حکومتی بے تدبیری سے قومی خزانے کا نقصان

February 28, 2021

ہمیں نواز شریف کی سیاست سے کبھی اتفاق نہیں رہا بلکہ ان کے دور اقتدار میں ہم معتوب لوگوں کی لسٹ میں شمار کیے جاتے رہے ہیں۔ ہم عمران خان سے بھی کبھی پر امید نہیں رہے۔ ہمارے نزدیک عمر کا بہترین حصہ کرکٹ کی نذر کردینے کے باعث سیاسی امور اور سیاسی مینجمنٹ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان سے کسی کارنامے کی امید رکھنا کسی فلم کو حقیقت سمجھنے کے مترادف تھا۔ عمران خان صاحب کے ڈھائی سالہ اقتدار کی مسافت نے ہمارا خیال نہ جھٹلا کر ہماری دانش کو داغ نہیں لگنے دیا حالانکہ ہماری ان سے کوئی دوستی یا رشتہ داری نہیں ہے۔ حالیہ خبروں کے مطابق مبینہ طور پر اربوں روپے خزانے میں لانے والے ایون فیلڈ کیس میں 7 ارب روپے ہرجانے کی صورت میں ملکی خزانے سے نکل کر غیر ملکی کمپنی کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو گئے اس اچھل کود پر باقی اخراجات بھی اربوں میں ہو سکتے ہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں ملکی خزانے کو لگنے والے ٹیکے نے نواز شریف اور عمران خان میں ایک یکسانیت تو پیدا کردی ہے کہ نواز شریف اپنی بچت کیلئے عربوں کی دستاویزات پیش کرتے رہے ہیں اور عمران خان نے اس کیس میں اربوں ڈبو دئیے۔ دونوں میں فرق صرف عین اور الف کا ہے۔ اتفاق سے ان کی سیاست میں بھی کچھ ایسا ہی فرق دکھائی دیتا ہے۔ دونوں شخصیات روٹ لیول کی سیاست سے ابھر کر قومی سیاست میں نہیں آئیں۔ نواز شریف صاحب نا تجربہ کار ہونے کے باوجود جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈائریکٹ صوبائی وزیر بھرتی ہوئے جبکہ سیاست کی ابجد سے بھی واقفیت نہ رکھنے والے عمران خان کو نادیدہ قوتوں نے سیاست میں دھکیل کر ایک نئی پارٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ سوال یہ ہے کہ مصنوعی قیادتوں سے ملک و قوم کی جان کب چھوٹے گی؟ عمران خان نے اپنی بے تدبیری کے باعث قومی خزانے کا اربوں روپے کا نقصان کر کے اپنے بلند بانگ دعوئوں اور ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پاکستانی قوم بہت بھولی بھالی ہے، یہ سیاست دانوں اور اقتدار پرست آمروں کے ہاتھوں کئی مرتبہ دھوکہ کھا چکی ہے۔ سیاستدانوں نے اپنی بداعمالیوں سے سیاست کے شعبے جبکہ آمروں نے فوج کے مقدس ادارے کے تقدس کو بار بار مجروح کیا ہے دونوں شعبے اپنی اہمیت کے اعتبار سے عوامی اعتماد کے متقاضی ہوتے ہیں جس میں اب خلیج دکھائی دیتی ہے۔ ابھی ڈھائی سال پہلے تک ملک ماضی کے کئی ادوار کی طرح ایک بہت بڑے انقلاب کے دروازے پر کھڑا تھا۔ دور حاضر کے انقلابی عمران خان نے گلیمر سے بھرپور ایسے خواب قوم کو دکھائے تھے جن کا عکس عموماً فلموں میں دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے عمران خان کی فلم بھی کسی بہت ہی قابل لکھاری اور ہدایت کار کی فن کاری کا کمال تھا جس سے عوام مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس فلم میں سادگی، کفایت شعاری، ایمانداری، گڈ گورننس، شفافیت، ریلیف، روزگار، کاروبار، خوشحالی، تحفظ اور نجانے کیا کیا دیکھنے سننے کو ملا۔ فلم کی خاص بات یہ تھی کہ ہیرو صاحب ملک لوٹنے والے چوروں کے خفیہ خزانوں سے پیسے نکلوا کر ملکی خزانہ بھرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسی دلکش باتیں سن سن کر پاکستان کے عوام خصوصی طور پر نئی نسل نے اس فلم کے ہیرو کو حقیقت میں اپنا ہیرو سمجھ لیا تھا، اس لئے بڑے جذبے سے اپنے ہیرو عمران خان کا ساتھ دیا۔ عوام کے جذبات سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ دولت ملکی خزانے کی بجائے عوام کے اکائونٹس میں منتقل ہونے والی ہو۔

ہم نے ڈرتے ڈرتے اور چپکے چپکے اپنی حکومت کی کارکردگی کو ’’پھرولا‘‘ تو یہ دیکھ کر ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے کہ 64 روپے لیٹر خریدا جانے والا پٹرول 113 روپے اور 70 روپے لیٹر خریدا جانے والا ڈیزل 119 روپے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ ہمارے لیڈر کے خلاف گھناؤنی سازش ہے کیونکہ وہ تو قومی درد میں اتنے گھُلے جا رہے ہیں کہ اُن کا وزن 185 پاؤنڈ سے 200 پاؤنڈ ہو گیاہے۔ اگر یہ اُن کے خلاف بین الاقوامی سازش نہیں تو کرپٹ اپوزیشن کی سازش ضرور ہے جس کا قوم کو احساس ہے نہ ادراک۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ دن میں کئی کئی میٹنگز کرتے ہیں جن میں ایجنڈے پر صرف دو ہی باتیں ہوتی ہیں، اپوزیشن کی دُرگت کے نِت نئے طریقے اور قومی درد۔ اگر پھر بھی صورتِ حال ’’گلاس توڑا، بارہ آنے‘‘ والی رہتی ہے تو اِس میں اُن کا قصور نہیں۔ اب تو اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر میاں نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن لوٹا ہوا مال واپس کر دیں تو وہ استعفیٰ دینے کو تیار ہیں لیکن اپوزیشن لوٹے ہوئے مال کے ثبوت مانگتی ہے۔ ہمیں دُکھ ہے کہ جس طرح میاں نوازشریف کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والا بیانیہ پِٹ چکا ہے اِسی طرح ہمارے قائد کا کرپشن والا بیانہ بھی مہنگائی کے سامنے دم توڑ چکا ہے۔