کون زیادہ قابلِ رحم ؟

February 28, 2021

کبھی نہ کبھی ہر انسان اپنا موازنہ جانوروں سے کرتا ہے۔ جب وہ شدید گرمی میں ایک گدھے کو اینٹیں ڈھوتا دیکھتاہے۔ جب عید الاضحی پر وہ بکرے کو ذبح ہوتا دیکھتاہے۔ جب وہ شدید سردی میں کتوں کو گلی میں ٹھٹھرتا دیکھتا ہے۔ وہ شکر بجا لاتا ہے کہ میں جانور نہیں۔ میں پختہ اینٹوں سے بنے ہوئے مضبوط گھر میں رہتا ہوں۔ میں گرم لباس پہنتا ہوں۔ ایک غریب سے غریب انسان کے گھر میں بھی دو تین وقت کا آٹا ذخیرہ ہوتاہے۔ دنیا کے تقریباً تمام انسانوں کو پولیو سے امیون کر دیا گیا ہے۔ جنگلات میں جب ایسی کوئی وبا پھیلتی ہے تو وہ پورے جنگل کو اجاڑ ڈالتی ہے۔ انسان کو اپنی زبان دانی پر بھی بہت غرور ہے۔ کبھی کسی جانور کو شعر کہتے سنا نہیں گیا۔ جو بات عام لوگ نہیں جانتے ، وہ یہ ہے کہ شاعر بننے والا انسان کس قدر شدید غم اور تکلیف سے گزرتا ہے۔ جس سوز و گداز پہ قاری سر دھنتا ہے، حرف میں ڈھلنے سے پہلے شاعر کو وہ لہو رُلاتاہے۔ جانور اس کرب سے آزاد ہوتے ہیں۔جانور ان اکثر دکھوں سے مبرّا ہیں، جن سے انسان گزرتا ہے۔ جب ایک انسان فراق سے گزرتاہے تو دنیا کی کوئی نعمت اس کی دل جوئی نہیں کر سکتی۔اسے لذیذ غذا پیش کی جاتی ہے لیکن محبوب کی جدائی کا غم بھوک مار ڈالتاہے۔ اسے روگ لگ جاتاہے۔ اس کا رنگ زرد اور وزن گرنے لگتاہے۔ اپنی جان کی حفاظت کاجذبہ دنیا کی سب سے طاقتور جبلت ہے لیکن اس عالم میں بعض افراد خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔ جانوروں میں محبت کی داستان بہت سادہ ہے۔ رقابت تبھی شروع ہوتی ہے، جب مادہ سامنے ہو اور کوئی دوسرا اس کی جانب پیش قدمی کرے۔ اس پر وہ لڑائی شروع ہوتی ہے، جس میں صرف آپ کے ذاتی دانت، سینگ اور ناخن ہی کام آتے ہیں۔اکثر جانوروں میں نر اور مادہ کے درمیان یہ محبت اتنی سی ہے کہ ایک خاص موسم میں پیدا ہونے والی خواہش وہ پوری کرتے ہیں۔ بہت مختصر وقت کے لیے ایک خاص نر اور مادہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ اکا دکا پرندے اور جانور البتہ ایسے ہیں ، جو ساری زندگی اکھٹے رہتے ہیں۔انسانوں کی ایک بڑی تعداد عشق میں جن صدمات سے گزرتی ہے،بیشتر جانور اس سے آزاد ہیں۔

بے روزگاری کے جس خوف میں انسان جیتے ہیں، جانوراس سے آزاد ہیں۔ وہ لمحہ ء حاضر میں زندگی گزارتے ہیں۔ انسانوں میں صرف صوفیا میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ لمحہ ء حاضر میں زندگی گزار سکیں۔انسانوں کی عظیم اکثریت ہمیشہ اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار رہتی ہے۔ میرا کیا ہوگا؟ میرے بعد میری اولاد کا کیا ہوگا؟ جانور اس خوف سے کبھی نہیں کانپتے کہ کل خوراک نصیب ہوگی یا نہیں۔ توکل کے لیے پرندوں کی مثال دی گئی ہے ، جو خالی پیٹ گھر سے نکلتے ہیں اور بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ لوٹتے ہیں۔انسانوں میں یہ توکل صرف صوفیا کو حاصل ہوتاہے۔

جانور انتہائی سخت حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ شدید گرمی میں انہیں خوراک کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے۔ سخت سردی میں کھلے آسمان تلے وہ زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے باوجود کبھی وہ خود ترحمی کا شکار نہیں ہوتے۔ ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنے حالات کا انسانوں کے ساتھ موازنہ کر سکیں یا زندگی میں پیش آنے والی سختیوں پر شکوہ سنج ہوں۔ جب انہیں سختی کا احساس ہی نہیں تو کہا جا سکتاہے کہ ان سختیوں سے وہ محفوظ ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان ہمیشہ اپنی زندگی کا دوسرے انسانوں سے موازنہ کرتا رہتاہے۔ بادشاہ بھی دوسرے بادشاہوں سے حسد محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت تمام نعمتیں انہیں ہیچ محسوس ہوتی ہیں۔ انسان اپنے بچپن کی غربت یاد کر کے امارت کے دنوں میں بھی آزردہ ہوتاہے۔ وہ مستقبل میں ممکنہ غربت سے خوفزدہ رہتاہے۔ یہ خوف اتنا شدید ہوتاہے کہ ذہنی بیماریوں کو جنم دیتاہے۔ اسی خوف کی وجہ سے سیاسی اشرافیہ ہمیشہ لوٹ مار میں مصروف رہتی ہے۔ جانوروں میں یہ سب مسائل سرے سے ہوتے ہی نہیں۔

ایک لحاظ سے انسان اور جانور مختلف نہیں۔ دونوں بوڑھے اور بیمار ہوتے، دونوں مر جاتے ہیں۔ ہمیں جانوروں پر جو برتری حاصل ہے، وہ یہ ہرگز نہیں کہ ہم ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھتے اور بہتر کھاتے پیتے ہیں۔ ہم تبھی اشرف المخلوقات ہیں، جب ہم اپنے اس Test میں کامیاب اترتے ہیں، جس سے ہمیں گزارا جا رہا ہے۔ عقل اور علم کے ذریعے خدا کی شناخت اور جبلتوں کے خلاف جنگ۔علم کے ذریعے زندگی کی آزمائشوں میں صبر، حسنِ اخلاق، کھانا کھلانے اور ایثار سمیت اعلیٰ عادتوں کو اختیار کرنا۔ جانور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں، جس نے ہمیں اس نیلی زمین پر آباد کر رکھا ہے۔ انہیں سمجھنا ضروری ہے ورنہ ہم اپنی زندگی کو بھی سمجھ نہیں سکیں گے۔

جو انسان عقل استعمال نہیں کرتے، قرآن انہیں بدترین جانور کہتا ہے۔ دوسرے جانوروں پر انسان کی بالاتری یہ ہے کہ عقل کی وجہ سے انسان کو حساب کتاب سے گزارا جائے گا۔ جانور اس حساب سے مبرا ہیں۔ اب بتائیے، کون زیادہ قابلِ رحم ہے؟