کورونا وائرس: اِمیونٹی پاسپورٹ کیا ہے؟

April 29, 2021

کئی ہفتوں کے لاک ڈاؤن اور عالمی کساد بازاری کے ممکنہ کمزور معاشی اشاریوں کے دوران، دنیا بھر کی حکومتیں اپنے ملکوں میں نئے کوروناوائرس سے پیدا ہونے والے وبائی مرض سے نمٹنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ایسے میں خطرہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد ایک دوسرے سے میل جول بڑھانے سے کورونا وائرس کا انفیکشن پھر سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دنیا کی کئی حکومتیں، جن میں چلی، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں، ’’اِمیونٹی پاسپورٹس‘‘ کے اجراء پر غور کررہی ہیں۔ اِمیونٹی پاسپورٹ، ایک طرح کی دستاویز ہوگی، جو ان افراد کو جاری کی جائے گی، جو کووِڈ-19کا کامیابی سے مقابلہ کرکے دوبارہ صحت مند زندگی کی طرف لوٹ چکے ہیں۔

اس سلسلے میں چلی میں تیزی سے پیشرفت ہورہی ہے، جہاں وزیر صحت جیم مینالچ نے ’’ریلیز سرٹیفکیٹس‘‘ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان سرٹیفکیٹس کے حامل افراد تمام طرح کی قرنطینہ کی سختیوں اور پابندیوں سے مستثنیٰہوں گے۔

کیا یہ جلدبازی کے فیصلے ہیں؟

ہرچندکہ کئی ترقی یافتہ ملکوں میں اِمیونٹی پاسپورٹ پر تیزی سے کام ہورہا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک قابلِ سوال عمل ہے۔ اس فیصلے پر جن ماہرین اور اداروں نے تنقید کی ہے ان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بھی شامل ہے۔ تنقید کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ماہرین بشمول عالمی ادارہ صحت، اس بات کا حتمی تعین نہیں کرسکے کہ ایک بار کورونا وائرس کا شکار ہونے والا فرد صحت یاب ہونے کے بعد کتنے عرصہ تک دوبارہ اس خطرے سے باہر رہتا ہے کہ یہ وائرس پھر سے اس پر حملہ آور ہو۔

حالانکہ، حالیہ مہینوں میں ایک بار کورونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں پھر سے کورونا وائرس کا انفیکشن ہونے کی تصدیقی خبریں آئی ہیں، تاہم اس حوالے سے کئی جواب طلب پہلو ابھی باقی ہیں۔ اس لیے عالمی ادارہ صحت کا خیال ہے کہ چلی کا مجوزہ فیصلہ قبل از وقت ہے۔

تاہم، چلی کے وزیر صحت اس حوالے سے اپنے منصوبے کو فول پروف قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ، ایک بار کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے فرد کو جاری ہونے والا سرٹیفکیٹ آئندہ تین ماہ تک مؤثر رہے گا، کیونکہ چلی کے ماہرینِ صحت کا ماننا ہے کہ ایک بار کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والے فرد کے جسم میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز آئندہ تین ماہ تک اسے کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔

تین ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ شخص دوبارہ سے کوروناوائرس کے خطرے سے اسی طرح ہی دوچار ہوتا ہے، جیسا کہ کوئی بھی عام شخص۔ چلی کی حکومت کو توقع ہے کہ اس فیصلے سے کورونا وائرس میں مبتلا ہر شخص اپنی رپورٹ حکومت کے پاس جمع کرائے گا تاکہ صحت یاب ہونے کے بعد وہ یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے اور اس کے بعد آئندہ تین ماہ تک آزادانہ آمدورفت اور سماجی زندگی گزار سکے۔

تاہم عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ، چلی کا مجوزہ پلان اس لیے بھی پُر خطر ہے کیوں کہ مارکیٹ میں دستیاب کئی لیبارٹری ٹیسٹ ا س قدر درست نہیں ہیں کہ ان پر مکمل طور پر اعتماد کیا جاسکے۔ خطرہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص، جسے غلطی سے کووِڈ-19پوزیٹو کا ٹیسٹ رزلٹ دیا گیا ہو، حالانکہ اس وقت تک اسے کبھی کورونا ہوا ہی نہیں تھا، اور وہ اس کے بعد یہ سمجھ کر سماجی زندگی شروع کردے کہ اب آئندہ تین ماہ تک وہ کووِڈ-19پروف ہوگیا ہے، ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مزید برآں، غلط کووِڈ-19نیگیٹو کی رپورٹ کا مطلب یہ ہوگا کہ حقیقی طور پر کورونا وائرس انفیکیٹڈ لوگ خود کو آئسولیٹ کرنے میں ناکام رہیں گے اور ایسے لوگ ان سے رابطے میں آنے والے دیگر درجنوں افراد تک وائر س کو منتقل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

اِمیونٹی پاسپورٹ سے متعلق، عالمی ادارہ صحت کی تجویز یہ ہے کہ مجوزہ سرٹیفکیٹ کا اجراء دراصل وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام ثابت شدہ طبّی ایس او پیز کو ملحوظِخاطر نہیں رکھیں گے۔

عالمی ادارہ صحت کا خدشہ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک عالمی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ کورونا وائرس سے متاثر ہوا ہے اور آبادی کا بڑا حصہ اب بھی وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ کئی ملکوں کو اپنی ٹیسٹنگ استعداد بڑھانے میں مسائل کا سامنا ہے۔

طبی ماہرین کو ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ اِمیونٹی پاسپورٹ کے ذریعے کچھ ملک وبائی مرض کا ’’کوئیک فِکس‘‘ تلاش کرنے کی غلطی کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان ملکوں کو وسط مدت میں کئی معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

طبی ماہرین کا مانناہے کہ طویل مدت میں کورونا وائرس سے نمٹنے کا لائحہ عمل، عوام کو مفت ویکسین کی فراہمی اور اس کے لیے درکار انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے میں پنہاں ہے۔ مزید برآں، حکومتوں کو کووِڈ-19کی ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کے عمل کو بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔