بُلند فشارِخون، متعدد امراض کا محرک

May 13, 2021

ورلڈ ہائپرٹینشن لیگ کے زیرِاہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 17مئی کو ’’ ورلڈ ہائپرٹینشن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک بُلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر)سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں۔اِمسال کا تھیم "Meassure Your Blood Pressure Accurately,Control It, Live Longer" ہے۔ یعنی’’ بلڈ پریشر کی درست جانچ، کنٹرول اور طویل زندگی‘‘۔ رواں برس کم اور درمیانی آمدن والے مُمالک پر خاص توجّہ دی جا رہی ہے، تاکہ بلڈ پریشر جانچنے کے درست طریقوں کے بارے میں آگاہی دی جا سکے۔دراصل یہ مرض’’ خاموش قاتل‘‘ بھی کہلاتا ہےکہ عام طور پر اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دُنیا بَھر میں100کروڑ سے زائد افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2025ء تک یہ تعداد 150کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔یعنی اگلےچار سال میں 29فی صد افراد اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ فی صد افراد بُلند فشارِ خون کا شکار ہیں، جب کہ اس مرض میں مبتلا ہر تیسرے فرد میں چالیس سال کی عُمر کے بعد دیگر بیماریوں کے لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مرض سے عدم آگاہی کے باعث قریباً 50فی صد میں مرض تشخیص ہی نہیں ہوپاتا ،جب کہ تشخیص کے بعد ساڑھے12فی صدہی اس کا علاج کرواتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارےیہاںسالانہ ایک لاکھ مریضوںمیں سےساڑھے 22ہزارمریض انتقال کرجاتے ہیں ۔

ایک قدرتی نظام کے تحت ہمارے جسم میں دِل دھڑکنے سے خون گردش کرتا ہے،جس کے نتیجے میں مطلوب توانائی اور آکسیجن مہیا ہوتی ہے۔ خون، گردش کے دوران رگوں(شریانوں) کی دیواروں پر جو دبائو ڈالتا ہے، اسے طبّی اصطلاح میں بلڈپریشر کہتے ہیں۔اگرکسی وجہ سے دِل کو یہ پریشر زیادہ بنانا پڑے، تویہ ہائی بلڈ پریشرکہلاتا ہے اورہائی بلڈ پریشر کےاس مرض کو ہائپر ٹینشن سے موسوم کیاجاتا ہے۔بلڈ پریشر کا ایک مخصوص حد میں رہنا بقائےحیات کے لیے ضروری ہے۔ عام طور پر ایک صحت مند فرد کا بلڈ پریشر 120/80سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلڈ پریشر جب متواتر اِس خاص حد سے زیادہ رہے، تو اِس کا علاج کروانا ضروری ہوتاہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہےکہ ہائی بلڈ پریشر ایک بیماری ہے،جب کہ لوبلڈ پریشر مرض نہیں،اس لیے باقاعدہ طور پر اس کا کوئی علاج بھی نہیں۔ البتہ بعض عوارض مثلاً دست یا بہت زیادہ پسینہ آنے کے نتیجے میں بلڈ پریشر وقتی طور پر کم ہوجاتا ہے، تب اس کے علاج کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ خون کا دباؤ جانچنے کا واحد طریقۂ کار اس کی پیمایش کرنا ہے۔ اس کی پیمایش کے لیے پہلے مرکری (پارے) والا آلہ، بلڈ پریشر مانیٹر (Blood-pressure Monitor) بہتر تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن اب گیج یا ڈیجیٹل آلے زیادہ بہتر نتائج کے حامل ہیں۔ ویسے تو ہائی بلڈ پریشر لاحق ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں ۔تاہم، موٹاپا، کھانے میں نمک کی زائد مقدار کا استعمال، جسمانی سرگرمیاںبہت کم ہونا،الکحل کا استعمال، تمباکو نوشی اور ذیابطیس وجہ بن سکتے ہیں۔ جب کہ بعض کیسز میں یہ عارضہ موروثی بھی ہوتا ہے،تو بالعموم عُمر بڑھنے کے ساتھ اس کی شکایت عام ہو جاتی ہے۔

دراصل عُمر میں اضافے کے ساتھ جسم کے مختلف حصّوں میں خون پہنچانے والی رگوں کی لچک کم ہوکروہ قدرے سخت ہو جاتی ہیں۔اس کے علاوہ کھانے پینے میں بےاحتیاطی بھی سبب بن سکتی ہے۔ متعدّد افراد صُبح ناشا نہیں کرتے،جب کہ دوپہر اور رات کے اوقات میں خُوب پیٹ بَھر کر کھانا کھاتے ہیںاورشکایت کرتے ہیں کہ ہم تو صرف دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں،پھر پتا نہیں کیوںوزن بڑھ رہا ہے۔

یاد رکھیے، زائدوزن سے جو طبّی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں ،اُن میں سے ایک ہائی بلڈ پریشر بھی ہے۔ 10فی صد مریضوں میں ہائپرٹینشن لاحق ہونے کا کوئی نہ کوئی طبّی سبب ضرور ہوتا ہے، جسے ثانوی ہائپرٹینشن کہا جاتا ہے۔

ان طبّی وجوہ میں گُردے کے امراض، گُردوں کو خون کی رسد میں رکاوٹ اور بعض ہارمونل مسائل شامل ہیں۔بہرحال، ہائپرٹینشن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر گُردوں سے اہم تعلق ہے۔ اس کے علاوہ بعض کیسز میں ہائی کولیسٹرول یا تھائی رائیڈز بھی باعث بنتے ہیں۔ اگر خاندان کاکوئی فردپہلے سے ہائی بلڈپریشر کا شکار ہو، تو پھر دیگر اہلِ خانہ کو بھی سال میں کم از کم ایک باراپنا معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔

بیش تر افراد میں ہائپرٹینشن کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور وہ بظاہر ہر لحاظ سے صحت مند اورتن درست دکھائی دیتے ہیں، لیکن اندر ہی اندر یہ مرض اپنی جڑیں مضبوط کررہا ہوتا ہے۔تاہم، جن افراد میں علامات ظاہر ہوتی ہیں، وہ معمولی سَردرد، تھکن، آنکھوں میں دھندلاہٹ، چکر آنے، متلی اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، شدید عارضے کی صُورت میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں شدید سَردرد، بے خوابی، ذہنی پریشانی، الجھن، سانس کے مسائل اور ناک سے خون آنا شامل ہیں۔ ہائپرٹینشن کے علاوہ بھی بعض جسمانی تکالیف کے نتیجے میں بلڈپریشر وقتی طور پر بڑھ سکتا ہے۔

یہ جسم کاوقتی ردِّعمل ہوتاہے، اس دوران بڑھے ہوئے بلڈپریشر کو ہائپر ٹینشن نہیں کہا جاتا ۔دو سے چار ہفتوں تک خون کے دباؤ کی مسلسل جانچ ہی سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مریض کا بلڈ پریشر وقتی تکلیف سے بڑھا ہے یا پھر ہائپر ٹینشن کا عارضہ لاحق ہے۔دِن بَھر کے معمولات کے دوران بلڈ پریشر کی سطح میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ دورانِ ورزش یا کسی ذہنی دبائو کے باعث بھی خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے،لیکن جب آپ سُکون کی حالت میں ہوںیا سو رہے ہوں تو اس کی سطح گر جاتی ہے۔ عام طور پر جب بلڈ پریشر چیک کروایا جارہا ہو، تو یہ خود بخود بڑھ جاتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں اسے فائٹ کوٹ بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔

اس صُورت میں گھرمیں بلڈ پریشر مانیٹر رکھیں اور ریڈنگز لیتے رہیں، تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کےخطرے سے دوچار نہ ہوں۔اگر ہائپر ٹینشن کا بروقت اور مناسب علاج نہ کروایا جائے،تو کئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ جیسے خون پمپ کرنے کی صلاحیت بتدریج کم زور پڑسکتی ہے۔ گُردے کم زور یا فیل ہوسکتے ہیں، جب کہ یہ بینائی کی خرابی، آنکھوں کے امراض اور فالج کی صُورت میں مستقل معذوری اور خون کی رگیں متاثر کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ نیز،پیٹ اور سینے سے گزرنے والی مرکزی شریان بھی پھیل کر پھٹ سکتی ہے اور اس سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ دِل کی شریانیں بند ہوسکتی ہیں،جو دِل کا دورہ پڑنے کا سبب ہیں۔

بُلند فشارِ خون کے مریض عام طور پر خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے، لیکن یہ مرض خاموشی سے دِل کی شریانیں اور دیگر جسمانی اعضاء متاثر کر رہا ہوتا ہے۔یہ عارضہ گُردوں کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔اگرگُردوں کو خون فراہم کرنے والی رگیں متاثر ہوجائیں، تو یہ مرض مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے،تودماغ کو خون فراہم کرنے والی رگیں بند ہو نے کے نتیجے میں فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔خون کا دباؤ بڑھنے کی صُورت میں پیروں کی خون کی رگیں سکڑجاتی ہیں اور ان میں خون کا بہائو مشکل ہو جاتا ہے۔نتیجتاً چلنے پِھرنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اور مستقل معذوری بھی ہو سکتی ہے۔

خون کا دباؤ معمول پر رکھنے کے لیے صحت مند سرگرمیاںاختیار کرناناگزیر ہے۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وزن میں اضافے کے ساتھ بلڈپریشر بھی بڑھتا ہے، جب کہ قد کی مناسبت سے وزن، بلڈ پریشر نارمل سطح پر رکھتا ہے۔وزن کو قد کے مطابق رکھنے کے لیے ورزش یا جسمانی سرگرمیاں لازم ہیں،لہٰذاہفتے میں چار سے پانچ دِن تک تقریباً 30سے 60منٹ ورزش کی جائے،اس سے بلڈپریشر 4سے 9فی صد تک کم ہو سکتا ہے۔یوں بھی ورزش سے لوگ جسمانی طور پر تن درست اور متحرک رہتے ہیں، جب کہ سُست روی ہائپرٹینشن میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ یاد رکھیے، دِل کی عمدہ صحت کے لیے ضروری ہے کہ دِل کی دھڑکن اور خون کا دباؤ معمول کے مطابق رہے اور طرزِ زندگی مثبت ہو۔

باقاعدہ ورزش کے ساتھ متوازن اور صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں۔ ایسی غذائیں، جن میں سوڈیم کی مقدار کم ہو، بلڈپریشر معمول میں رکھنے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ہوٹلز کے اور گھر میں فریزڈ کیے گئے کھانوں کا استعمال کم سے کم کریں، کیوں کہ زیادہ عرصے تک محفوظ رکھے گئے کھانوں میں کاربوہائیڈرٹیس اور سوڈیم کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

فاسٹ فوڈز اور پروسیسڈ کھانوں کے استعمال سے اجتناب برتیں کہ ان میں نمک زائد مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر نارمل رکھنے اور وزن کم کرنے کے لیے روغنی غذائوں سے پرہیز ضروری ہے۔نیز، کھانا ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس ضمن میں بہتر تو یہی ہے کہ غذائی چارٹ مرتّب کرلیا جائے،جس میں روزمرّہ کی خوراک اس طرح ترتیب دیں کہ پھل، سبزیوں سمیت سوڈیم کی کم سے کم مقدار، کم چکنائی اور پوٹاشیم کی حامل اشیاء شامل ہوں۔

کیلا پوٹاشیم سے بَھر پور غذا ہے۔ دِن بَھر میں صرف دوسے تین کیلے کھانے سے ہائی بلڈپریشر دس فی صد تک کم کیا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں، لائیکو پین جو مؤثر ترین اینٹی آکسیڈینٹ ہے،اگر روزانہ کی غذا میں اس کا25 ملی گرام حصّہ شامل کرلیا جائے، تو ہائی بلڈپریشر اور کولیسٹرول کی سطح دس فی صد تک کم کی جا سکتی ہے۔ واضح رہے، لائیکو پین ٹماٹروں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ چقندر کا جوس بھی بے حد فائدہ مند ہے، اس میں موجود نائٹریٹس چوبیس گھنٹوں میں بلڈپریشر کم کر دیتے ہیں۔ہر ہفتے ایک کپ اسٹرابیریز یا بلیو بیریز استعمال کرنے سے بھی ہائی بلڈپریشر کے مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ دہی، مچھلی، آلو، پالک اور لوبیا وغیرہ کے استعمال سے بھی بُلند فشارِ خون کم کرنے میں مدد ملتی ہے کہ ان سب میں سوڈیم کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔ مرغی، مچھلی، تازہ پھل سبزیاں اور ریشے دار غذائیں استعمال کریں، کھانوں اور مشروبات وغیرہ میں کوشش کریں کہ نمک کا استعمال نہ ہو۔ جسمانی اعضاء کی بہتر کارکردگی کے لیے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے، جب کہ وزن پر بھی قابو رہے ۔وزن میں کمی کی وجہ سے بلڈپریشر نارمل رکھنےکے لیے استعمال کی جانے والی ادویہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ نمک کی زائد مقدار کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے جسم میں مائع موجود رہے گا اور اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر کی سطح میں اضافہ ہوگا۔

بیش تر افراد عام معاملات میں بھی بہت زیادہ غصّے اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں اور یہ عادت انہیں بلڈ پریشر کی اونچی سطح تک لے جاتی ہے۔خود کو ہر وقت پُرسکون رکھنے کی عادت ڈالیں، تاکہ آپ کا بلڈ پریشر بھی نارمل رہے۔اسی طرح کیفین کے حامل مشروبات کے استعمال سے بھی بلڈپریشر اچانک بڑھ جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ ہر وقت ذہنی دبائو میں رہنے والے افراد بھی ہائی بلڈپریشر کی بیماری سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے دفتری امور میں روزانہ تقریباً پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے تک مسلسل مصروف رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ذہنی دبائو بڑھ جاتا ہے، جو ہائی بلڈپریشر کا باعث بنتا ہے۔ تمباکو نوشی سے ہر صُورت اجتناب برتیں کہ اس سے دِل کے امراض لاحق ہونے کے امکانات تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت دو گُنا بڑھ جاتے ہیں۔

ہائپر ٹینشن کی حتمی تشخیص کے بعد اگر بلڈ پریشر بہت زیادہ نہیں ہے، تو ابتدا میں اس کا علاج ادویہ کے بغیر کیا جاتا ہے،جس کے لیے صرف تین تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، جو بالعموم نصف سے زیادہ مریضوں کو ادویہ سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ نمک کم یا سِرے سے استعمال نہ کرنا، وزن قابو میں رکھنا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا۔اگر ان تینوں تدابیر پر تین چار ماہ تک مستقل مزاجی سے عمل کرنے کے باوجود بلڈ پریشر کم نہ ہو، تو پھر ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔ اور جب ایک بار ادویہ کا استعمال شروع کردیا جائے، تو پھر ان کا استعمال تاعُمر کیاجاتا ہے۔ سوائے اس کے کہ آپ کا ڈاکٹر ان ادویہ کی خوارک کم یا سِرے سے بند کردے یا کچھ اور تجویز کرے۔

ادویہ استعمال کرنے کے ساتھ نمک سے پرہیز، وزن کم کرنے کی کوشش اور ورزش کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے علاوہ نشہ آور اشیاء کے استعمال سے اجتناب بھی بلڈپریشر کے مریض کے لیے انتہائی ضروری ہےکہ یہ بُری علّت امراضِ قلب کا ایک بڑا سبب ہے۔ اگر ہائپرٹینشن کا علاج نہ کروایا جائے، تو دِل کے دورے اورفالج کے امکانات کئی گُنا بڑھ جاتے ہیں، جب کہ علاج کروا کےکئی بڑے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

اگر مریض ہائی بلڈ پریشر کی دوا استعمال کررہے ہوں اور مرض بھی کنٹرول میں ہو، تو پھر روزانہ بلڈ پریشر چیک کرنے کی ضرورت نہیں۔ چند ماہ کے بعد چیک کروا نا یا کرناکافی ہے۔ بیش تر معالجین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بلڈپریشر 120/80 یا اس سے کم قابلِ قبول ہے۔ اگر آپ ذیابطیس یا دل کے عارضے میں مبتلا ہوں، تو پھر ریڈنگ اس سے کم ، زیادہ بہتر ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق نماز ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کے لیے ایک بہترین علاج ہے۔

تحقیق کے مطابق وضو کے دوران جب چہرہ، کہنیوں تک ہاتھ اور پائوں دھوتے ہیں اور سَر کا مسح کرتے ہیں، تو رگوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار نارمل ہو جاتی ہے، جس سے انسان سُکون محسوس کرتا ہے اور اعصابی نظام پر بے حد اچھے اثرات مرتّب ہوتے ہیں اور دماغ کو آرام ملتا ہے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ گُردہ اور کنسلٹنٹ فزیشن ہیں اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ، لاہور میں بطور چیئرمین نیفرولوجی ڈیپارٹمنٹ اور ڈائریکٹر میڈیکل ایجوکیشن خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدرہ چُکے ہیں)