15مارچ۔ کیا سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا؟

March 04, 2021

’امّی! کیا اب کبھی پہلے جیسا نہیں ہوگا؟‘

ایک اشتہار میں ایک بچی کا خوف زدہ چہرہ اور اپنی ماں سے یہ فریاد۔ جب بھی دیکھتا سنتاہوں۔ مجھے کووڈ 19 کے سناٹوں میں لے جاتی ہے۔ جس نے بھی یہ سطر لکھی ہے۔ اس عالمگیر خوفناک وبا کی یلغار ۔اس کی تباہ کاریوں۔ انسانیت کی بے بسی کو اس میں سمودیا ہے۔ 2019 کے آخری دنوں میں ووہان چین سے شروع ہونے والے وبا کے سفر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ سب کے معمولات بدل گئے ہیں۔ گھر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ زندگی آن لائن ہوگئی ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ انسان اس سال بھی وائرس کا پھیلائو ختم نہیں کرسکے گا۔پوری دنیا میں بچے بچیاں اپنی مائوں سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا اب کبھی پہلے جیسا نہیں ہوسکے گا؟مگر حکومت پاکستان نے اعلان کردیا ہے کہ 15مارچ پیر سے سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔ دکانوں بازاروں پر وقت کی پابندی نہیں ہوگی۔ اسکولوں میں حاضری پوری ہو گی۔

پہلے محاذ پر اس وبا کے حملوں کو روکنے والے ڈاکٹرز چیخ اٹھے ہیں۔ خدارا۔ انسانوں کی صحت کا خیال کرو۔ صحتِ عامہ پر کاروبار کو ترجیح نہ دو۔ انسان ہوں گے ۔ صحت مند ہوں گے تو کاروبار ہوگا۔ وہ بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ جب تک 70فی صد آبادی کو ویکسین سے ہم کنار نہ کردیا جائے، اس وقت تک سب کچھ نہ کھولیں۔ اب تک کتنی آبادی کو ویکسین لگادی گئی ہے؟ مصدقہ اعداد و شُمار فی الحال دستیاب نہیں۔ بلکہ ابھی تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسپتالوں کے عملے میں بہت سوں نے ویکسین نہیں لگوائی ۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بھی ملک میں روزانہ اوسطاً ایک ہزار سے زیادہ نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔ سب پاکستانی ٹیسٹ کے مراحل سے نہیں گزرے ۔ میڈیکل عملے میں بھی ویکسی نیشن کا عمل بہت سست پایا گیا ہے۔

حکومتِ پاکستان کو آخر کیا جلدی ہے؟ پاکستان میں متعلقہ اور مطلوبہ قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کی جارہی ۔ جسمانی فاصلوں کا خیال نہیں رکھا جارہا۔

مساجد، مارکیٹوں، شادیوں میں سب پہلے جیسا ہورہا ہے۔ ماسک پہننے والوں کی شرح بہت محدود ہے بلکہ ماسک پوشی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کوئی اپنا خوانا خواستہ کورونا کا شکار ہوجائے، اس کی سانس اکھڑنے لگے تو مذاق اڑانے والے پاس بھی نہیں پھٹکتے۔ سب کچھ مریض اور اس کے قریبی اہلِ خانہ برداشت کرتے ہیں۔ اسپتالوں کے لاکھوں کے بل اپنی جگہ مگر مریض کو جس کرب اور تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے والے نہیں کرسکتے۔

’امّی کیا اب کبھی پہلے جیسا نہیں ہوگا۔‘ سوال کرنے والے بچے جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جلسوں میں اسی طرح ہجوم در ہجوم دیکھتے ہیں ۔ ماسک بھی کم کم۔ جسمانی فاصلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کورونا کا کہیں ذکر بھی نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کے رہنما تو خاص طور پر کبھی اس کی بات بھی نہیں کرتے۔انہیں اس کی بھی کوئی تشویش نہیں ہے کہ کورونا نے پاکستان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ابھی تک یہ سنبھل نہیں سکی۔ بے روزگاری بہت بڑھ چکی ہے۔ کئی فیکٹریاں اور کاروبار بند ہوئے ہیں۔ ہم تو اپنی عمر کی بہاریں دیکھنے کے بعد آخری حصّے میں اس وبا سے دوچار ہیں۔ ہمارے بچے جوان اپنی عمر کی ابتدا اور عین شباب میں یہ یلغار دیکھ رہے ہیں۔ عمر بھر وہ اس کے اثرات میں محصور رہیں گے۔ ان کی ذہنی فضا کو ہمارے یہ رہنما محسوس نہیں کررہے ۔ اس وبا کے مجموعی مضمرات اور اثرات سے اپوزیشن کو کوئی تردد نہیں۔ صرف حکومت میں آنے کی بے تابی ہے۔

یہ مناظر دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں اگر حکومت واقعی عوام کی خدمت اور ملکی معیشت کی بحالی کے لئے چاہئے ۔ وہ اگر اپنے اصولوں میں واقعی مخلص ہیں تو ان دنوں میں کبھی اقتدار کی خواہش نہ کرتے۔ اگلے چار پانچ سال تو بہت ہی مشکلات کے سال ہوں گے۔ معیشت کے حوالے سے۔ صحتِ عامہ۔ پھر اس خطّے میں مزید کشیدگی کے امکانات ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کو FATFکی فکر نہیں ہے۔ ابھی تک پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم بلیک لسٹ سے بچ رہے ہیں۔ مگر ہمارا دامن ابھی تک صاف نہیں قرار دیا گیا۔ ملک کو اس بحران سے مل جل کر ہی نکالا جاسکتا ہے۔ جب پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی کوششوں سے ایک دوسرے کے ازلی دشمن پی ایم ایل(ن) اور پی ٹی آئی کے امیدوار ایک دوسرے کے حق میں دست بردار ہوسکتے ہیں تو اسلام آباد، بلوچستان اور کے پی کے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ اصل اقتدار کی جنگ تو پنجاب میں ہی لڑی جارہی ہے۔

ڈاکٹروں کا اصرار ہے اور بجا طور پر ہے کہ حکومت 15مارچ سے سب کچھ کھولنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ عالمی ادارۂ صحت بھی یہ وارننگ دے رہا ہے کہ برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ سے نمودار ہونے والی وائرس کی ایک اور قسم اب پاکستان سمیت 92ممالک میں پھیل چکی ہے۔ پاکستان میں بھی فروری کے آخری دنوں سے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ پاکستان میں قریباً 13ہزار اموات ہوئی ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہ تعداداگرچہ کم ہیں۔ مگر ان اموات سے کتنے خاندان متاثر ہوئے ہوں گے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں روزگار کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ بے روزگاروں کو ریاست کوئی وظیفہ نہیں دیتی۔ کورونا کو بہانہ بناکر ہزاروں ملازمین پرائیویٹ کمپنیوں سے نکال دیے گئے ہیں۔ ان کے گھروں پر کیا گزر رہی ہے۔ اس کا احساس حکمران پارٹی کو ہے نہ اپوزیشن کو۔

سب کچھ کھلنے سے اس وبا کو زیادہ پھیلنے کا موقع ملے گا۔ یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے۔ اس کے بعد جو تیسری لہر پھیلے گی، اس سے بزرگوں اور بچوں کو کیسے بچایا جائے گا اور کون ذمہ دار ہوگا۔ اس سوال کا جواب کون دے گا؟عمران خان ،اسد عمر،مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز یا بلاول بھٹو زرداری۔