احمد ندیم قاسمی ایونیو

February 26, 2021

داتا کی نگری یعنی لاہور بڑا ہی غریب نواز شہر ہے۔ مسافر نواز بھی ہے اور مہاجر نواز بھی۔یہاں ہجرتوں کے مارے راہرو آتے ہیں اور یہ انہیں اپنی شفقت بھری گود میں سمیٹ لیتا ہے۔مسافروں کو اتنا پیار دیتا ہےکہ وہ اپنا رختِ سفر کھول لیتے ہیں ۔لاہور کی اپنائیت بھری خوشبو سے سرشار ہوائیں جب ان سے سرگوشیاں کرتی ہیں تووہ سب کچھ بھول بھال کر یہیں کے ہوجاتے ہیں ۔پھر انہیں کوئی اور شہر یادہی نہیں رہتا۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے یہاں بے گھروں کی پناہ گاہیں قائم کرکے اس شہر کو کچھ اور ’’غریب نواز‘‘بنا دیا ہے ۔

مجھے یادہے میں جب پچیس برس پہلے لاہور گیا تھاتو یہ لازوال گیت میری سماعت میں شہد ٹپکانے لگا تھاکہ تم یہیں کے ہو ۔اِسی دیا ر ِ دلنوازکے ہو۔تم نے جہاں آنا تھا وہیں آگئے ہو۔ یہیں بنارس کی صبحیں نکھرتی ہیں ۔یہیں شیراز کی شامیں بکھرتی ہیں ۔انہی گلیوں میں پیرس کی راتیں آباد ہیں ۔میری طرح بے شمارلوگ لاہور آتے ہیں اور پھر کہیں نہیں جاتے بلکہ کہیں جا کربھی لاہور کے ہی رہتے ہیں۔میں نے کچھ دیر سوچا۔کئی فقیروں کے نام ذہن میں گونج اٹھے۔ ”شاعرِ لاہور“ شعیب بن عزیز یاد آئے۔ ان جیسا کوئی افسرپاکستان میںکم ہی ہوگا ۔وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے مگر آج بھی ان کا کل اثاثہ ”شاعری“ ہے۔انہوں نے لاہور کےلئے کہا تھا،

مرے لاہور پر بھی اک نظر ہو

ترا مکہ رہے آباد مولا

لاہور کا ایک اور فقیر یاد آگیا ﷲ تعالیٰ اسے اپنے جوارِ رحمت میںجگہ دے ۔اُس فقیر کا نام احمد ندیم قاسمی تھا۔میں جب میانوالی سےمسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کو ان کے نام خط لکھ کردیتا تھاتووہ ان کے لئے اہلِ اقتدارکو ضرور فون کر تے تھے ۔ جس مسئلےکوضروری سمجھتے اُس پر جنگ میں کالم بھی لکھ دیتے تھے۔ افسوس کہ زندگی کے آخری ایام میں ان کے ساتھ بھی اہلِ اقتدار نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ۔انہوں نےمجلسِ ترقی ادب کے ناظمِ اعلیٰ کے عہدے سے بیوروکریسی کے رویے پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا جسے فوری طور پر منظور کرلیا گیا ۔یہ خبر میرے جیسے لوگوں کےلئے پریشان کن تھی ۔یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ تھامگراس پس منظر میں اجتماعی بے حسی کی لاش گلی کے نکڑ پردکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ واقعہ اُس وقت کی برصغیر کی سب سے بڑی ادبی شخصیت کے ساتھ پیش آیاتھا ۔اللہ تعالیٰ منو بھائی کو بھی جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، میں نے ان سے بھی لوگوں کے بہت کام کرائے ہیں۔آج سارا دن میرے ذہن ودل میں احمد ندیم قاسمی کا نام گونجتا رہا۔ آج میں سارادن اسی کرسی پر بیٹھا رہا جہاں احمد ندیم قاسمی 32سال تک تشریف فرما رہے ۔آج میں نے سوچا کہ ندیم صاحب یہاں بیٹھ کرکیا کیاکرتے تھے، اگر قدرت نے ان کی کرسی پر بٹھایا ہی ہے تو پھر مجھے ان کے نقشِ کفِ پا پر پائوں رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے ۔مجلسِ ترقی ادب کے متعلق جو خواب دیکھا کرتے تھے، ان کی تعبیراب میرا مقصد ہونا چاہئے۔ انہوں نے ایک بارکہا تھا کہ مجلسِ ترقی ادب کے آئین کے تحت کتابوں پر انعام اور ایوارڈ کی ذمہ داری بھی مجلس پر عائد ہوتی ہے مگر فنڈز کی کمی کی بدولت میں یہ کام شروع نہیںکر پایا ۔ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اس سلسلے میں فنڈز کی فراہمی کا خصوصی حکم دیں گے ۔وہ بے گھرشاعروں اور ادیبوں کےلئے گھروں کے بھی خواہشمند تھے ۔مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں ان کی یہ تمنا بھی پوری ہو گی ۔توقع ہےکہ ہر آنے والے کی طرح عثمان بزدار بھی اب اپنی زندگی لاہور میں گزاریں گے ۔

آج مجھے خرم شہزادڈائریکٹر جنرل ’’تحفظ ماحولیات ایجنسی پنجاب ‘‘بھی بہت اچھے لگے ۔سو ان کےلئے بھی کلمہِ خیر ۔انہوں نے داؤد کالونی کےاقلیتی اسکول میں قائم واسا کے غیرقانونی ڈسپوزل اسٹیشن کا این او سی منسوخ کر دیا۔ڈیڑھ ہزار طلبا و طالبات کو ایک نئی زندگی کی نوید دی ۔مجھے یاد ہے کہ فیصل آباد سے کچھ لوگ آئے تھے اور انہوں نے مجھے اور ہارون الرشید کوبتایا تھا کہ واسا والے اقلیتی بچوں کےا سکول میں گندگی کا ڈسپوزل اسٹیشن بنوارہے ہیں ۔ اس کے شور اور بدبو میں بچوں کےلئے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان میں جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں پھیلیں گی مگر ایم ڈی واسا اور ڈپٹی کمشنر اس غلط کام پر بضد ہیں۔ میں اور ہارون الرشید اُس وقت کےچیف سیکرٹری سے ملے مگرڈسپوزل اسٹیشن کی تعمیر جاری رہی۔ وہ لوگ صوبائی وزیرا سپیشل ایجوکیشن چوہدری اخلاق سے بھی ملے ۔صوبائی وزیرنے ایم ڈی واسا کو مشورہ دیا کہ ایسا کام نہ کریں مگر اُس مشورے کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔واسا کے صوبائی وزیر محمود الرشید کو تمام معلومات فراہم کی گئیں مگر کام نہ رک سکا۔ وہ عدالت میں گئے مگر وہاں سےبھی تاریخیں ملیں۔ متعصب افسر اقلیتی بچوں کو بچے سمجھنے سے منحرف رہے۔ اب جب خرم شہزاد نے ان کا این او سی منسوخ کیا تو جی چاہا کہ انہیں سیلوٹ کروں ۔ ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں، ‘‘میں ویسے داتا کی نگری سے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ یہ بڑے لوگوں کی آبادی ہے۔یہ دھڑکتے ہوئے دلوں کا شہر ہے ۔یہ تر دماغوں کی بستی ہے ۔یہ عمران نگر ہے۔ دیارِندیم ہے ۔احمد ندیم قاسمی بھی کیا عظیم آدمی تھے ۔جب منو بھائی کا کالم ’’یہ قتیل شفائی اسٹریٹ ہے جس میں احمد ندیم قاسمی رہتے ہیں‘‘ شائع ہواتو لاہور کی انتظامیہ ان سےمعذرت کےلئے آئی اور کہا کہ ہم اس گلی کا نام احمد ندیم قاسمی سٹریٹ رکھ رہے ہیں تو ندیم صاحب نے کہا ’’اگر آپ مجھ پر کوئی احسان کر سکتے ہیں تو یہی کیجئے کہ اس گلی کا نام قتیل شفائی سٹریٹ رہنے دیجئے ‘‘۔سو وہ آج تک قتیل شفائی سٹریٹ ہے مگر آج اسلام آباد کی دوسری بڑی سڑک کا نام احمد ندیم قاسمی ایونیو ہے۔