یہ مائیں تھکتی ہیں، نہ ڈرتی ہیں

May 09, 2021

’’آخر ہماری زندگی باقی لوگوں سے، میری عُمر کے باقی بچّوں سے مختلف کیوں ہے؟میرے سارے دوستوں کی مائیں ہر خاص موقعے پر ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ بس ایک آپ ہی ہیں، جو ہم لوگوں کا ہر اسپیشل ڈے مِس کر دیتی ہیں‘‘ ارحم، چھوٹی بہن کی روزہ کُشائی پر ماں کے اچانک ڈیوٹی پر چلے جانےپہ سخت خفا تھا۔ اتنا ناراض کہ سحری کے وقت گھر داخل ہوتی ماں کو دیکھتےہی برس پڑا۔

اس کی والدہ ایک ایمان دار، اصول پرست پولیس آفیسر ہیں، جنہوں نے شوہر کے انتقال کے بعد فورس جوائن کی ۔ ویسے تو وہ اپنے دونوںبچّوں کی تعلیم و تربیت پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتیں ، چاہے کتنی ہی طویل ڈیوٹی کرکے کیوں نہ لَوٹیں۔ بچّوں کا ہوم وَرک چیک کرنا، اُن کی دن بھر کی باتیں سُننا اور ان کے لیے کھانا پکانا انہیں راحت و فرحت دیتا ہے۔مگر پولیس آفیسر او رماں کے بیچ اکثر ماں ہار جاتی ہےکہ وقت ،بے وقت ڈیوٹی پر جوجانا پڑتاہےاور یوں بچّوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں نظر انداز ہوجاتی ہیں۔

’’ ماما…ماما… !!‘‘ ڈاکٹر سحرش کی 4 سالہ بیٹی نےماں کو گھر سے جاتا دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ وہ پہلے ہی ایک گھنٹہ لیٹ تھی اور اسپتال سے کالز پہ کالز آئے جا رہی تھیں، تو وہ بچّی کو روتا، بلکتا چھوڑ کر نکل گئی۔ ’’دیکھو ذرا کس قدر ظالم ماں ہے، چھوٹی سی بچّی کا کوئی خیال ہی نہیں۔ ارے بھئی، ہم نے بھی بچّے پالے ہیں اور ہماری بیٹی بھی تو نوکری کرتی ہے، مگر مجال ہے جو کبھی بچّوں کو نظر انداز کیا ہو۔

کیریئر کے پیچھے ایسی پاگل ہے کہ ننّھی سی جان تک کا خیال نہیں اور ہمارا بیٹا بھی بیوی سے ایسا ڈرتا ہے کہ مجال ہے ،جو کبھی اسے ایک لفظ بھی کہہ دے۔‘‘ سحرش کے جانے کے بعد اس کی ساس نے پڑوسن کے سامنے دل ہلکا کیا۔’’ اب کیا کہہ سکتے ہیں، آج کل کی ماؤں کو، کچھ کہہ دو تو منہ بن جاتا ہے۔ ‘‘ پڑوسن نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ اور… گھر سے نکلنے سے لے کر اسپتال پہنچنے تک سحرش کو اِک پَل قرار نہ آرہا تھا کہ نہ جانے میری گڑیا چُپ ہوئی ہوگی یا نہیں۔

بیٹی کی آنکھوں کے موٹے موٹے آنسو اُس کی آنکھیں جھلملائے دے رہے تھے۔ ڈیوٹی پر پہنچی تو تاخیر سے پہنچنے پر سینئر سے ڈانٹ الگ پڑی’’جب آپ لوگوں کو گھر اور بچّے ہی سنبھالنے ہوتے ہیں تو میڈیکل پروفیشن میں آتی ہی کیوں ہیں؟بی بی ! اگر آن ٹائم ڈیوٹی پر موجود نہیں رہ سکتیں، تو گھر بیٹھیں۔ویسے بھی آج کل اسپتالوں میں ہائی الرٹ ہے، ہمیں کام کرنے والے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ ‘‘ اس کے سینئر بلا رُکے بولے چلے جا رہے تھےاور بس وہی جانتی تھی کہ ایک ماں کس دل سے اپنی بچّی کو روتا چھوڑ کر آئی ہے، جسے وہ کئی روز سےجی بھر کر پیار بھی نہیں کر سکی کہ کہیں بچّی وائرس سے متاثر نہ ہوجائے۔

’’پربابا! میرا جانا ضروری ہے۔جونیئر ہوں تو کیا ہوا،ڈاکٹر تو ہوں ناں۔ اب آپ نے مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا تو اس کی تعبیر سے منہ کیوں موڑ رہے ہیں؟ ‘‘ ’’ مَیں جانتا ہوں ڈاکٹر ہونا کوئی آسان بات نہیں، لیکن بیٹا آج تو عید ہے۔ سب لوگ گھر پہ ہیں اور تمہیں تو پتا ہے ناں ،آج ہمارے گھر دعوت بھی ہوتی ہے، تو سب کیا کہیں گے؟ تم بات تو کرو اپنی اِن چارج سےاس طرح تہوار پر بھی کوئی کام کرتا ہے کیا بھلا؟‘‘ ’’ اگر سارے ہیلتھ کیئر ورکرز عید منائیں گے، چُھٹیوں پر چلے جائیں گے ،تو اسپتال میں داخل مریضوں یا ایمرجینسی میں آئے مریضوں کا علاج کون کرے گا؟ اور آج کل تو کورونا کی وجہ سے ویسے بھی تمام عملہ غیر ضروری چُھٹی نہیں کر رہا اور مَیں تو پھر خوش قسمت ہوں کہ عید پر میری نائٹ ڈیوٹی نہیں لگی، میری ایک ساتھی ڈاکٹر کی تو نائٹ ہے، اب سوچیں وہ اور اس کے گھر والے کیسا محسوس کر رہے ہوں گے…‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر انعم نے اسٹھیتو اسکوپ بیگ میں ڈالا اور مُسکراتے چہرے کے ساتھ اسپتال جانے کے لیےنکل کھڑی ہوئی ۔

درج بالا کہانیاں کسی ایک گھر، کسی ایک پولیس آفیسر یا ڈاکٹر کی نہیں ، ہر اُس گھر کی حقیقت ہیں، جہاں شعبۂ طِب یا سیکیوریٹی نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک مائیں، بیٹیاں موجود ہیں۔کہنے کو تو عورت صنفِ نازک ہے، لیکن پاکستان میں ’’ورکنگ مدر‘‘ ہونا کس قدر دشوار اورمشکل ہے، یہ صرف ایک ورکنگ وومن ہی سمجھ سکتی ہےکہ یہاں شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنا اور بچّوں کو گھر پر چھوڑ کے جانا کوئی آسان بات نہیں۔

ہزار طعنے، سو طرح کی باتیں سُننی پڑتی ہیں۔ ورکنگ مدر نہ جانے کتنی کسوٹیوں پر پرکھی جاتی ہے۔اُسےلا پروا، غافل، ظالم، کام چور، پھوہڑ اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔اگر کہیںماں کا تعلق کسی ایسے شعبے سے ہو، جہاں 24 گھنٹے آن کال رہنا پڑے، چُھٹّی کا کوئی ایک دن مقرّر ہو ،نہ تہواروں پر چُھٹّی کی کوئی ضمانت تو ایسی ماؤں ، بیٹیوںکی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔

جب سے ہمارے مُلک میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیاہے، تب ہی سے تمام اسپتالوں میں ایمرجینسی اور شہروں میں لاک ڈاؤن کی سی صورتِ حال ہے۔گوکہ رواں سال ، گزشتہ برس کی طرح پابندیاںنہیں لگائی گئیں اور نہ ہی سخت لاک ڈاؤن کیا گیا، جس کے نتیجے میں خطرات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہیلتھ آفیشلز کی جانب سےکورونا کی تیسری لہرکو انتہائی خطرناک قراردیا جا رہا ہےاور یہ نوبت اس لیے آئی کہ عوام نے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا۔بے چارے ڈاکٹرز کہہ کہہ کر تھک گئے کہ ’’اپنا خیال خود رکھیں، ماسک لگائیں، سماجی فاصلے کو یقینی بنائیں‘‘مگر وہ پاکستانی ہی کیا ،جو خود تجربہ کیے بغیر سبق حاصل کرلیں۔

بہر کیف، کورونا کی پہلی اور دوسری لہرگزرجانے کے بعد بیش تر افراد نے سُکھ کا سانس لیا، لیکن ان سکون کے لمحات میں بھی ہیلتھ کیئر ورکرز کے اوقاتِ کار میں کوئی کمی آئی ، نہ ان کا کام کم ہوا کہ اسپتالوں میں کورونا سے متاثرہ افردا کی ایک بڑی تعداد نہ صرف ہمہ وقت موجود ہے، بلکہ اس تیسری لہر کے بعد بہت بڑھ گئی ہے۔ ہماری زندگیاں تو کچھ حد تک معمول پر آگئیں، لیکن پولیس اور شعبۂ طِب سے وابستہ افراد کی زندگیاں تاحال افرا تفری کا شکار ہیں۔

پہلے پہل توحالات یورپی ممالک ہی میں بد تر تھے، مگر اب بات ہمارے پڑوس، یعنی بھارت تک آن پہنچی ہے، جہاں اسپتالوں میں جگہ اور آکسیجن سلینڈرز کم پڑگئے ہیں، مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں اب بھی یہ وبا ایک مذاق، لاک ڈاؤن سزا لگ رہی ہے، لیکن کیاکبھی سوچا ہے کہ جن پولیس والوں کو ہم کسی خاطر میں نہیں لاتے، جن ڈاکٹرز ، نرسز کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، وہ کیسے آج فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے ہماری خدمت میں کوئی کمی، اپنی ڈیوٹی میں غفلت نہیں کر رہے۔ ہم تہہ دل سے اُن تمام فرنٹ لائن ورکرز ،بالخصوص لیڈی ورکرزکو بھر پورخراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، جو اپنا گھر، بچّے، سُکھ چین، آرام قربان کرکے ہمارے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں، کہیں سڑکوں پرموسم کی سختی کے با وجود ہماری حفاظت یقینی بنا نے پر مامورہیں، تو کہیں اسپتالوں میں کسی ڈاکٹر، نرس کی صورت ہمارے پیاروں کا خیال رکھ رہی ہیں۔

ہر سال مئی کا دوسرا اتوار’’ ماؤں کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ سو،ہم آج کا یہ دن اُن تمام عظیم اوربہادر ماؤں کے نام کر رہے ہیں، جو اس مشکل وقت میں اپنی ڈیوٹیز جاں فشانی سے انجام دے رہی ہیں۔ اس موقعے پر ہم نے کچھ پولیس آفیسرز ڈاکٹرز اور نرسز ،ماؤں سے بات چیت کی، جس میں اُن سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ’’ڈیوٹی کا ان کی فیملی لائف پر کتنا اثر ہوتا ہے؟ بچّےانہیں کتنا مِس کرتے ہیں اور وہ پروفیشنل اور پرسنل لائف کے درمیان توازن کس طرح بر قرار رکھ پاتی ہیں؟‘‘با پردہ ، نرم گفتار، پولیس کے روایتی تاثر کے بالکل برعکس ،ڈی ایس پی ٹریفک، ذکیہ بتول نے28برس پہلے بطور اے ایس آئی ملازمت کا آغاز کیا تھا۔

ڈی ایس پی ذکیہ بتول

چار بچّوں کی ماں، ڈی ایس پی ذکیہ نے اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ ’’ ہماری مصروفیت کا تعلق وبائی ایّام یا عام دنوں سے نہیں ہوتا کہ میرا تو گزشتہ کئی برس سے ایک ہی معمول ہے۔ اتوار بھی عام دنوں ہی کی طرح ہوتا ہے، کسی بھی وقت ڈیوتی پر جانا پڑ جاتا ہے۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ مَیں ڈیوٹی کر کے بس گھر میں داخل ہی ہوئی ، یونی فارم تک تبدیل نہیں کیا کہ دوبارہ جانا پڑگیا۔

میرے بچّے اکثر چُھٹی والے دن کہتے ہیں کہ ’’ماما! آج تو اتوارہے، سب کے ماما، بابا گھر پہ ہوتے ہیں، پھر آپ کیوں جاتی ہیں؟‘‘ تو مَیں کہتی ہوں کہ ’’بیٹا! بلا شبہ آج چُھٹی کا دن ہے، لیکن آپ کی ماں ایک آفیسر ہیں، ان کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمّے داری ہے، جسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے،نہ غفلت برتی جا سکتی۔‘‘میری سب سے چھوٹی بیٹی سات سال کی ہے، جس نے اس سال سے روزے رکھنے شروع کیے ہیں، تو جب بچّے پہلاروزہ رکھتے ہیں تو والدین سے طرح طرح کی فرمایشیں کرتے ہیں، ہم بھی اپنے والدین سےکرتے تھے، مگرجب مَیں نے اس سے پوچھا کہ ’’آپ کو کیا چاہیے؟‘‘ تو کہنے لگی ’’ماما! مجھے کچھ نہیں چاہیے ، بس آپ ہم سب کے ساتھ روزہ کھولا کریں۔

میرے ساتھ وقت گزارا کریں، مجھے کھلونوں کی نہیں، آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ اس کی باتیں سُن کر مَیں تو حیران ہی رہ گئی کہ اتنی چھوٹی بچّی ، کتنی سمجھ داری کی باتیں کر رہی ہے۔ اللہ پاک نے میرے بچّوں کو بہت سمجھ دار بنایا ہے، کبھی ضد نہیں کرتے، میری مجبوری سمجھتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ مجھے ہنڈیا چولھے پر چھوڑ کر جانا پڑا کہ ڈیوٹی کال آگئی تھی۔ ہم لوگ 24 گھنٹے آن کال رہتے ہیں، مگر اللہ کا احسان ہے کہ اس سفر میں میرے شوہر میرا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ کبھی وقت نہ دینے کا گِلہ شکوہ نہیں کرتے۔ مزید بر آں، جب سے یہ وبا پھیلی ہے، تب سے ہماری ذمّے داریاں بھی مزید بڑھ گئی ہیں کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں لوگوں کو روکنا، ان سے ایس اوپیز پر عمل در آمد کروانا کوئی آسان کام نہیں۔

پھر یہ بھی خدشہ لاحق رہتا ہے کہ میرا ایکسپوژر زیادہ ہے، توکہیں میرے ذریعے میری فیملی متاثر نہ ہوجائے۔ جب ڈیوٹی سے لَوٹتی ہوں تو بیٹی بھاگتی ہوئی میرے پاس آتی ہے ، مگر مَیں دل پہ پتّھر رکھ کے اس سے دُور رہتی ہوں۔ اب تو بچّے بھی سمجھ گئے ہیں کہ ان کی ماں صرف ایک ماں نہیں، عوام کی خادمہ بھی ہے۔ اور یہ ذمّے داری، یہ فرض مجھے کبھی بوجھ نہیں لگا، یہ میرا فخر ہے۔ بس تمام والدین سے ایک بات کہنا چاہوں گی کہ غلط کاموں پراپنی اولاد کو شہہ نہ دیا کریں۔

ہم آج کل اکثرنوجوانوں کو ون وِیلنگ اور انڈر ایجڈ بچّوں کو ڈرائیونگ، بائیک رائڈنگ سے روکنے کے لیے اتوار کو ڈیوٹی دیتے ہیں، تو جب بچّوں کو پکڑتے یا ان کے والدین کو بلواتے ہیں تو بجائے بچّوں کی سرزنش کرنے کے والدین اُلٹا ہمیں ہی باتیں سُنانے لگتے ہیںاور کچھ نوجوان تو گالیاں تک دینے سے گریز نہیں کرتے۔ مَیں پولیس آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی ہوںاور اسی ناتے کہہ رہی ہوںکہ جب تک بچّوں کو تمیز، تہذیب نہیں سکھائیں گے، تب تک یہ اتنی منہگی تعلیم بھی کسی کام کی نہیں۔ ‘‘

ڈی ایس پیزرینہ چانڈیو

ڈی ایس پی ، قمبر شہداد کوٹ ہیڈ کوارٹر، زرینہ چانڈیو گزشتہ 27سال سے پولیس میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’’زندگی تو سب ہی کی مشکلات، کٹھنائیوں سے عبارت ہوتی ہے، مگر ہماری زندگی اس لحاظ سے تھوڑی زیادہ دشوار ہے کہ ہمیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ آنے والا پَل فیملی کے ساتھ گزرے گایا ڈیوٹی پر۔ شروع شروع میں یہ معمول کچھ عجیب لگتا تھا، لیکن اب عادت ہوگئی ہےاور اس زندگی کا انتخاب مَیں نے خود کیا ہے، تو مَیں اپنے فرض کو ہر چیز پر مقدّم رکھتی ہوں۔ میرے چار بچّے ہیں، تو جب وہ چھوٹے تھے تو مینیج کرنا مشکل ہوتا تھا، پر اب آسانی ہو گئی ہے۔ کوشش کر تی ہوں کہ گھر والوں کے لیے کھانا خود ہی بناؤں ، جب گھر مَیں ہوتی ہوں تو بالکل گھریلو خاتون بن جاتی ہوں اور ڈیوٹی پر فرض شناس افسر ۔

میرے شوہر بھی پولیس میں ہیں، تو اکثر عید پر ہم دونوں ہی کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے، تب بچّے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن پھر ہم اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ جو بھی وقت میسّر آئے ،وہ بچّوں کے ساتھ بھر پور انداز میں گزاریں، تاکہ انہیں ہم سے کوئی شکوہ نہ ہو۔ مَیں نے بچّوں کو ہمیشہ یہی سمجھایا ہے کہ جس طرح آپ لوگوں کو اپنی ماں کی ضرورت ہے، اسی طرح اس مُلک کو بھی ہماری ضرورت ہےاور وطن ہے تو سب کچھ ہے۔‘‘

ڈاکٹر سیمیں جمالی

ایگزیکیٹِو ڈائریکٹر اور سربراہ شعبۂ حادثات، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی، ڈاکٹر سیمیں جمالی کا کہنا ہے کہ’’ڈاکٹرز کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہےاور خاص طور پر جب وہ ڈاکٹر ایک ماں بھی ہو تو ذمّے داری کئی گُنا بڑھ جاتی ہے کہ ایک عام ماں ہر وقت اپنے بچّوں کے پاس ہوتی، ان کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت پر دھیان دے پاتی ہے، لیکن ایک ورکنگ مدر کے لیے ہر وقت اولاد کے پاس رہنا، اس پر نظر رکھنا، اس کا خیال رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ دفتر ہو یا اسپتال کام کے دوران بار بار بچّوں کا خیال آتا ہےکہ ’’انہوں نے کچھ کھایا ہوگا؟ اسکول میں ٹیسٹ کیسا ہوا ہوگا؟ ٹیوشن تو وقت پرچلا گیا ہوگا؟ ‘‘وغیرہ وغیرہ…

مَیں نے ہمیشہ ہی سے شعبۂ حادثات میں کام کیا،جہاں کام کرتے ہوئےحاضر دماغ رہنا اور اعصاب کو مضبوط رکھنا انتہائی اہم ہے، تو مریضوں کو ٹریٹ کرتے کرتے، میرے اندر کی ماںکو اچانک ہی بچّوں کی فکر ستانے لگتی تھی، مگر مَیں نے ہمیشہ ترجیح اپنی ڈیوٹی ہی کو دی۔ جب کبھی کم زور پڑنے لگتی تو خیال آتا کہ مَیں کیسے کم زور پڑ سکتی ہوں کہ مشکل حالات میں کام کرنے اور عوام کی خدمت کرنے ہی تو اس پروفیشن میں آئی ہوں اور مسیحائی کے درجے پہ ہر کوئی فائز نہیں ہوجاتا، یہ کام تو بس اللہ کے چُنے ہوئے چند خوش بختوں کے حصّے میں آتا ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو اللہ پاک آپ کی تمام مشکلات خود بخود حل کردیتا ہے۔

مجھے یاد ہےکہ ایک بار مَیں اسپتال میں تھی تو خبر ملی کہ چینی قونصل خانے میں دھماکا ہوگیا ہے، اتفاق سے میرے بیٹے کا کالج اُسی طرف تھا اور وہ کالج جانے ہی کے لیے نکلا تھا،تو جب مجھے خبر ملی تو میرا دل دہل کے رہ گیا، پر مَیں نے اس کی خیریت پوچھنے سے پہلے، فی الفور اسپتال میں ہائی الرٹ کیا اور ایمر جینسی وارڈریڈی کروایا کہ ہمیں ہر طرح کےحالات کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے۔ جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ ہم کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، اسٹاف الرٹ ہے، تب کہیں جا کر مَیں نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور خیریت پوچھی ۔ اور یہ صرف میری سوچ یا میرا طریقہ نہیں ، ہمارے پروفیشن سے تعلق رکھنے والا ہر انسان، بالخصوص لیڈی ہیلتھ کیئر ورکرز اسی سوچ کی حامل ہوتی ہیں۔

ہم اپنے عہدکی پاس داری کے لیے جانوں کی بازی لگا دیتے ہیںاور اس کا ثبوت آج کل کی صورتِ حال، یہ وبائی ایام ہیں۔ مَیں نےکتنے ہی ڈاکٹرز کو ایک ماں کی طرح مریضوں کی تیمار داری کرتے دیکھا ہے۔ اپنی فیملی لائف قربان کرکے، گھر والوں سے دور رہ کر کئی کئی گھنٹے سخت ڈیوٹی کرنا بچّوں کا کھیل نہیں، وہ بھی ایسے حالات میں جب ہماری اپنی جانوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم عوام کے غیر سنجیدہ رویّوں سے بہت مایوس ہیں، یقین کریں اب ہم لوگ بھی کم زور پڑ رہے ہیں، فرسٹریٹ ہو رہے ہیں۔ آخر ڈاکٹرز بھی انسان ہیں، خدارا! ہم پر رحم کریں ۔ینگ ڈاکٹرز سے لے کر سینئرز تک سب ہی عوام کی بے لوث خدمت میں لگے ہیں۔ پلیز! ویکسین لگوائیں، ایس او پیز پر عمل در آمد کریںکہ جب تک آپ سنجیدگی اختیار نہیں کریں گے، تب تک یہ کورونا نامی عذاب ہم پر مسلّط ہی رہے گا۔‘‘

ڈاکٹر طاہرہ صادق

ڈاکٹر طاہرہ صادق پاکستان ائیر فورس اسپتال، اسلام آباد میں کارڈیالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ’’ویسے تو بچّوں کے ساتھ ڈیوٹی کرنا ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے، لیکن موجودہ حالات نے پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ شوہر بھی گھر پہ ہیں، بچّے بھی، تو اب بے چاری ’’ڈاکٹر ماما‘‘ کیا کریں…جب مَیں اسپتال میں ہوتی ہوں تو مریض ہی میری توجّہ کا مرکزو محور ہوتے ہیں کہ وہاں کی دنیا، ورک پریشر بالکل الگ ہوتا ہے۔

اگر آپ کے گھر میں کوئی ڈاکٹر ہے، تو آپ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ ڈیوٹی ٹائمنگز میں انہیں گھر بات کرنے تک کی فرصت نہیں ملتی اور سچّی بات تو یہ ہے کہ ہمیں گھر کا خیال ہی نہیں رہتا کہ اسپتال کی دنیا ہی بالکل الگ ہوتی ہے، جہاں ہم سب ڈاکٹرز ، نرسز یا دیگر عملہ ہماری فیملی اور مریض ذمّے داری ہوتے ہیں ۔ لیکن ، بطور ماں مَیں اپنے فرض سے رُو گردانی نہیں کر سکتی ،تو چاہے جتنی بھی تھکی ہوئی ہوں، گھر آکر فُل ٹائم ہاؤس وائف بن جاتی ہوں۔ آج ہی کی بات ہے، اسپتال میں میرا شیڈول بہت سخت تھا، پھر رمضان بھی ہےتو گھر جاتے جاتے ایسا لگ رہا تھا، جیسے میری ساری انرجی ختم ہو گئی ہے۔

لیکن جیسے ہی گھر میں قدم رکھا اور بیٹی کو تیار دیکھا تو یاد آیا کہ آج تو مَیں نے اسے بُک اسٹور لے جانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کی ناراضی تو مَیں کسی صُورت افورڈ نہیں کر سکتی تھی کہ وہ دن بھر سے میرا انتظار کر رہی تھی ۔بس ،پھر مَیں اپنی تھکن بھول کر اُسے کتابیں دلوانے لے کر گئی۔ اسی طرح گزشتہ دنوں کی بات ہے، 23 اپریل کو میری بیٹی کی سال گرہ ہوتی ہے، تو پچھلے سال بھی ہم کچھ نہیں کر سکے تھے ، تو مَیں نے اس سال خاص طور پر اُس دن اسپتال سے چھٹّی لی ، کچھ قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو مدعو کیا تھا۔ گھر کی سجاوٹ سے لے کر کھانے کی تیاری تک سب مَیں نےہی کی اور کیک کاٹتے ہی اسپتال سے کال آگئی کہ ایمرجینسی ہے۔

چوں کہ میرا گھر اسپتال سے قریب ترین ہے، تو ایمرجینسی کی صُورت میں اسٹاف نے مجھے ہی کال کی اور میراجانا لازم تھا ، تو مَیں مہمانوں کو شوہر اور بچّوں کےساتھ چھوڑ کرپارٹی کے کپڑوں ہی میں اسپتال چلی گئی۔ وہاں پہنچی تو اسٹاف بھی کہنے لگا کہ ’’میڈم! آج تو بہت تیار ہو کر آئی ہیں، بہت اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا ’’ایمر جینسی نے مجھے بیٹی کی سال گرہ نمٹانے تک کی تو مہلت دی نہیں ،تو کپڑے کیسے تبدیل کرتی؟‘‘ خیر ،یہ سب تو ہماری زندگیوں کا حصّہ ہے اور بِنا فیملی سپورٹ کے ممکن نہیں۔ میرے دو بچّے ہیں، بیٹا 15 سال کا اور بیٹی 13 سال کی۔

دونوں ہی ٹین ایجرز ہیں، تو یہ عُمر کا وہ حصّہ ہوتا ہے، جب بچّوں کو ڈانٹ اور دُلار دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں ماں بن کر نہیں، دوست بن کر سمجھانا ، اُن کے غصّے کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے مَیں اب زیادہ فکر مند رہتی ہوں کہ بچّوں کی تربیت میں مجھ سے کہیں کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔ مگر اللہ پاک کا شُکر ہے کہ میرے بچّے بہت سمجھ دار اور شوہر سپورٹیو ہیں ،اسی وجہ سے مَیں اپنا کام بآسانی کر پاتی ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر ربیتا شیخ

بچھ اسپتال، ملتان میں بطور کلینیکل انکولوجسٹ فرائض سر انجام دینے والی ڈاکٹر ربیتا شیخ کا کہنا ہے کہ ’’مَیں گزشتہ دس برس سے اس شعبے سے وابستہ ہوں۔ ذاتی زندگی اور پروفیشنل لائف کے درمیان توازن برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہے۔اب تو میرے بچّے تھوڑے سمجھ دار ہو گئے ہیں، لیکن جب چھوٹے تھے، تومجھے ڈیوٹی پر جاتا دیکھ کر رونا شروع کر دیتے تھے، تو وہ وقت میرے لیے سخت اذّیت ناک ہوتا تھاکہ ماں تو بچّے کی ایک آہ، سِسکی پر تڑپ جاتی ہےتو میرے لیے اپنی اولاد کو روتا چھوڑ کر اسپتال جانا کسی طور آسان نہیں ہوتا۔

خیر، فیملی سپورٹ ہو تو بہت ڈھارس ہو جاتی ہے، میرے شوہر اور فیملی بہت اچھی ہے، اس لیے پُر سکون انداز میں اپنی ڈیوٹی نبھا پاتی ہوں۔ اکثر فیملی ڈنریا ایونٹس پہ اچانک کال آجائے تو سب چھوڑ کر اسپتال جانا پڑتا ہے کہ انسانیت کی خدمت ہمارا اوّلین فرض ہے۔ جب بچّے چھوٹے تھے تو دوسرے بچّوں سےاپنا موازنہ کرتے تھےکہ ’’ہمارے دوستوں کی ماما تو گھر پر رہتی ہیں یا ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں، آپ کیوں جاتی ہیں؟‘‘ تو مَیں نے آہستہ آہستہ انہیں سمجھایا کہ ’’آپ کی ماما ڈاکٹر ہیں، ان کے کام کی نوعیت الگ ہے۔ اگر مَیں گھر بیٹھ جاؤں گی تو مریضوں کا علاج کون کرے گا۔‘‘ اگر بچّوں کوپیار سے سمجھایا جائے تو وہ سمجھ جاتے ہیں۔ بے شک ، ڈاکٹر مدر ہونا آسان نہیں، مگر مجھے فخر ہے کہ مَیں اتنے نوبل پروفیشن سے وابستہ ہوں۔‘‘

ڈاکٹر حبا صدّیقی

ضیاء الدین یونی ورسٹی اسپتال کے شعبۂ انکولوجی سے منسلک ڈاکٹر حبا صدّیقی کا کہنا ہے کہ ’’ ایک عورت کا ڈاکٹر ہونا کوئی معمولی بات نہیں کہ اسے گھر اور اسپتال ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔جب میں اسپتال میں تکلیف میں مبتلا ،غمگین مریضوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ انہیں میری ضرورت ہے ۔ ان کی تکالیف دُور کرنے کے لیے ہی ہم یہ شعبہ اختیار کرتے ہیں۔ حال ہی میں کورونا کی وبانے پریشانیوں میں جو اضافہ کیا ،اس کے باعث ڈاکٹروں کی زندگیوں میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہےکہ ہمیں سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ کہیں ہماری وجہ سے یہ بیماری گھر میں موجود بزرگوں، بچّوں میں منتقل نہ ہوجائے۔

نادیہ کرن

گزشتہ 8 سال سے نرسنگ کے شعبے سے وابستہ نادیہ کرن حکومتِ پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے اس وفد کا حصّہ ہیں، جو کویت میں اپنی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ وہ آج کل امیری اسپتال، کویت میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا کہ ’’ہیلتھ کیئر ورکر ہونا قطعی آسان نہیں کہ ہمارے اوقاتِ کار مخصوص نہیں ہوتے۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد بھی ڈیوٹی دینی پڑتی ہے، خاص طور پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے تو ڈیوٹی ٹائمنگز مخصوص ہی نہیں ۔

میرا بیٹا ابھی چھوٹا ہے، تو جب پاکستان میں تھی تو ڈیوٹی پر جانے سے قبل پوری پلاننگ کرنی پڑتی تھی کہ اسے امّی کے ہاں چھوڑ کر جاؤں یا سسرال میں کسی کے پاس۔ اسی طرح جانے سے قبل گھر کے، بچّے کے کام نمٹانے ہی میں سارا وقت نکل جاتا ۔مَیں کویت آنے سے قبل جناح اسپتال، لاہور میں ملازمت کر تی تھی ، تو میری کئی ساتھی نرسز، جو دوسرے شہروں سے تعلق رکھتی ہیں، وہ ہوسٹل میں رہتی ہیں۔

عید ، بقر عید پر اپنے گھر جاتی ہیں تو ان کی جگہ بھی ہم لوگوں کو ڈیوٹی دینی پڑتی ہے، جس پر میرے شوہر اعتراض بھی کرتے ہیں کہ ’’ہر عید یا اکثر اتوار کو تمہاری ہی ڈیوٹی کیوں لگتی ہے؟‘‘ جس پر مَیں انہیں سمجھاتی ہوں کہ ’’اگر سب لوگ چھٹی منائیں گے تو اسپتال میں مریضوں کا دھیان کون رکھے گا؟‘‘ جس طرح میرا بچّہ ہے، اسی طرح اسپتال میں بھی بہت سے بچّے داخل ہیں، جن کا خیال رکھنا ہماری ذمّے داری ہے۔ مَیں ایک ماں ہوں، اسی لیے خود غرض نہیں ہو سکتی، ایک ماں ہی کی طرح تمام مریضوں کا خیال رکھتی ہوں۔

اپنے بچّے کو بیماری میں چھوڑ کر بھی ڈیوٹی پر جاتی ہوں ۔جب پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تو میرا بیٹا اس وقت 6 ماہ کا تھا، تو مجھے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے نہیں، واپس آتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ کہیں میری وجہ سے میرا بچّہ یا شوہر نہ بیمار پڑ جائیں۔ لیکن وائرس لگنے کے ڈر سے کبھی بہانے بنا کر چھٹیاں نہیں لیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم جیسی ماؤں کے بچّے بھی وقت سے پہلے سمجھ دار ہوجاتے ہیں، ہم ان کی تربیت ہی ایسی کرتے ہیں کہ ماں کے بغیر رہنے کے عادی ہو سکیں۔ جیسے میری بھابھیوں کے بچّے ماں کو گھر سے نکلتا دیکھتے ہی رونا شروع کر دیتے ہیں، لیکن میرا بیٹا مجھے جاتا دیکھ کربائے بائے کرتا ہے۔کوئی ماں نہیں چاہتی کہ اولاد کو روتا، بلکتا چھوڑکر گھر سےجائے، مگر کچھ ماؤں کو اللہ پاک نے خدمتِ خلق کے لیے چُنا ہوتا ہے اور ہمیں اپنے پروفیشن پر ناز ہے۔‘‘

کیپٹن نازش ذیشان

کیپٹن نازش ، سی ایم ایچ، لاہور میں بطور نرس لگ بھگ آٹھ برس سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بطور ماںمجھے سب سے مشکل کام اپنے بچّوں کو دوسروں کے بھروسے چھوڑ کر جانا لگتا ہے۔

میرے 3 اور ڈیڑھ برس کے دو بچّے ہیں، اس عُمر کے بچّوں کو ویسے بھی ماں کی گود ، توجّہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن مجھے اُنہیں سمجھا کے، بہلا کر ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے۔ اکثر عیدین کے مواقع پر بھی کال ہوتی ہے، تو تھوڑی تیار ہوکر اسپتال جاتی ہوں تاکہ مریض بھی فریش محسوس کریں، ویسے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عید وغیرہ سے پہلے مریضوں کو چھٹّی دے دی جائے، لیکن جن مریضوں کو ڈسچارج کرنا ناممکن ہوتا ہے، تو ان کے لیے اسپتال کا عملہ ہمہ وقت تیار اور آن کال رہتا ہے۔

اگر کبھی عید کے موقعے پر اسپتال جاتے ہوئے مجھے الجھن ہو تو فوراً مریضوں کا خیال آتا ہے کہ وہ بھی تو تہوار پر اپنے گھر نہیں جا سکے، تکلیف میں ہیں، بیمار ہیں، تو بس انہیں فیملی سمجھ کر اُن کے ساتھ ہی عید منا لیتی ہوں۔ لیکن مَیں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ ڈاکٹرز، نرسز یا اسپتال کا دیگر عملہ مریضوں کےلیے اپنا وقت، فیملی لائف، آرام وسکون بہت کچھ قربان کرتا ہے، تو پلیز! ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا کریں۔

ہمارے لیے ہر مریض ہی اہم ہوتا ہے، ہم سب کا خیال رکھتے ہیں، تو آپ لوگوں کے چیخنے چلّانے یا ہم سے بد تمیزی کرنے سے آپ کا مریض جلدصحت یاب نہیں ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں، آج بھی ہمارے مُلک میں نرسنگ کو قابلِ فخر پیشہ نہیں سمجھا جاتا، حالاں کہ نرسز ،ڈاکٹرز کا دایاں بازو ہوتے ہیں، مگر ان کی اہمیت تسلیم نہیں کی جاتی، حتی کہ کسی ڈرامے، اشتہار میں نرسز کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک بہت مقدّس پروفیشن ہے، جس کی اہمیت پربات کی جانی چاہیے۔‘‘