قلم کا مسافر

April 21, 2021

جناب آئی اےرحمٰن صاحب کے ساتھ احترام کا رشتہ تو خیر ہمیشہ سے تھا مگر ان سے ایک رشتہ دوستی کا بھی تھا ۔ ایک بار جنرل پرویزمشرف کے دور میں ٹی وی چینلز کی بندش کے خلاف مہم کے دوران رحمٰن صاحب سے ٹکرائو ہو گیا بولے ہیلو کیسے ہو اینگری ینگ مین۔ خیر اس وقت جذبہ بھی بہت تھا ان جیسی شخصیت کے منہ سے اچھا بھی لگا۔ کوئی دو ماہ پہلے کراچی پریس کلب میں ملاقات کے دوران جب انہوں نے وہی الفاظ دہرائے تومیں نے کہا : رحمٰن صاحب اب تو ہم بھی 60کے کلب میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان کی مخصوص مسکراہٹ اکثر مجھے فیض صاحب کی یاد دلاتی کہنے لگے جذبہ جوان ہو تو عمر کی قید نہیں ہوتی، دیکھوں میں بھی تو جوان ہوں۔

اپنی عملی زندگی کا آغاز انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز میں ایک فلم پر تبصرے سے کیا۔ اس وقت ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ رحمٰن صاحب بتاتے تھے کہ جب پہلی بار سو روپے کا چیک ملا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کچھ عرصے فلمی رپورٹنگ کی تو روزنامہ امروز کے جناب مسعود اشعر اور آفاق کے علی سفیان آفاقی صاحب سے دوستی ہو گئی۔ آفاقی صاحب تو آج تادمِ آخر فلموں سے جڑے رہے مگر رحمٰن صاحب اسی اخبار میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہو گئے۔ کہتے ہیں انہوں نے ایک فلم کے لئے کہانی بھی لکھی تھی۔پاکستان کی صحافت میں جو نسل آزادی کے فوراً بعد پاکستان آئی ان میں سے بیشتر کا تعلق بائیں بازو کے نظریات سے تھا اور وہ پہلے دن سے ہی نئے ملک میں انگریزوں کے بنائے ہوئے ایسے تمام کالے قوانین کے خلاف تھی جن سے آزادی صحافت اور شہری آزادیوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہو۔ رحمٰن صاحب، جناب ایم اے شکور، اسرار احمد ، احمد علی خان کی طرح بائیں بازو کے رہنما سجاد ظہیر (منے بھائی) کے قبیلے سے جڑ گئے اور آخر تک جڑے رہے۔ایوب حان کا مارشل لا لگا اور پاکستان ٹائمز سمیت کئی اخبارات پر حکومت کا قبضہ ہوا تو مظہر علی خان نے انتظامیہ پر واضح کر دیا کہ وہ مارشل لا کی حمایت میں کچھ نہیں لکھیں گے پھر ان میں سے کئی لوگوں کو نوکری چھوڑنی پڑی۔

حال ہی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی 70سالہ جدوجہد پر مبنی کتاب میں رحمٰن صاحب نے اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھا ’’قیام پاکستان کے پہلے ہی سال میں نوکر شاہی نے انگریز کے بنائے ہوئے پریس (ایمرجنسی پاور) ایکٹ 1931سیکورٹی ایکٹ اور پینل کوڈ کے تحت 40اخبارات اور رسائل پر پابندی لگا کر ان کے عہدیداروں اور صحافیوں کو گرفتار کر لیا، پنجاب یونین آف جرنلسٹس جو قیام پاکستان سے پہلے کی تنظیم تھی، اس نے سب سے پہلے اس کے خلاف آواز بلند کی۔یہ تھی حضور اصل اشرافیہ جس نے پاکستان کی سمت کا تعین انگریزوں کے بنائے ہوئے کالے قوانین کو تحفظ دےکر کیا جس سے نہ کبھی جمہوری اقدار پروان چڑھ سکیں نہ پریس آزاد رہا اور نہ ہی عدلیہ۔ لہٰذا سیاست دانوں کو ضرور برا کہیں کیونکہ ان کی بھی ناکامی تھی مگر کچھ حقیقت پسندی سے بنیاد پر بھی غور کریں سب جواب مل جائیں گے۔ایک بار ان کو پی پی پی نے نگراں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی۔ ایک بار ہفت روزہ ویو پوائنٹ پر پابندی لگی اور مدیر مظہر علی خان سمیت کئی صحافی گرفتار ہوئے تو ان میں رحمٰن صاحب بھی شامل تھے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے رحمٰن صاحب کہتے ہیں ’’ گرفتار ہوئے تو ہم نے سوچھا چلو کچھ روز آرام کر لیں گے۔ دوسرے روز ایڈیٹر صاحب نے جیلر سے درخواست کی کہ ایک ٹیبل اور چند کرسیوں کا انتظام کر دیں۔ لو جی انہوں نے ہم سب کو جمع کیا اور کام کرنا شروع کر دیا، شام کو کسی طرح وہ مضامین باہر بھجوا دیتے اور ویو پوائنٹ نکل آتا۔ پھر پابندی مزید سخت کر دی گئی۔

رحمٰن صاحب نے پاک بھارت امن اور جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے لئے بہت کام کیا۔ ایک بار 1995میں ان کے اور ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ دہلی جانے کا اتفاق ہوا امن کانفرنس کے سلسلے میں کراچی سے روانہ ہوئے تو ہمارے صحافی ساتھی عامر ضیاء بھی ساتھ تھے۔ دوران سفر ایک انگریزی روزنامہ کے صفحہ اول پر سنگل کالم خبر تھی۔ پاکستان مخالف نظریہ رکھنے والوں کا دورہ بھارت۔ میں نے رحمٰن صاحب کو خبر دکھائی تو مسکرا کر بولے۔ ’’مبارک ہو آپ بھی ہمارے کلب میں شامل ہو گئے‘‘۔

1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کو کچلنے کے لئے سندھ میں آپریشن کے دوران کئی سو لوگ مارے گئے تو رحمٰن صاحب سمیت پنجاب کے دانشوروں ، صحافیوں، جامعات کے پروفیسرز نے ایک بیان میں آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہی پوزیشن 1992 کے آپریشن میں لی گئی جب کراچی میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پرآپریشن ہوا۔اسی دوران ایک بار مجھے اپنے اخبار ’’اسٹار‘‘ کی کاپی سنسر کے لئے محکمہ اطلاعات لے جانی پڑی،وہاں موجود افسر نےاخبار کی ٹیلرنگ کے دوران کئی جگہ سے خبروں کے تراشے نکالے۔ اس میں رحمٰن صاحب کا ایک مضمون بھی تھا مگر اس بچارے افسرکی سمجھ میں کہاں آتا۔ سنسر کرنے والے کا سر گھوم گیا، مظہر بھائی کوئی خطر ناک چیز تو نہیں ہے پھر جانے دیا۔

رحمٰن صاحب قلم کے مسافر تھے اور آخر وقت تک یہ رشتہ قائم رہا۔ میں نے ان کا قلم کبھی بھی کسی حکمران کی مدح سرائی میں رواںنہ دیکھا۔ اس لیے شاید وہ دیوانوں کی محفل میں زیادہ اور حکمران کے ایوانوں میں کبھی نظر نہیں آئے۔ قلم کی حرمت ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی۔ ساری زندگی ان کے ہاتھ میں قلم ہی رہا۔ وہ ہمیشہ حکمرانوں اور ریاست کو باور کراتے رہے کہ قائد اعظم کا تصور پاکستان جمہوری روشن خیالی، آزادی اظہار اور قانون سب کے لئے برابر ہے۔ آج کا پاکستان اس سے مختلف ہے۔ ہم جتنی جلدی سنبھل جائیں اچھا ہے۔ قلم کی حرمت کا محافظ آئی اے رحمٰن نہیں رہا۔ 90سالہ جوان۔