خیال، افسانہ کیسے بنتا ہے؟

May 24, 2021

سب مانتے ہیں کہ ایک لکھنے والے کا تخیل جتنا ہرا بھرا ہوگا، اتنا ہی وہ اِنسانی نفسیات کے قریب ترین صورت حال کو گرفت میں لینے پر قادر ہو گااور پڑھنے والا بہ قول غالب یہ محسوس کرے گا’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دِل میں ہے‘‘۔ متخیلہ کے عقب میں مطالعہ اور مشاہدہ بھی کام کر رہا ہوتاہے ۔افسانہ لکھتے ہوئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو آپ لکھ رہے ہیں ، ویسا ہی آپ کے مشاہدے میں آیا ہو، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے ۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ایسا ہونا ممکن ہونا چاہیے تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ ایسا طبعی صورت میں ہوتا ہوا نظر آئے یا آ سکتا ہو بلکہ اس کا مطلب ہے کہ احساس اور خیال کی سطح پر اسے ہوتا دیکھا جا سکتا ہو۔

قاضی افضال حسین کے ایک مضمون میں، میں نے پڑھا تھا کہ جب عصمت چغتائی کا افسانہ ’’لحاف‘‘ پہلی بار چھپا تو منٹو نے یہ افسانہ پڑھا اور ایک جملے پر معترض ہوئے کہ یہ ایک بچی کی زبان سے کہلوایا گیا ہے جو خلاف حقیقت ہے ۔ حسبِ عادت یہ اعتراض عصمت چغتائی نے رد کر دیا مگر جب یہ افسانہ آخری شکل میں چھپاتو اسے عصمت نے بدل لیا تھا۔بہ قول قاضی افضال حسین بدلا ہوا اختتام راوی کی عمر کی مناسبت سے بالکل ٹھیک تھا۔ اب آپ دیکھیں کہ عصمت بچی تھی نہ منٹو اُس بچی جیسا ،مگر دونوں کا تخیل اتنا ہرابھرا تھا ، کہ وہ ایک بچی کی نفسیات کے مطابق صورت حال کو آنک سکتے تھے۔ عصمت نے ابتدائی طور پر حقیقت کو سمجھنے میں اگر ٹھوکر کھائی تو منٹو کے معترض ہونے پر، اس پر پھر سے غور کیا اور ایک بچی کی نفسیات کو اپنے جملے میں قائم کر لیا تھا۔

یادرہے ایک افسانہ نگار کو زبان کا تخیلی اور حساس ترین سطح پر تخلیقی اظہار کرنا ہوتا ہے اور اسی سے وہ اپنے قاری کی متخیلہ کو تحریک دِے کر ایک حقیقت کا تماشا اس کے سامنے سجا دِیتا ہے۔ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میں فکشن لکھتا ہوں اور وہ سچ ہو جاتا ہے، تو اس کامطلب بھی یہی ہے کہ جتنا ہرا بھرا تخیل ہو گا اتنا ہی وہ اس حقیقت کے قریب تر ین ہو جائے گا جو ہماری زندگیوں کو ایک نہج پر ڈالتی ہے۔جی ،حقیقت نہیںحقیقت کا تماشا۔ یہاں مجھے غالب کی ایک معروف غزل کا مطلع یاد آگیا ہے:

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

جی ، یہ دنیا، یہ زندگی، وہ جو ہم دیکھتے ہیں اور وہ جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر نہیں دیکھنا چاہتے مگر دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں، سب ایک تماشاہی تو ہے اور ہم اس تماشے میں ایک پتلی کی طرح ہیں۔ ایک افسانہ نگار کے لیے حقیقت کا تصور (چاہے وہ دیکھی بھالی ہو یا ان دیکھی ) ، اس حقیقت سے انسانی سطح پر وابستہ ہونے کے بعد ہی قائم ہوتا ہے۔ محض بے جان پتلی ہو کر نہیں، ایک جیتا جاگتا زندہ وجود مگر پتلی۔ ’’اسیر ذہن‘‘ میں محمد سلیم الرحمن نے جون میک مرے کا ایک مضمون شامل کیا تھا’’ حقیقت اور آزادی‘‘، اس میں مصنف نے لکھا تھا کہ ہمارے روّیوں کو براہ راست معین کرنے والی یا ہماری زندگی کے دھارے کو گرفت میں رکھنے والی حقیقت ہوتی ہے نہ حقیقی چیزیں ، بلکہ زندگی کا دھاراوہ چیزیں متعین کرتی ہیں جنہیں ہم حقیقت یا حقیقی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔

ایک فکشن لکھنے والا یہیں سے اس حقیقت کو گرفت میں لیتا ہے جس نے ہماری زندگی کا رُخ متعین کیا ہوتاہے، یہی فکشن کا واقعہ ہے اور اگر اسے تخلیقی سطح پر قائم کر لیا جائے تو یہ واقعہ قاری کی متخیلہ کو بھی اسی رُخ پر تحریک دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔