یہ سہولت میسر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا بھر میں وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ، ریٹائرمنٹ کے بعد آمدنی کے فوائد سے محروم ہورہے ہیں۔

ایسے میں ریٹائرمنٹ کے بعد آمدنی کا مسئلہ آخر کس طرح حل کیا جائے؟ اس کا ایک طریقہ ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری ہوسکتا ہے۔ خصوصاً کسی زیرِ تعمیر یا تعمیرشدہ اپارٹمنٹ / بلڈنگ میں فلیٹ بُک کرنا یا خریدنااور قبضہ ملنے کے بعد اسے کرایہ پر چڑھا دینا۔ یہ ہر مہینے کرایہ کی مد میں مستحکم آمدنی کا ایک مؤثر اور فعال ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہرچندکہ ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے اپنے چیلنجز اور خطرات ہوتے ہیں، جیسے کہ قیمتوں میں کمی ہوجانا لیکن طویل مدت میں ریئل اسٹیٹ کی قیمتیں کبھی بھی کسی سرمایہ کار کے لیے نقصان کا باعث نہیں بنتیں۔ ہر ماہ مستحکم کرایہ کی آمدنی کے علاوہ، درج ذیل طریقوں سے بھی ریئل اسٹیٹ کی اہمیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

قیمتوں کا بڑھنا

ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں پیسہ کمانے کا سب سے بڑا طریقہ قیمتوں میں اضافہ ہے۔ آپ نے یقیناً دیکھا ہوگا کہ کچھ جائیداد کی قیمت بہت تیزی سے جب کہ کچھ کی آہستگی سے بڑھتی ہے، مگر بڑھتی ضرور ہے۔ ریئل اسٹیٹ ماہرین کے مطابق، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ طویل مدت میں کسی جائیداد کی مالیت میں کمی واقع ہو۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور سب کی رہائش کا بندوبست کرتے کرتے شہر پھیلاؤ کا شکار ہیں۔ یوں کوئی زمین سستی ہوجائے یہ ممکن ہی نہیں۔ اس کے لیے آپ کو ایک چیز کا خیال رکھنا ہوگا کہ ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد اگر آپ اِسے بیچنے کا ارادہ کریںتو اُس وقت کا انتظار کر کے بیچیں جب اُس کی قیمت اُس سطح تک پہنچ جائے کہ آپ کو فروخت کرنے میں مناسب منافع ہو۔

پاکستان میں مکانات کی تعمیر کے لیے 20سال کے عرصے تک بینکوں سے مارگیج قرض مل جاتا ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ اتنے عرصے کے لیے جس نے قرض لیا ہو اُسے قرض کی اصل لاگت سے 150 سے 200فیصد زائد رقم ادا کرنی پڑتی ہے مگر مارکیٹ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جائیداد کی قیمت میں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

زمین میں سرمایہ کاری

ریئل اسٹیٹ سے شناسائی رکھنے والے افراد یہ جانتے ہیں کہ یہاں سب سے زیادہ فائدہ ایسی زمین میں سرمایہ کاری کرنے کا ہے جو وقتِ خرید ڈیویلپ نہ ہوئی ہو۔ یعنی شہر سے دور ایک ایسی جگہ زمین خریدنا جہاں ابھی سڑکوں، بازاروں اور ہسپتالوں کا جال نہ بچھایا گیا ہو۔ یاد رہے کہ طویل مدتی سرمایہ کاری کی غرض سے ایسی جگہوں پر دس سال تک کے لیے پیسہ لگانا چاہیے۔ جس تیزی سے شہر بڑھ رہے ہیں، مختلف بلڈرز کی اپنے پراجیکٹس کے لیے نگاہیں شہر سے باہر کی طرف جاتی ہیں اور ایک بار وہاں تعمیرات کا آغاز ہوگیا تو آپ کی سستے داموں خریدی ہوئی زمین کو پَر لگ جاتے ہیں۔

کرایہ کی آمدنی

آپ جائیداد کو فروخت کر کے تو رقم کما ہی سکتے ہیں مگر فروخت کیے بغیر بھی رقم کمائی جاسکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی جائیداد کو کرایہ پر چڑھا دیں۔ آپ اپنا گھر کسی کو رہائش کے لیے دینے سے تو آگاہ ہوں گے ہی مگر آپ اپنی خالی زمین مختلف کاروباری کمپنیوں کو بھی دے سکتے ہیں، جنھیں وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔