’’بیٹی‘‘ کی عظمت اور اُسوہ نبویﷺ

February 19, 2021

کشف الدُّجیٰ

اللہ تبارک وتعالیٰ نےقرآنِ مجیدفرقانِ حمید میں انسان کواپنا خلیفہ و نائب قراردیا۔اس کااندازہ اس بات سےلگایاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نےانسان کواشرف المخلوقات کےعظیم درجےپرفائزکیا۔ تخلیق انسانی کامقصدخدائےبزرگ و برترکی وحدانیت کااعتراف ہے۔اللہ تعالیٰ نےتخلیقِ انسانی کے بعدحکمتِ الہٰی کےتحت ہرجاندارکودواصناف میں خوبصورتی سےتقسیم کردیا۔انسان نےمردوزن کی تقسیم کوبرابری کی بجائےکم تری کےمعیارپرپرکھا۔عورت کوقبل ازاسلام ذلت اورحقارت کاسامنارہا۔۱۴۰۰سوسال قبل بشمول جزیرۃالعرب اورعصرِ حاضرکاترقی یافتہ یورپ جہالت وتاریکی کی آغوش میں تھے۔

قبائلِ عرب میں عورت کےحقوق واحترام کاادنیٰ ٰتصوربھی موجودنہ تھا۔انسانی تاریخ نےوہ ہولناک منظر بھی پیش کیا جب والدمفلسی اورکبھی شرمندگی کےخوف سےنومولودبیٹیوں کوزندہ درگورکردیتےتھےاوراس قبیح عمل سےسکون اوراطمینان محسوس کرتے۔خاص طورپرقبیلہ مضر،خزاعہ اوربنوتیم کےقبائل میں یہ رواج عام تھا۔قرآن کریم میں ان دل سوز واقعات کی منظر کشی یوں کی گئی ہے: اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی (پیدا ہونے) کی خوشخبری ملتی ہے تو اس کا چہرہ (افسوس کی وجہ سے) کالا پڑجاتا ہے اور وہ دکھ سےبھرجاتاہے۔(سورۃالنحل:۵۸)

سرکارِدوعالم حضرت محمدﷺ جملہ کائنات کےلیےرحمۃ للعالمین بن کر آئے۔آپﷺ نےصنفِ نازک کووہ حقوق اور مقام ومرتبہ عطاکیا جوقبل ازاسلام کوئی تہذیب و مذہب دینے سےقاصر رہے۔ قرآن کریم کےمطابق مردوزن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےبلاامتیازمشیتِ ایزدی کےتحت پیدافرمایا۔قرآن کریم میں انسان کی پیدائش کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے: لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سےپھر تمہیں جوڑے جوڑے (مرد و عورت) بنایا، عورتوں کا حاملہ ہونا اور بچوں کا پیدا ہونا سب اس کے علم سے ہی ہے۔(سورۃالفاطر:۱۱)

اس سےظاہرہوتاہےکہ اولادکی تخلیق اللہ تعالیٰ کی منشاءسےہے،والدین پیدائش کامحض وسیلہ ہیں۔اکثر افراد بیٹی کی پیدائش کوعورت کاقصور گردانتےہیں اورنوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔حالاںکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی عمل اور انتہائی غلط رویہ ہےجس کاقلع قمع کرناضروری ہے۔(تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے۔( سورۃ الشوریٰ ۴۹)

لوگ جس عورت کوزحمت اوررُسوائی کاسبب سمجھتے تھے۔سرورِ کونین ﷺنےاسی عورت کوبیٹی کےروپ میں باپ کے لیے رحمت، بھائی کےلیےعزت،بیوی کےروپ میں شوہر کےایمان کی محافظ اور ماں کےقدموں تلےجنت کی بشارت عطاکی۔آپﷺ نے بیٹی کی بہترین پرورش پردُنیاوآخرت کی بھلائی اور جنت کی بشارت عطا فرمائی۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سےمروی ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کسی کے تین لڑکیاں ہوں اوروہ شخص ان کی تکلیف اور معاشی پریشانیوں پر صبر کرے تو ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جنت عطافرمائے گا۔اس پر کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ ﷺ! اگر کسی کے دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو؟فرمایا:دو لڑکیاں ہو ں تو بھی( اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا )۔پھر کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ ﷺ !اگر ایک ہی ہو ؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:گرچہ ایک ہی ہو( تو بھی اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا) ۔(مسند احمد)

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی“۔(ترمذی)

رحمۃ للعالمین سرکارِ دوعالمﷺ نےعورت کوہروہ جائزحق اورعزت عطاکی، جس کی وہ صدیوں سےمنتظر اورحقدار تھی۔اسلام نےعورت کواولادکی پہلی درس گاہ قراردیا،اس سےظاہرہوتا ہےکہ افرادِ معاشرہ کی تربیت کی اولین ذمہ داری قدرت نےعورت کےسپردکی ہے۔عورت نصف انسانیت ہے،مردانسانیت کےایک حصے کی ترجمانی کرتا ہے،جبکہ ایک حصے کی ترجمان عورت ہے۔لہٰذا ایک لڑکی کی بہترین تعلیم وتربیت ایک نسل کی تربیت ہے۔

بیٹی کی عظمت و اہمیت کے پیشِ نظر اس کی عزّت و عفّت کی حِفاظَت کے لیے اسلام نے اس کی تعلیم وتربیت کے سنہری اصول عطا فرمائے ہیں دورِنبویﷺ میں مردوں کےوعظ ونصیحت کی طرح عورتوں کےلیےبھی خاص دن مقرر تھا جس میں وہ رسول اللہﷺ سےاحکام سماعت کرتیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم وتربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی (المعجم الکبیر، طبرانی)

حضور اکرم ﷺکی چار بیٹیاں تھیں : حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ۔ آپ ﷺ اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے ۔حضور اکرم ﷺحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بہت ہی شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا کرتے ۔ نبی اکرم ﷺجب سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے۔

بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، عورت بیٹی ہے تواسوہِ فاطمہؓ کورہبربنائے،بہن ہےتوحضرت زینب بنتِ حسین رضی اللہ عنہا کے کردار و گفتار کو اپنائے، عورت مرد کے لیے بہترین شریکِ حیات اسی وقت بن سکتی ہے، جب سیرتِ خدیجہؓ سےرہنمائی لے، وہ ایک مشفق ”ماں“ اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جب کہ اس کی رہنماحضرت ہاجرہ ؑومریمؑ ہوں، جنہوں نےبرگزیدہ پیغمبروں کی پرورش کی۔عورت معاشرےمیں بنیادی اکائی کا درجہ رکھتی ہے،لہٰذا ضروری ہےکہ بیٹی کو جائزحقوق اور بہترین تعلیم وتربیت کےزیورسےآراستہ کیاجائے۔اسلام کےزریں اصولوں کےپیرائےمیں تربیت یافتہ بیٹی ملک وقوم کابہترین سرمایہ ہے۔

آپﷺ کی سیرت مطہرہ اورعالمگیر تعلیمات اس امرکی متقاضی ہیں کہ مردوزن میں عادلانہ طرزِفکروعمل کو اختیار کیاجائے۔عصرِحاضرمیں مغربی تعلیم وتہذیب کے چکاچوند کردینے والے چراغ کافی نہیں ہیں، بلکہ زندگی کی حقیقی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے اسلامی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنا بے حد ضروری ہے، مغربی تہذیب کے چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتے ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات کے ستاروں کا نوردائمی حقیقت ہے۔