بلوچستان حکومت، دوسرا رخ

June 16, 2013

گزشتہ کالم ”بلوچستان حکومت، چند یادیں ”میں بلوچستان کی نئی حکومت سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے راقم نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی نیپ حکومت کے بعد یہ دوسری حکومت ہے جو حقیقی مینڈیٹ رکھنے کے با وصف سابقہ حکومتوں کے برعکس اصل مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ نیز حکومت سازی کے تناظر میں وزیراعظم نواز شریف اور جناب محمود خان اچکزئی کی کوششوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کے وزیراعلیٰ بننے سے ایک حقیقی قوم پرست کے ہاتھ میں فیصلوں کی باگ ڈور آ جائے گی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا گورنر آ جانے سے جہاں پختون گورنر کی تقرری کا دیرینہ مطالبہ مراد سے ہم آغوش ہو سکے گا وہاں انتخابی نتائج کے حوالے سے اختیار پانے والے بلوچ پختون لیڈر شپ کے باہمی تعاون سے پختون بلوچ تعلقات مزید وسعت کی راہ پا لیں گے۔ بعض بلوچ دوستوں نے ان معروضات کو خوش فہمی پر مبنی بے تعبیر خواب قرار دیا جبکہ بعض نے انتخابی عمل کو ہی مشکوک ٹھہراتے ہوئے نئی حکومت کے مینڈیٹ کو اصل ماننے سے انکار کر دیا۔ کوئی لکھاری اگر اپنی رائے، سوچ، معلومات یا حالات حاضرہ پر تبصرے کو قرطاس پر منتقل کرنے کا حق رکھتا ہے تو یہی حق دوسروں کو بھی حاصل ہے۔ اسی جذبے کے تحت ذیل میں ایسے دوستوں کی رائے کا اظہار شامل تحریر ہے، جنھوں نے راقم سے اتفاق نہیں کیا! ان دوستوں کے مطابق چونکہ انتخابات ہی شفاف نہیں تھے، لہٰذا یہ منطق کیونکر تسلیم کئے جانے کے قابل ہے کہ نئی حکومت عوامی ہے! یوں تو جمعیت علمائے اسلام بھی بلوچستان میں انتخابی نتائج کو منصفانہ قرار نہیں دیتی اور اپنا مینڈیٹ چرائے جانے کا شکوہ بھی ان کے لبوں سے بوسہ زن ہے، لیکن اس حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کی شکایات تشویشناک ہیں۔ جہاں اس ضمن میں پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل انتخابات میں برسر عام آنے والے خفیہ ہاتھ کا بارہا تذکرہ کر چکے ہیں، وہاں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کے ذریعے بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں رواں ہیں۔ قطع نظر ان کے اس استدلال کے کہ اس میں کتنی صداقت ہے بعض بلوچ دوست این اے 260,259، پی بی 4 اور 5 کے انتخابی نتائج کو بلوچ پختون دوستی کیخلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق این اے 259 جہاں سے جناب محمود خان اچکزئی اور این اے 260 جہاں سے عبدالرحیم مندوخیل کامیاب قرار دیئے گئے ہیں اور پی بی 4 اور 5 جہاں سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں نتائج آئے ہیں۔ یہ حلقے جن علاقوں پر مشتمل ہیں وہاں بلوچ آبادی اکثریت میں ہے۔ بعض میں تو ان کی آبادی 70 فیصد سے بھی متجاوز ہے تو یہاں سے کس طرح پختونخوا میپ کے نمائندے جیت گئے اور بلوچ امیدوار شکست کھا گئے! راقم کی ”ناقص“ معلومات پر ماتم کرتے ہوئے ان کا اصرار بہ تکرار یہ تھا کہ جن نتائج کو راقم پختون بلوچ پائیدار تعلقات پر منتج کر رہے ہیں، وہ درحقیقت ان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی ایسی سازش ہے جسے بہرکیف کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بلوچوں کا مینڈیٹ چھین کر پختونخوا میپ کو دینے کے مقصد تلے وہ ذہن کارفرما ہے جو صوبے میں آباد قوموں میں اختلافات پیدا کر کے اپنے عزائم پورے کرنے کا خواہاں ہے، تاہم ان بلوچ دوستوں کو یقین ہے کہ احمد شاہ ابدالی اور میر نصیر خان بلوچ کے قول و قرار پر مبنی صدیوں سے قائم تعلقات بڑی سے بڑی سازش سے بھی متاثر نہیں ہو سکتے۔ البتہ ایسی مذموم کوششوں پر نظر رکھنا بہرنوع ضروری ہے۔ اس حوالے سے جب میری اپنے سیاسی استاد، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر معروف قانون دان ساجد ترین سے بات ہوئی تو انہوں نے انتخابی نتائج سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بلوچ بھائی بعض حلقوں کے نتائج کو پختون بلوچ مستحکم تعلقات اور خود بلوچ عوام کے خلاف سازش سمجھتے ہیں لیکن پختون بلوچ قوموں کے مابین تعلقات کی جو عمارت استوار ہے وہ اتنی ناپائیدار نہیں کہ کسی سازش سے زمین بوس ہو جائے البتہ اس طرح کے واقعات سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جنہیں شعور و ادراک سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1987ء میں باچا خان جب زندگی کے آخری ایام میں بلوچستان کے دورے پر آئے تو پختونوں سے بھی زیادہ گرمجوشی سے بلوچوں نے ان کا استقبال کیا اور ہر گام پر ان کی پذیرائی کی۔ علوم سیاسیات کے عالم ساجد ترین نے کہا کہ نئی حکومت سے متعلق راقم کی امیدیں بر آنے کے لئے اگرچہ وہ دعا گو ہیں لیکن انتظامی سطح پر کسی تبدیلی کے اثرات اس وقت تک نمودار نہیں ہو سکتے جب تک انتظامیہ کلی طور پر بااختیار نہ ہو۔ یوں تو کہنے کو ہر حکومت کو نمائندہ ہی کہا گیا لیکن عملاً اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ ہونے کے باعث ان حکومتوں نے وہ کچھ ڈلیور نہیں کیا، جو عوام کا استحقاق تھا۔ اب بھی اگر ایسا ہوا تو اس سے مایوس نوجوانوں کی واپسی کی راہیں مسدود ہو سکتی ہیں، لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اپنے دعوؤں میں کتنی صادق اور اختیارات میں کتنی خودمختار ہے۔
جناب ساجد ترین کی رائے صائب ہے، درحقیقت آنے والے شب و روز اس امر کا تعین کر سکیں گے کہ بلوچستان کی نئی حکومت اپنے فیصلوں میں کس قدر خود مختار ہے، یعنی بلوچ پختون عوام کی امنگوں کے مطابق یا برعکس اٹھائے جانے والے اقدامات ہی سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ یہ حکومت ہوا میں معلق ہے یا اس کی اپنی بھی کوئی اساس ہے۔جہاں تک بلوچ دوستوں کے اختلاف رائے یا الزامات کا تعلق ہے تو یہ ثبوت کے متقاضی ہیں۔ اگرچہ اس کے لئے بہترین فورم عدلیہ ہی ہے، لیکن آواز خلق کو بھی نقارہ خدا سمجھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یقین سے مہمیز یہ سوچ بھی دل و دماغ میں موجزن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف تاریخ رکھنے والے محمود خان اچکزئی جیسی آزاد منش شخصیت کس طرح اسٹیبلشمنٹ یا کسی اور کے ایجنڈے میں معاون کردار ادا کر سکتی ہے۔ بنابریں بلوچ اکثریتی آبادی سے ووٹ لینے سے بھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ نشستیں پختونخوا میپ کو دے کر دراصل یہ جتلایا ہے کہ ان سے یاری میں یہ مزے ہیں بصورت دیگر منہ کا ذائقہ کڑوا بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ بلوچوں نے پختونخوا میپ ہی کو اپنی خدمت و مسائل کے حل کے لئے کسی اور سے زیادہ اہل پایا ہو۔ تمام نزاعی مسائل کے باوجود یہ طرزعمل بہرکیف لائق تحسین ہے کہ بلوچستان کی تمام جماعتیں اختلافات کو شائستہ و مہذب روایات کے دائرے میں رکھے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی حکومت کو خودکو ثابت کرنے کی مہلت دی جائے۔ کیونکہ بہت جلد برسرزمین حقائق اور حکومتی اکابرین کے طرز عمل سے ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ کس کا مینڈیٹ کس قدر اصلی یا مصنوعی تھا۔