ماں کی آنکھوں کا انتظار ہوں میں...

May 09, 2021

نرجس ملک

عکّاسی و اہتمام : عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

حنا پرویز بٹ مسلم لیگ (نون) کی ایک بہت متحرک، نہایت وفادار کارکن کی حیثیت سے اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتی ہیں۔ دو بار (2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں) خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اپنی بروقت، بامقصد، فوری ٹوئیٹس (ویسے اپنی ہر صبح کا آغاز ٹوئٹر پر’’صبح بخیر پاکستان‘‘ لکھ کر کرتی ہیں) ہر اسمبلی سیشن میں باقاعدہ شرکت اور اہم ایشوز پر موثر آواز اٹھانے کے سبب بھی مقبول خواتین سیاست دانوں میں شمار ہوتی ہیں۔

نیز، بہترین فیشن سینس کےباعث بھی (فیشن ڈیزائننگ اُن کی فیلڈ بھی رہی ہے) اکثر و بیش تر خبروں میں بہت اِن رہتی ہیں کہ خوشپوش افراد کا ایک بڑاطبقہ اُنہیں فالوکرتاہے،لیکن ان تمام خصوصیات، خصائل کے ساتھ اُن کا ایک بہت خُوب صُورت رُوپ، تعارف، حوالہ ایک ’’آئیڈیل ماں‘‘ ہونا بھی ہے، محمّد کی ماں۔ اور آج ہماری اس ’’مدرزڈے اسپیشل‘‘ بزم میں وہ اپنے اکلوتے، لاڈلے بیٹے، محمّد کے ہم راہ اپنے اِسی حوالے کے ساتھ بطور مہمان شریک ہیں۔

حنا کی شادی کم عُمری میں ہوئی۔ چھوٹی عُمر ہی میںماں کے درجے پر فائز، اولاد کے وجود کے اچھوتے لمس سے آشنا ہوگئیں، تو اُنہیں لگتا ہے کہ دنیا میں اس رشتے سے بڑھ کر پیارا کوئی رشتہ، احساس ہو ہی نہیں سکتا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جب محمّد میری گود بلکہ کوکھ میںآیا، تب مجھے صحیح معنوں میں پتا چلا کہ ماں کی ممتا کیا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کیسا رشتہ تخلیق کیا ہے کہ جس کا کوئی مول، نعم البدل ہی نہیں۔ ایک ننھا مُنّا، گل گوتھنا سا وجود آپ کی آغوش میںآتا ہے اور آپ کو اگلے پَل ماں بننے کے لیے اُٹھائی گئی اپنی ساری تکلیف، اذیّت بھول جاتی ہے۔

روح تک صرف ایک ہی احساس سرایت کر جاتا ہے اور وہ ہوتا ہے، مکمل ہونے کا احساس۔ ماں ہونا اتنا بڑا افتخار و اعزاز ہے کہ اس کے سامنے دنیا کے باقی سب اعزازات، اسناد ماند پڑجاتی ہیں۔ مَیں اپنے تعلیمی کیریئر میں ہمیشہ ایک شان دار اسٹوڈنٹ رہی، کنیئرڈ سے پڑھا، لمز کی گولڈ میڈلسٹ ہوں، لیکن ’’محمّد کی ماں‘‘ کا میڈل گلے میں پہن کر جو خوشی و سرشاری ملی، وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔

سچ کہوں تو مَیں اپنے والدین کی بہت چہیتی بیٹی ہوں (ویسے تو ہم تینوں بہنیں ہی بہت لاڈلی ہیں، پر مجھے خصوصیت سے کچھ زیادہ ہی پیار ملا) اور مَیں بھی اپنے والدین پر جان نچھاور کرتی ہوں، لیکن محمّد کی پیدایش کے بعد مجھے اپنے والدین، خصوصاً امّی کی محبت و چاہت کی جو قدر ہوئی، وہ پہلے نہیں تھی۔ محمّد نے مجھےصرف اولاد سے محبّت کرنا ہی نہیںسکھایا، والدین کی چاہت و الفت، قدر و منزلت بھی بہت بڑھادی ہے۔‘‘

’’سیاسی، کاروباری مصروفیات کے ساتھ (حنا اپنے والد کے بزنس میں اُن کا ہاتھ بٹاتی ہیں، کبھی کبھار اپنا فیشن، انٹریئرڈیزائننگ کا شوق بھی پورا کرتی ہیں) محمّد کو اس کا پورا وقت کیسے دے پاتی ہیں، جب کہ آج کل کی اولاد تو بہت ڈیمانڈنگ بھی ہے۔ اُسےساری آسائشیں، تعیّشات بھی چاہئیں اور پوری ماں بھی؟‘‘ ہمارے اس سوال کے جواب میںحنا کا کہنا تھا کہ ’’ماشاء اللہ، ماشاء اللہ میرا بیٹا بہت انڈراسٹیڈنگ ہے۔

وہ میرا بیٹا ہی نہیں، میرا دوست، میرے ہر دُکھ سُکھ کا ساتھی ہے۔ اُسے اچھی طرح پتاہےکہ اُس کی ماں کی کیا مجبوریاں، پریشانیاں ہیں اور وہ اُن کے ساتھ سمجھوتا کرتا ہے۔ کبھی کبھار شکایت بھی کرتاہے، لیکن عمومی طور پر صلح جُو بچّہ ہے، پھر کورونائی ایّام میں چوں کہ ہم نے بہت سا وقت ایک ساتھ گزارا ہے، تو اُس کےخاصے گلے شکوے دُور ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی محمّد، اپنے نانا سے بہت اٹیچ ہے، اُس کے پاس ماں کا متبادل نانا یا نانی ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، تو وہ ماں کو بہت زیادہ مِس نہیںکرتا، میری کمی اُن سے پوری کر لیتا ہے۔‘‘

’’آپ خود کو کیسی ماں تصوّر کرتی ہیں، کبھی موازنہ کیا ہے کہ آپ اچھی ماں ہیں یا آپ کی والدہ اور کیا اولاد کی تعلیم و تربیت کے معاملے میںسختی کرنے، کڑی نگاہ رکھنے کی حامی ہیں؟‘‘ اس سوال پر حنا نے مُسکراتےہوئے کہا ’’کوئی بیٹی، کبھی یہ بات نہیں کہہ سکتی کہ وہ اپنی ماں سے اچھی ماں ہے۔ عموماً بیٹیاں، اپنی مائوں ہی کی پرچھائیاں ہوتی ہیں اور وہ پوری کوششکرتی ہیں کہ اپنی مائوں ہی کے نقشِ قدم پر چلیں۔

ہم تین بہنیں ہیں، ہمارا کوئی بھائی نہیں، لیکن ہمارے والدین نے ہماری تعلیم و تربیت کے معاملے میںکبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا، کسی حوالے سے کبھی کوئی تخصیص برتی، اور نہ ہی ہمیں کبھی احساس ہونے دیا کہ ہم لڑکیاں ہیں۔ گو کہ ہمارے یہاں اقدار و روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم تینوں بہنوں نے زندگی میںجو کرنا چاہا، اپنی پوری خوشی اور آزادی کےساتھ کیا۔

والدین نےہمیں قدم قدم سپورٹ کیا۔ امّی کی بہت خواہش تھی کہ مَیں ڈاکٹر بنوں اور میرا فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ بھی ہوگیا تھا، لیکن جب مجھے محسوس ہوا کہ میرا اُس طرف رجحان نہیں ہے، مجھے بزنس سے لگائو ہے، تو مَیں نے میڈیکل چھوڑ کے بزنس کی تعلیم حاصل کی اور اس پورے عرصے میں مجھے والدین کا بھرپور اعتماد اور تعاون حاصل رہا۔ اسی طرح مَیں محمّد کے معاملے میںکسی زور زبردستی کی قطعاً قائل نہیں۔ وہ زندگی میں جو کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔

میرا تو ماننا ہے کہ اولاد کو اتنا بھروسا، مان اور اعتماد دینا چاہیے کہ وہ آپ سے اپنی ہر ہر بات با آسانی شیئر کرسکے۔ ہمارا فرض ہے کہ اُن کے سامنے صحیح اور غلط کے بیچ کی لکیر واضح کردیں، لیکن اُن پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کی کوششنہ کریں۔ اور مَیں اپنے بیٹے کی تربیت کے ضمن میں اسی اصول پر کارفرما ہوں۔‘‘

’’آپ دونوں ماں، بیٹے کے مشترکہ مشاغل کیا ہیں، جب ساتھ ہوں تو کیسے انجوائے کرتے ہیں؟‘‘ اس سوال پر حنا نے بڑے پُرجوش انداز میں بتایا، ’’ہم لوگ ایک ساتھ کرکٹ، ٹینس کھیلتے ہیں۔ محمّد کو سوئمنگ کا بہت شوق ہے۔ ہم ساتھ شاپنگ، آئوٹنگ بھی کرتے ہیں۔ واک پہ جاتے ہیں، اچھی اچھی ایکٹیویٹیز مثلاً گارڈننگ، بُک ریڈنگ، ٹریولنگ، لانگ ڈرائیو وغیرہ کرتے ہیں۔

محمّد طبعاً حسّاس بچّہ ہے۔ گو کہ ابھی صرف 13سال کا ہے اور آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے، لیکن میری اِک اِک بات کا خیال رکھتا ہے، خصوصاً میری زندگی کا کوئی بھی اہم ایونٹ ہرگز مِس نہیں کرتا۔ میری سال گرہ، عیدین اور خاص طور پر مدرز ڈے پر اپنے ہاتھ سے کوئی چارٹ بنا کے یا پینٹنگ کرکے گفٹ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً میرے لیے تحائف لاتا رہتا ہے۔ اُسے بہت اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ کس وقت اُس کی ماما کا کیسا مُوڈ ہے اور وہ اُن موڈز کا خیال رکھتا ہے۔

وہ اتنا مہذّب اور مودب بچّہ ہے کہ مجھے اُسے رشتوں کی تمیز سکھانی پڑتی ہے، نہ زبردستی احترام کروانا پڑتا ہے، وہ خود ہی ان تمام باتوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔ عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ ننھیال میں پلنے والے بچّے بگڑ جاتے ہیں، لیکن الحمدللہ، میرے بیٹے کی تربیت بہت عُمدہ خطوط پر ہو رہی ہے۔‘‘

’’زندگی یقیناً اک ہم وار رستے کا سفر، کوئی پھولوں کی رہ گزر نہیں، متعدّد اتار چڑھائو آئے ہوں گے، کئی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں سے گزرنا پڑا ہوگا، تو ان لمحات میں کس کا ساتھ، کس کا ہاتھ سب سے مضبوط سہارا ثابت ہوا؟‘‘ اس سوال پر حنا نے بڑی قطعیت سے کہا، ’’میرے والدین اور میرا شہزادہ بیٹا، میرا بہترین سپورٹ سسٹم ہیں۔ وہ کیا ہے ناں کہ؎ مانا کہ سفر میں تو کڑی دھوپ ہے لیکن…سر پہ مِرے ماں باپ کا سایا بھی بہت ہے۔ اور ؎ باپ زینہ ہے، جو لےجاتا ہے اونچائی تک…ماں دُعا ہے، جو سدا سایہ فگن رہتی ہے۔ تو میرے والدین، اللہ اُن کو صحت و تندرستی والی لمبی حیاتی دے، اُن کے ہوتے مجھے کوئی غم نہیں۔

وہ آج بھی مجھے ایک چھوٹے بچّے کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ میری ذرا سی پریشانی پر سخت فکرمند ہو جاتےہیں، محمّد کامجھ سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں، خود میری اِک اِک ضرورت، خواہش کا مجھ سے زیادہ اُنھیں احساس رہتا ہے، تو ایسے میں مَیں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین بیٹی نہ سمجھوں، تو کیا سمجھوں۔ پتا نہیں، مَیں ایک آئیڈیل ماں ہوں یا نہیں، لیکن میرے والدین یقیناً آئیڈیل والدین ہیں، جو دنیا کی کسی بھی بیٹی کا خواب ہو سکتے ہیں۔ مَیں آج کے اِس دن کی مناسبت سے اپنے والدین سے بس اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ ’’بخدا دنیا میں آپ کا کوئی نعم البدل نہیں اور مَیں حقیقتاً آپ کی محنتوں، مشقّتوں اور لازوال محبّتوں، چاہتوں کی دل سے مقروض ہوں۔‘‘

بلاشبہ ؎ کرلیا ہے خود کو چھت ماں باپ نے اور.....جسم کا بچّوں پہ سایہ کرلیا ہے۔ دنیا کی کوئی اولاد، والدین کی اِک رات کا بھی قرض چُکتا کرنے کی دعوے دار نہیں ہوسکتی۔ یہ سلسلہ ازل سے چلا آرہا ہے اور شاید تا ابد جاری و ساری رہے، تب ہی روزِ حشر تک کائنات اپنے قدموں پہ کھڑی رہ سکے گی۔ خود حنا تو اپنے والدین کے سامنے خود کو ایک بالکل عام سی ماں سمجھتی ہین، لیکن جب محمّد سے ہم نے پوچھا کہ وہ اس مدرز ڈے پر اپنی ماں کو ایسا کیا کہنا چاہے گا، جو وہ آج تک نہیں کہہ پایا، تو اُس کا کہنا تھا کہ ’’میری ماما دنیا کی سب سے اچھی ماما ہیں۔

وہ کبھی مجھ پر خفا بھی ہوتی ہیں، تو مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگتا کہ مجھے پتا ہے، وہ ایسا صرف اور صرف میری بھلائی اور بہتری کے لیے کرتی ہیں۔ وہ مجھے میرا اچھا، بُرا نہیں سمجھائیں گی، تو کون سمجھائے گا اور مَیں ہمیشہ بہت دل سے اپنی ماما کے لیے دُعا کرتا ہوں کہ وہ زندگی میں جتنی محنت کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ اُنھیں اتنی ہی کام یابیاںنصیب کرے، آمین۔‘‘ واقعی کسی نے سچ ہی کہا ہے ؎ حادثے میرا کیا بگاڑیں گے…ماں کی آنکھوں کا انتظار ہوں میں۔ اللہ سب کے سَروں پر والدین کا گھنا، چھتنار سایہ سلامت رکھے۔