اِک اور فتنہ؟

March 14, 2021

چہ میگوئیاں ہیں کہ خواتین کے بعد اب ہم جنس پرست بھی میدان میں اترنے کو ہیں۔ امریکہ اور یورپ ان کے فکری راہبر ہیں۔ مغرب میں انسان نے اپنی آزادی کی جنگ جیت لی ہے۔ مرد او رعورت شادی کیے بغیر اکھٹے رہ سکتے ہیں۔ یہی نہیں، اب ہم جنس پرست برے نہیں بلکہ انہیں برا کہنے والے انتہا پسند سمجھے جاتے ہیں۔

آپ قرآن پڑھیں تو بار بار یہ الفاظ دکھائی دیتے ہیں ’’اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ کن چیزوں میں نشانیاں ہیں؟ زمین و آسمان کی تخلیق میں، دن اور رات کے بدلنے میں یعنی کرّہ ارض کی اپنے محور پر گردش میں، بارش میں ۔۔۔ قرآن میں عبادت کے احکام نازل ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر آسمان کو چھوتی ہوئی عمارت پہ کھڑے، آخری زمانے کے انتہائی ترقی یافتہ انسان کو خدا نے یہ بھی بتایا کہ دنیا کا آغاز ایک بہت بڑے دھماکے سے ہوا تھا۔ یہ الگ بات کہ مسلمانوں کی بجائے عیسائی بگ بینگ دریافت کرتے ہیں، پاکستانی سیکولر جس پہ پھولے نہیں سماتے ۔دنیا دو چیزوں پہ مشتمل ہے۔ ایک روشنی اور دوسرا مادہ۔ اس کے علاوہ جو چیز پوشیدہ ہے، اسے ڈارک میٹر کہتے ہیں۔ ستارے یا سورج عناصر بنانے کی فیکٹریاں ہیں۔ ان عناصر کی تعداد 92 ہے۔ دنیا میں نظر آنے والی ہر چیز، بشمول انسان ان 92 عناصر کا مجموعہ ہے۔ سورج کے علاوہ زمینیں ہیں۔ ہماری زمین نیلی ہے۔ مریخ سرخ دکھائی دیتا ہے۔ دوسری زمینوں کا اپنی زمین سے موازنہ کر لیں، سارا کھیل سمجھ آجائے گا۔ زمین پر جانداروں کیلئے بے شمار حفاظتی انتظامات موجود ہیں۔ آکسیجن ہے، اوزون ہے اور مقناطیسی میدان۔ ہوائوں اور گیسوں کے مناسب غلاف ہیں۔ ان کا مناسب دبائو ہے۔ جانداروں کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، ان کی مناسب مقدار اس زمین پہ رکھ دی گئی ہے۔ انسانوں کے لیے ہر کہیں زمین کے نیچے پانی رکھا گیا ہے۔ کوئلہ، سونا، تیل، چاندی، لوہا، غرض یہ کہ ہر چیز۔

فرض کریں ،زمین پر اتارنے سے پہلے آپ کو کائنات کی سیر کرائی گئی۔ اس کے بعد آپ کو کرّہ ارض پہ موجود حیوانوں کے جسم دکھائے گئے اور یہ کہا گیا کہ ان میں سے ایک، دو ٹانگوں والے جسم میں اگر تمہیں رکھا جائے گا۔ بہت سی خواہشات تمہارے اندر پیدا کر دی جائیں گی تو کیا تم میری نشانیاں دیکھتے ہوئے مجھ پر ایمان لائو گے؟ آپ کا جواب کیا ہو گا۔

بہت سے دوست یہ کہیں گے کہ خدا نے تو ہمیں کائنات کی سیر کرائی ہی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ جب اس نے آپ کے اندر کائناتوں کی وسعت والا حیرت انگیز دماغ رکھا۔ اس نے آپ کو اس زمانے میں پیدا کیا، جہاں فلکیات کا علم اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ آپ دوسری زمینوں کا اپنی زمین سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے جسم میں استعمال ہونیوالے عناصرکے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔ جب آپ زمین کے نیچے موجود ذخائر کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔ جب آپ جانوروں کے دماغ کا اپنے دماغ کے ساتھ موازنہ کر سکتے ہیں۔ تو کیا خدا نے آپ کو اپنی کائنات کی سیر کرا دی یا نہیں؟ آج کے انسان کیلئے بہت سی آسانیاں ہیں۔ ہم سے پہلے جو ہمارے بھائی گزرے، ان کے لیے پیمانہ سخت تھا۔ اس کے باوجود اگر ہم خدا کی طرف نہیں پلٹتے تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہماری خواہشات ہماری عقل پہ حاوی ہیں۔ ہماری توانائیاں صرف زندگی سے محظوظ ہونے میں صرف ہو رہی ہیں ورنہ جو تعصبات سے اوپر اٹھ کر ذرا سا غور کرے گا، وہ خدا تک پہنچ جائیگا۔

جانداروں کا دو جنسوں میں پیدا ہونا، صنفِ مخالف سے محبت اور دونوں جنسوں کا مل کر اولاد پیدا کرنا بھی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔ انجن، ٹریفک سگنل اور عدالت ایجاد کرنے والے، بگ بینگ کا سراغ لگانے والے انسان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کی اجازت دی جائے۔ انسان اپنی آزادی کی جنگ تو جیت چکا ہے مگر اسی کا شاخسانہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے باپ کا نام معلوم نہیں۔ ایسے جوڑوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، جنہوں نے شادی کی ہو، بچے پیدا کیے ہوں اور ساری زندگی ان کے ساتھ بسر کی ہو ۔ ہمارے ہاں بھی والدین کی ایک عظیم تعداد وہ ہے جو ایک دوسرے کا منہ بھی دیکھنا نہیں چاہتے مگر اولاد کی خاطر ساری زندگی ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں ۔ یہ ہے انسانی آزادی کی وہ قیمت، جو پھول جیسے بچّے ادا کرتے ہیں۔ انسان قوانین کیا بنائے؟ وہ تو Short Sighted ہے۔ اگر آپ انسان سے کہیں کہ اپنے قوانین خود بنائو تو یہ ایسا ہی ہے، جیسے ایک اسکول جاتے بچّے سے کہا جائے کہ وہ اپنے کھیلنے کودنے، گیمز اور ٹی وی دیکھنے کے اوقات خود مقرر کرے۔ وہ دوراندیش ہی نہیں، اپنی بہتری کیا سوچے گا؟ وہ تو پھر اسی طرح کے حل بتائے گا کہ ہم جنس پرستی کی اجازت دے دی جائے اور بچّے گود لے لیے جائیں۔

بہرحال، جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں ہم جنس پرستی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے، انہیں یہ معلوم نہیں کہ ملّا عبد الجبار اپنا ڈنڈا اٹھائے اسی دن کے انتظار میں ہے ، جب وہ اکٹھے ہو کر باہر نکلیں! ایسے مواقع پر مذہببی افراد بہت کام آتے ہیں۔ ایک ہزار سال کی جدوجہد کے بعد بھی پاکستان میں ہم جنس پرستی نافذ نہ کی جا سکے گی۔