مشتاق مہر کو آئی جی کے عہدے سے ہٹانے کے مطالبے کے پیچھے کون؟

February 24, 2021

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمے کے اندراج اور ان کی گرفتاری کے بحران کے تناظر میں پارٹی کی لیڈر شپ اور صوبے کی اہم شخصیت کی جانب سے بیک جنبش آئی جی سندھ کے عہدے سے مشتاق مہر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اس معاملے میں حکومتِ سندھ کے کرتا دھرتاؤں کو نشانہ بنانے یا پولیس کے دیگر ذمے دار بعض افسران کو موردِالزام ٹھہرانے کی بجائے آئی جی سندھ مشتاق مہر ہی نشانے پر کیوں ہیں؟

اس بارے میں کراچی کے چند ماہ قبل تک کے ماضی، حال اور مستقبل کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو مختلف نوعیت کے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، لیکن پہلے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کے حالات و واقعات پر بات کرنا ضروری ہے۔

کراچی کے حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران سوشل میڈیا کی چند ایک ویڈیوز کا جائزہ لیں تو اس میں یقینی طور پر اپوزیشن لیڈر کا اس روز کا عمل ایک حد تک قابلِ دست اندازیٔ پولیس لگتا ہے۔

اس مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی جو دفعات عائد کی گئی ہیں ان کے حوالے سے رپورٹس کے مطابق سیون اے ٹی اے براہِ راست پولیس کی جانب سے لاگو نہیں کی گئی بلکہ اس روز کے حالات و واقعات کی سمری حکومتِ سندھ کو بھیجی گئی تو صوبے کے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مقدمے کے اندراج اور اس میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کی منظوری دی گئی، انہی ہدایات کی روشنی میں پولیس نے مقدمہ درج کیا۔

حلیم عادل شیخ کی گرفتاری ضلعی ایس ایس پی کے عہدے کے افسر نے خود کی، مقدمہ ایس ایچ او کی جانب سے قائم کیا گیا، تفتیش کے معاملات ایس پی انویسٹی گیشن نے سنبھالے، مقدمے کے اندراج، ملزمان کی گرفتاری اور انہیں عدالت میں پیش کرنا بھی آئی جی سندھ جیسے عہدے کے کسی افسر کی سازش کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ اہم ترین قانونی ذمے داری ہوتی ہے۔

یقینی طور پر مقدمے کے اندراج میں حلیم عادل شیخ کی گرفتاری یا دیگر عوامل کے پیچھے کے یہ تمام کردار ہی ان تمام اہم معاملات کے ذمے دار ہیں جنہوں نے قانون کی بالا دستی کیلئے یہ سب کچھ کیا، ایسے میں صرف انسپکٹر جنرل پولیس سندھ پر ہی ذمے داری عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کی حفاظت، اسے کسی بھی محفوظ مقام پر رکھنا، اسے عدالت لانا، لے جانا یا ریمانڈ کے دوران کسی بھی آنچ سے بچانا انویسٹی گیشن افسر یا کسٹڈی کے مقام کے افسر کی ہی ذمے داری ہوتی ہے۔

گرفتاری یا حراست کے دوران کسی ملزم کے ساتھ کوئی بدسلوکی ہو، اس کی زندگی کیلئے خطرے کا باعث بننے والا کوئی حادثہ ہو یا واردات، اس کی بھی تمام ذمے داری انویسٹی گیشن افسر یا حراست کے مقام کے ذمے داروں پر عائد ہوتی ہے۔

اس طرح کے فیصلے ایس ایس پیز، ڈی آئی جیز یا زیادہ سے زیادہ ایڈیشنل آئی جیز کے عہدے کے افسران کی مشاورت سے کیئے جاتے ہیں۔

قانونی طور پر اگر اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کی کسٹڈی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے آفس یعنی سی آئی اے سینٹر صدر کی عمارت میں تھی اور وہاں حلیم عادل شیخ کے خلاف کوئی سازش کی گئی، ان کے کمرے میں سانپ چھوڑ اگیا یا اتفاقی طور پر نکل آیا تو اس کی ذمے داری ایس آئی یو کے ایس ایچ او، ڈیوٹی افسر یا ہیڈ محرر کی ہوسکتی ہے۔

سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے شایانِ شان سیکیورٹی کے انتظامات نہ ہونے کی صورت میں ایس آئی یو کے ڈی ایس پی یا زیادہ سے زیادہ ایس ایس پی کے عہدے کے افسر سے باز پرس کی جا سکتی ہے۔

ڈی آئی جی سی آئی اے کو بھی کسی حد تک انتظامی امور میں کمی پر موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ ان کے نچلے عملے نے انسدادِ دہشت گردی کے مقدمے کے ملزم اور اہم سیاسی لیڈر سے چند گھنٹے کے دوران ان کے قریبی 12 افراد کو ملنے کی اجازت کیوں دی؟

اس سلسلے میں ذمے دار بھی ایس ایچ او، ڈیوٹی افسر یا ہیڈ محرر ہو سکتا ہے یا پھر ڈی ایس پی، ایس ایس پی ایس آئی یو، ڈی آئی جی سی آئی اے اور ان کے بھی اوپر ایڈیشنل آئی جی کا عہدہ چھوڑ کر براہِ راست آئی جی سندھ کے عہدے کے افسر کو ہی کیوں ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے اور آئی جی سندھ کے عہدے کے افسر کو ہٹانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ بات اس حوالے سے زیادہ اہم ہو جاتی ہے جب اس طرح کے مطالبات صوبے کی اہم شخصیت کی جانب سے کیئے جا رہے ہوں۔

کسی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر وہاں کی حکمران سیاسی جماعت یا حکومتی عہدے داروں کو کسی بھی بے قاعدگی کے ذمے دار قرار دے سکتے ہیں، صوبے کا آئینی سربراہ حکمران پارٹی کے وزیرِ اعلیٰ اور وزراء کو طلب کر کے بات کر سکتا ہے لیکن ڈائریکٹ کسی ایک اور اہم انتظامی افسر کو ہٹانے کی سفارش کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہی ہے، جن کے جواب جاننے کیلئے صوبے کے ماضی، حال اور مستقبل کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔

اس حوالے سے میں نے کئی متعلقہ کرداروں سے بات کی اور صرف آئی جی سندھ کو ہٹانے کے مطالبے کے اسباب جاننے کی کوشش کی تو اشارے کراچی کے گزشتہ چند ماہ کے حالات و واقعات کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔

حالانکہ ان حالات و واقعات کے تناظر میں متعلقہ انتہائی اہم فریق کی جانب سے وعدے کے عین مطابق برق رفتار ’انصاف‘ دیکھنے کو ملا، اس ایک واقعے سے جڑے تمام کرداروں کو بیک جنبش مثال بنا دیا گیا تھا، جس کے بعد گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران یہ افواہیں سرگرم تھیں کہ ان فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے بعد باری ان تمام حالات و واقعات کے اہم ذمے دار پولیس افسران کی تھی اور ان کے تبادلے یقینی دکھائی دے رہے تھے لیکن اس سلسلے میں ہر طرح کے اندازے، افواہیں، مصدقہ اطلاعات اور اندر کی خبریں تاحال سچ ثابت نہ ہو سکیں۔

ذرائع کے مطابق مشتاق مہر کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے کے حالیہ مطالبے کے پیچھے درحقیقت کراچی کے وہی حالات و واقعات کے اثرات ہی لگتے ہیں اور اس حالیہ اہم مطالبے کے تانے بانے اسی واقعے کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ اسی تناظر میں سندھ پولیس کے کچھ افسران بعض سیاسی کرداروں کی پشت پناہی میں ہوں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ کی جانب سے سالہا سال سے صوبے میں براجمان پولیس افسران کو سندھ بدر کرنے کے اشاروں کے بعد ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے مبینہ افسران کی جانب سے تبادلے کی بندوق سیاسی کرداروں کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔

اس مطالبے کے تناظر میں وفاق اگر آئی جی سندھ کی تبدیلی کیلئے سندھ کی صوبائی حکومت کو خط لکھتا ہے تو مشتاق مہر کو ہٹانے کی ٹھوس وجوہات بھی ظاہر کرنا ہوں گی، یقینی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اس پتے کو پاکستان تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف انتہائی سیاسی چال کے طور پر استعمال کرے گی۔

اگر وفاق سندھ حکومت سے کوئی 3 نام آئی جی سندھ کے عہدے کیلئے مانگے تو یہ بہت دور کی بات نظر آ رہی ہے، اس معاملے میں عدالتی چارہ جوئی بھی سامنے آ سکتی ہے۔

صورتِ حال کچھ بھی ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 5 سال کے دوران سندھ پولیس دوبارہ اسی طرح کی صورتِحال کا شکار ہونے جا رہی ہے جو دو سے تین بار پہلے بھی صوبے میں پیش آ چکی ہے، یعنی آئی جی سندھ کے عہدے پر مشتاق مہر بھی اے ڈی خواجہ اور کلیم امام کی طرح انتہائی متزلزل صورتِحال کا شکار رہیں، آنے والے مہینے سندھ پولیس کے افسران کے لیے ہل چل اور بد دلی کا باعث ہو سکتے ہیں، اللّٰہ خیر کرے۔