پری بجٹ 2021- 22: مہنگائی... بڑا چیلنج

June 05, 2021

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: محمد رفیق مانگٹ

زرعی شعبے نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے، گندم، گنا، چاول کی فصلیں ریکارڈ ہوئی ہیں تاہم کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے سبب ٹیکسٹائل سیکٹر جو برآمدی صنعت بھی ہے مشکلات کا شکار ہو گا اور ہمیں کپاس درآمد کرنا ہو گی، حیرانی کی بات ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے باوجود ملک خوراک میں بلند افراط زر کا شکار ہے، دالیں، آٹا، چینی، کی قیمتوں میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، حکومت تنخوا دار طبقے کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ٹیکس میں انہیں ریلیف مہیا کرے، انکم ٹیکس کی چھوٹ کو بڑھا کر دس لاکھ تک کیا جائے، افراط زر میں کمی کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی لائی جائے ،اسے بارہ فیصد تک لایا جائے، اس اقدام سے اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی واقع ہو گی

زبیر طفیل

کورونا کی وجہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ مینوفیکچررز، ٹریڈرز، ریٹیلرز، امپورٹرز اور ایکسپوٹرز متاثر ہوئے ہیں جس سے بزنس کمیونٹی شدید مالی بحران سے دوچار ہے، حکومت کو تجویز ہے کہ کاروبار کی سود ادائیگیوں کو 6 ماہ کے لیے موخر کیا جائے۔ درآمدشدہ مشینریز، پلانٹ، ایکوپمنٹ کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے،ایس ایم ایز کو قرضوں کے لیے نرم پالیسیاں متعارف کی جائیں اور کم شرح سود پر قرضے دیے جائیں جس کے لیے کولیٹرل کی شرط بھی ختم کی جائے

حنیف گوہر

ٹیکس قوانین وضع کرتے وقت اور بے ایمان ٹیکس دہندگان کے درمیان واضح فرق ہونا چاہئے۔ آئندہ نسل کے لئے بلیک معیشت کے تمام راستوں کو ختم کیا جائے ، بلاتفریق تمام ٹیکس چوروں کو ایمنسٹی دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے، ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے ،ٹیکس گزاروں کی تعداد کو بڑھایا جائے،خدمات پر صوبائی سیلز ٹیکس میں ہم آہنگی لائی جائے،موجودہ ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کی جائے،ٹیکس دہندگان اور غیر ٹیکس دہندگان کے مابین واضح فرق رکھا جائے

عبدالقادر میمن

پاکستان کی معیشت سیلز ٹیکس کی بھاری شرح کی وجہ سے بہت زیادہ مہنگائی کے بوجھ تلےدبی رہتی ہے، لہذا سیلز ٹیکس کو حالیہ بجٹ سے ہی بتدریج کم کرنے کی ضرورت ہے،کووڈ ویکسین آنے کے بعد ،عالمی معیشت کرونا بحران کے بعد بتدریج بحالی کی طرف گامزن ہے، حکومتِ پاکستان کو بھی اپنے اگلے بجٹ میں ویکسین کی درآمد ، اور ویکسین سینٹرز کا قیام اور اس سلسلے میں مالی وسائل کی سرمایہ کاری ناگزیر ہوگی۔ بحران کے بعد بھی کاروبار اور منڈیاں ،اسمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مکمل طور پر فعال نہیں ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس پالیسی میں نرمی کی گنجائش پیدا کرے

عاصم بشیر خان

تحریک انصاف کی حکومت اپنا چوتھا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے، آزاد ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت مشکلات سے دوچار ہے خاص کر افراط کی بلند شرح نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے، خود نووارد مشیر خزانہ شوکت ترین اعتراف کر چکے ہیں کہ تین برسوں میں ناقص پالیسیوں کے باعث معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے، لوگوں کی قوت خرید نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور مرے پہ سو درے کے مصداق ملازمین کی آمدنی میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے افراط زر میں تیزی سے اضافہ کیا ہے، پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کرنی ہو گی جو براہ راست افراط زر میں کمی یا زیادتی کا سبب بنتی ہیں، حکومتی پالیسیاں کس سمت میں ہیں؟ مہنگائی میں کمی کے لئے بجٹ میں کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟ معیشت کی ترقی اور بحالی کے لیے کیا اصلاحات ضروری ہیں؟ کاروبار اور عوام کو کیا ریلیف دیا سکتا ہے؟

یہ جاننے کے لیے پری بجٹ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر طفیل، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبدالقادر میمن، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے سابق چیئرمین حنیف گوہر اور آئی بی اے اسکالر، ماہر معیشت عاصم بشیر خان نے اظہار خیال کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

عبدالقادر میمن

سابق صدر،پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن

گزشتہ مالی سال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف کی حکومت اہم معاشی انڈیکیٹر کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ مجموعی طور پر تین برسوں میں حکومت اپنی آمدنی کے اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ ن لیگ کے آخر برس ایف بی آر نے 38.43 کھرب روپے ٹیکس وصول کیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں ٹیکس ہدف 55.55 کھرب روپے رکھا تھا، لیکن وہ گزشتہ مالی برس کی وصولیوں کے برابر بھی ٹیکس وصول نہ کرسکے اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی حکومت نے گزشتہ مالی برس سے کم ٹیکس وصول کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے برس 38.28کھرب روپے ٹیکس وصول کیا۔

عبدالقادر میمن
سابق صدر،پاکستان
ٹیکس بار ایسوسی ایشن

اس کے بعد اپنے دوسرے مالی برس میں بھی حکومت اپنا ٹیکس ٹارگٹ حاصل نہ کرسکی اور محض 39.93کھرب روپے کی آمدنی ہوئی۔ تاہم اس برس کووڈ کے سبب ملک معاشی بحران میں مبتلا رہا۔ رواں برس حکومت نے ٹیکس ٹارگٹ پر نظر ثانی کی ہے۔ اس کے باوجود بھی محسوس ہوتا ہے کہ ٹیکس ہدف بمشکل ہی حاصل ہوسکے گا۔

جی ڈی پی گروتھ کا معاملہ بھی ٹیکس وصولیوں کی طرح ناکامیوں کا شکار نظر آتا ہے۔ گزشتہ مالی برس میں معاشی شرح نمو 1.5رہی جب کہ آزاد ماہرین کے مطابق یہ شرح منفی 2 فی صد ہے۔ رواں برس حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی شرح نمو 4 فی صد رہے گی۔ لیکن آزاد ذرائع یہ شرح 2سے 3 فی صد کے درمیان بتارہے ہیں۔ ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف بھی یہ شرح دو ڈھائی فی صد ہی بتاتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے پہلے سال شرح نمو ایک فی صد رہی تھی، جب کہ ن لیگ کے آخری مالی سال میں یہ شرح 5.8 فی صد تھی۔ بجٹ خسارہ بھی معیشت کا اہم انڈیکیٹر ہے جو تین برسوں میں بہت ہی بلند رہا ہے۔ تحریک انصاف کے پہلے مالی سال میں بجٹ خسارے کی شرح جی ڈی پی کا 9.1فی صد رہا جب کہ دوسرے سال میں یہ خسارہ 8.1 فی صد تھا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال میں بھی بجٹ خسارہ 8 فی صد ہی ہوگا۔

بجٹ دستاویزات کی تیاری کے بنیادی اصول کچھ یوں ہیں کہ اول ٹیکسوں کا نظام متوازن اور منصفانہ ہونا چاہئے۔دوسرا ٹیکس دہندگان کو سہولت دیتا ہو، تیسرا حکومت کو کم ٹیکس لگانا چاہیے، وہی ٹیکس لگایا جائے جو قومی بھلائی کے لئے ضروری ہے اورچوتھا ٹیکس عائد کرنے والے قوانین اتنے مختصر اور واضح ہونے چاہئیں کہ ٹیکس دہندگان کی سمجھ میں آسکیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان سے کیا بوجھ برداشت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بحیثیت قوم، ہمیں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، اشرافیہ اپنے ذمہ ٹیکسوں میں اپنا واجب الادا حصہ نہیں دے رہی ہے اور شہریوں کے بہتری کیلئے وہ اپنی معاشرتی ذمہ داری پورا نہیں کررہی ہے۔ ہماری قومی معیشت عالمی مالیاتی کساد بازاری اور لیکویڈیٹی بحران کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔ ہمیں شدید مہنگائی اور کاروباری لاگت میں اضافے کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک کو متنازع جیو پولیٹیکل داخلی اور خارجی سلامتی خطرات کا سامنا ہے۔ مضبوط کارپوریٹ منافع اور معیشت کی معمولی بہتری کے باوجود معاشی استحکام کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔

ایسے میں ہماری معاشی نمو بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کا نتیجہ روزگار کی کمی اور آبادی کی بڑی تعداد خط غربت کے نیچے چلی گئی۔ ہم ہر شعبہ زندگی میں اصلاحاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہم انڈر انوائسنگ،انڈر ڈیکلیئریشن اور نان فائلز کے خطرے کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات جی ڈی پی میں اپنا معقول حصے کا ٹیکس نہیں دے رہے ہیں اورغیر رسمی معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس وقت بیس کروڑ سے زیادہ آبادی دو فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔

جہاں تک بجٹ کی بات ہے کہ وہ کیساہونا چاہیے،کاروباری لاگت کو کم کیا جائے، آسانی سے کاروبار کرنے کے لئے مناسب اقدامات کیے جائیں۔ ٹیکس قوانین کو سادہ اور مساویانہ بنایا جائے۔اس طرح ٹیکس اور قانون کا نفاذ ہو کہ اشرافیہ معاشرتی ذمہ داری سمجھ کرپورا واجب الادا ٹیکس دینے پر مجبور ہو۔ حکومت کو اپنے وسائل کے اندر رہنا چاہئے۔

اپنے سیاسی مفادات کیلئے رقم خرچ کرنے کی بجائے بنیادی انفرااسٹرکچر پر کی جائے تاکہ روزگار اور آمدنی پیدا ہو۔ ٹیکس قوانین وضع کرتے وقت،ایماندار اور بے ایمان ٹیکس دہندگان کے درمیان واضح فرق ہونا چاہئے۔ آئندہ نسل کے لئے بلیک معیشت کے تمام راستوں کو ختم کیا جائے ۔ اور بلاتفریق تمام ٹیکس چوروں کو ایمنسٹی دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے ،ٹیکس کی تعداد کو بڑھایا جائے۔

آئی ٹی آرڈیننس کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس کو عملی بنایا جائے۔ خدمات پر صوبائی سیلز ٹیکس میں ہم آہنگی لائی جائے۔موجودہ ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ٹیکس دہندگان اور غیر ٹیکس دہندگان کے مابین واضح فرق رکھا جائے۔ ہولڈنگ کمپنی کے تصور کو مستحکم کریں اور انٹر کمپنی ڈیوانڈنگ پرٹیکسوں کی چھوٹ دیں۔آڈٹ کی دفعات اورایسیس منٹ آرڈر کی ترمیم کو قابل عمل بنایا جائے۔

اصل آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس ہو۔ صنعتی اثاثوں میں سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ ہو۔متبادل ٹیکس تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو فروغ دیا جائے۔براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کٹوتی کے ذریعے مالی محرک کے اطلاق اور تیز معاشی نمو کو محفوظ بنایا جائے۔ٹیکس مختلف طبقات کے درمیان برابر، منصفانہ ہونا چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ معاشرے کا تمام طبقات ٹیکس دیں۔

زبیر طفیل

سابق صدر، ایف پی سی سی آئی

معیشت کے حالات کچھ بہت ا زیادہ اچھے تو نہیں ہیں مگر معیشت کے کچھ شعبے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جیسے سیمنٹ ، اسٹیل ، تعمیرات ، آٹوز ، آئی ٹی ، فارما ، وغیرہمعیشت اور صنعتوں کے مسائل کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تومعیشت ایک بار پھر صارفین کی اشیا کی درآمد کی طرف گامزن ہے ، یہاں تک کہ گندم ، شوگر ، دالوں جیسی بنیادی اشیائے خوردونوش بڑی مقدار میں درآمد کی جارہی ہیں۔

زبیر طفیل
سابق صدر، ایف پی سی سی آئی

خراب زراعت کی پالیسیوں کی وجہ سے درآمدی بل میں اضافہ ہورہا ہے،گیس اور بجلی کی زیادہ لاگت اور مسابقتی ہونے کی وجہ سے صنعتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگربرآمدات میں کمی آرہی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔پچھلے کئی سالوں سے برآمد ات 25 بلین ڈالے سے بھی کم ہیں ، شاید جون 2021میں 25 ارب ڈالر کو عبورکرجائیں ۔ لیکن 50 بلینکی درآمد کے مقابلے میں 25 بلین ڈالر بہت کم ہے۔

ہمیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے جو رواں مالی سال کے اختتام جون 2021 تک 26 سے27 بلین ڈالر سے زیادہ ترسیلات زر بھیجیں گے۔پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش ، ترکی ، ہندوستان ، ملائیشیا ، ویتنام ، انڈونیشیا جیسے دوسرے ممالک کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ہم افراط زرکا جائزہ لیں تواس وقت خوراک کی افراط زر بہت زیادہ ہے۔ حکومت کیلئے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کاشتکاروں کو گندم ، کاٹن ، گنے کی پیداوار بڑھانے کے لئے مراعات دینا چاہئے جیسے ہندوستان میں کھاد، یوریا اور ڈی اے پی کی قیمت میں کمی کی جارہی ہے۔

سال 2021 معیشت کے لئے بہت سے چیلنجز لے کر آیا ہےجیسے اعلی غذائی افراط زر ، کوویڈ 19 ،بڑھتی ہوئی درآمدات اوبرآمدات کے ر اعدادوشمار ۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمت ، بے روزگاری وغیرہ۔30 ماہ میں 4 وزرائے خزانہ کو تبدیل کرنا معاشی سیکٹر میں کمزور معاشی ٹیم اور حکومت کے کنٹرول کی کمزوری کوظاہر کرتا ہے۔پاکستان کواگلے 2 سالوں میں برآمدات کو 30 بلین ڈالر تک پہنچاناچاہئے۔ جبکہ بجلی اور گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکا جائے۔

حکومت کے وسائل ، بجٹ کا خسارہ اور CAD پچھلے چندماہ میں حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔سرکاری وسائل اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ، اور نیا بجٹ ایک بار پھر خسارے کا بجٹ ہوگا کیونکہ ضرورت کے مطابق ٹیکس وصولی میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔پچھلے کچھ مہینوں سے صرف سی اے ڈی کنٹرول میں ہے یا سرپلس ہے۔ غیر ملکی ترسیلات میں2021 میں ماہ بہ ماہ اضافہ ہورہا ہے اور ترسیلات زر 26 ارب ڈالر سے 27 ارب ڈالر کوعبور کررہی ہیں۔

ون ملک مقیم پاکستانیوں نے جون 2021 تک مجموعی برآمدات سے بھی زیادہ ترسیلات بھیج کر حکومت کی مشکلات میں کسی حد تک کمی کی ہے۔اور سب سے اہم بات اسٹیٹ بینک کی پالیسیاں اور ڈالر کی شرح ہے۔گذشتہ 8 مہینوں میں اسٹیٹ بینک کی پالیسیاں بہت اچھی رہیں ، سود کی شرحیں 7 فیصد کے لگ بھگ مستحکم ہیں اور کوویڈ کی سپورٹ معیشت کی حمایت کرتی ہیں۔

گذشتہ 8 ہفتوں میں زر مبادلہ کی شرحیں بہتر رہیں اور روپیہ مستحکم ہورہا ہے۔ حال ہی میں ڈالر 165 سے گر کر 153 روپے تک آگیا ہے اس سے یقیناً برآمد کنندگان خوش نہیں ہیں ، لیکن مجموی طور پر یہ ہمارے ملک کے بہتر مفاد میں ہے۔آئی ایم ایف کا معاہدہ حکومت کو اس سال بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور کرسکتا ہے لیکن حکومت کو اسے ملکی مفاد میں کنٹرول میں رکھنا ہوگا۔

تحریک انصاف کی حکومت بجٹ اس وقت پیش کرنے جا رہی ہے جب معیشت میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ دکھائی دیتا ہے جو تیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، برآمدات کے نمبرز بھی پچیس ارب ڈالر پر ہیں، جو آٹھ برسوں بعد حاصل کیا گیا ہے، زرعی شعبے نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے، گندم، گنا، چاول کی فصلیں ریکارڈ ہوئی ہیں تاہم کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے سبب ٹیکسٹائل سیکٹر جو برآمدی صنعت بھی ہے مشکلات کا شکار ہو گا اور ہمیں کپاس درآمد کرنا ہو گی۔

حیرانی کی بات ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے باوجود ملک خوراک میں بلند افراط زر کا شکار ہے، دالیں، آٹا، چینی، کی قیمتوں میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو براہِ راست عوام کو متاثر کرتا ہے، مہنگائی کے سبب غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، عوام کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے، توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے بھی مہنگائی میں اضافہ کیا ہے پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا گیا جو افراط زر میں نمایاں اضافے کا سبب بنا، مشیر خزانہ نے یقین دلایا ہے کہ وہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں کریں گے، اور اس حوالے سے آئی ایم ایف سے بات کریں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت توانائی کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات کرے، صنعتوں میں بھی بہتری کے آثار ہیں، سیمنٹ، آٹو موبائل، اسٹیل، اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں، جس کا لازمی مثبت اثر مجموعی قومی پیداوار پر پڑے گا، اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں ہے، لہذا حکومت تنخوا دار طبقے کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ٹیکس میں انہیں ریلیف مہیا کرے، اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کو بڑھا کر دس لاکھ تک لے جائے، افراط زر میں کمی کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی لائی جائے اور اسے بارہ فیصد تک لایا جائے، اس اقدام سے اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی واقع ہو گی، اشیاء تعیشات میں سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

حنیف گوہر

سابق سینئر نائب صدر، ایف پی سی سی آئی/سابق چیئرمین آباد

وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا ہے کہ بجٹ 2021-22 میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا جو خوشی آئند ہے تاہم کورونا سے متاثر صنعتوں کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی شرح میں بھی کمی کا اعلان کرے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملکی ریونیو میں اضافہ ہو تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے نہ کہ موجودہ ٹیکس گزاروں پر اضافی بوجھ ڈالا جائے۔

حنیف گوہر
سابق سینئر نائب صدر،
ایف پی سی سی آئی/
سابق چیئرمین آباد

کورونا کی عالمی وبا کے باعث عالمی معیشتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ مینوفیکچررز، ٹریڈرز، ریٹیلرز، امپورٹرز اور ایکسپوٹرز متاثر ہوئے ہیں جس سے بزنس کمیونٹی شدید مالی بحران سے دوچار ہے۔

انھوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ کاروبار کی سود ادائیگیوں کو 6 ماہ کے لیے موخر کیا جائے۔ درآمدشدہ مشینریز، پلانٹ، ایکوئپمنٹ کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔

حنیف گوہر نے کہا کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی بڑی رقم ایف بی آر کے پاس پڑی ہے جن کی فوری ادائیگی کے لیے میکنزم بنایا جائے۔ حکومت کو سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم میں ٹیکنیکل مسائل کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ایکسپورٹرز کو جلد ریفنڈز ادا کیے جاسکیں۔

حنیف گوہر نے کہا کہ کاروباری لاگت کم کرنے کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کی جائے۔ نئی رجسٹر ہونے والی کمپنیوں بالخصوص ایس ایم ایز کو تمام ٹیکسوں سے 3 سال کی چھوٹ دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حنیف گوہر نے کہا کہ سیلز ٹیکس،انکم ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کے آڈٹ 3 سال میں صرف ایک دفعہ ہونا چاہیے اور گزشتہ سال سے 20 فیصد زیادہ ٹیکس دینے والے ٹیکس گزاروں کو آڈٹ سے استثنی دیا جائے۔

پاکستان میں 90 فیصد سے زائد انٹرپرائزز ایس ایم ایز ہیں۔جی ڈی پی میں ایس ایم ایز کا حصہ 40 فیصد جبکہ برآمدات میں 25 فیصد ہے لیکن افسوس کہ حکومت پاکستان نے ایس ایم ایز کی گروتھ ریٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھائے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایس ایم ایز کو قرضوں کے لیے نرم پالیسیاں متعارف کی جائیں اور کم شرح سود پر قرضے دیے جائیں جس کے لیے کولیٹرل کی شرط بھی ختم کیا جائے۔

بجلی اور گیس کی بلند قیمتوں کے باعث ہماری صنعتوں کی کاروباری لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس سے ہماری مصنوعات کو عالمی منڈی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتوں کوفراہم ہونے والی گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کرے تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہوسکے۔

عالمی تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو ایکسپورٹ اسٹرٹیجک میں شفافیت لانی ہوگی جس کے لیے میڈیم اور ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات کے برآمدات بڑھانی ہوں گی۔ پاکستان کی برآمدات صرف چند آئٹم تک محدود ہے جیسا کہ ٹیکسٹائل گڈز،لیدر،چاول وغیرہ۔ حکومت کو چاہیے کہ انجینئرنگ گڈز،فارما سوٹیکل،ویلیو ایڈڑ ٹیکسٹائل، سرجیکل انسٹرومنٹس اور اسپورٹس گڈز کے لیے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور ایکسپورٹ اورئنٹیڈ اسپیشل اکنامک زونز قائم کرے چاہیں۔

حنیف گوہر نے کہا کہ جس طرح 5 زیرو ریٹڈ شعبوں کو ترغیبات دی گئی ہیں اسی طرح کی ترغیبات معیشت کے اہم برآمدی شعبوں انجینئرنگ، فارماسوٹیکل، چاول اور حلال گوشت کے بھی دینی چاہئیں کیوں کہ عالمی تجارت میں انجینئرنگ شعبے کا شیئر تقریبا 52 فیصد ہے تاہم پاکستان میں انجینئرنگ شعبے کو کوئی ٹیکس ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ 2 سال میں کئی حام مال مٹیرئل کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی کی ہے۔ جو حام مال پاکستان میں تیار نہیں ہوتا اس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی،ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جانی چاہیے۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کے بعد روزگار فراہم کرنے والا دوسرابڑا شعبہ تعمیراتی صنعت ہے جو مجموعی طور پر 35 فیصد روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تعمیراتی صنعت روزگار کی فراہمی اور معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یو بی جی رہنما نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ راز جانتے ہوئے کہ معیشت کی ترقی تعمیراتی صنعت میں مضمر ہے تو انھوں نے پاکستان کی معیشت کو تعمیراتی صنعت کے ذریعے ترقی دینے کے لیے ریلیف پیکج (ایمنسٹی اسکیم)کا اعلان کیا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون 2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس ریجیم کی سہولت دی گئی ہے۔ تعمیراتی پیکج کے اعلان کے بعد ملک میں تعمیراتی سرگرمیاں بلند ترین سطح پر پہنچیں۔

پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ اور سریا کی پیداوار اور ٹائلز سمیت دیگر تعمیراتی مصنوعات کی فروخت پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کے مثبت اثرات جاری مالی سال کے جی ڈی گروتھ میں حیران کن اضافے سے ظاہر ہوئے ہیں۔

حنیف گوہر نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کا اضافہ کیا جائے جبکہ بجٹ 2021-22 میں تعمیراتی شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے۔

سیمنٹ اور سریا تعمیرات کا اہم جز ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج کے اعلان کے بعد تعمیراتی سرگرمیاں کو فروغ ملا جس سے سیمنٹ اور سریا کے مینوفیکچررز کے کارٹیل نے سریا اور سیمنٹ میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا ہے جس سے ایفورڈایبل ہائوسنگ اسکیم اور نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔ حنیف گوہر نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ سیمنٹ اور سریا مینوفیکچررز کارٹیل کو قانون کے دائرے میں لائیں بصورت دیگر سیمنٹ اور سریا کی درآمد پر ریگولر ڈیوٹی اور ایڈیشنل ریگولر ڈیوٹی کا خامتہ کیا جائے تاکہ سریا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں استحکام آسکے۔

تعمیراتی منصوبوں کے لیے این او سی کی منظوری کے لیے ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے۔ تعمیراتی منصوبے کے لیے بلڈرز کو درجنوں متعلقہ سرکاری محکموں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور این او سی کے لیے بھی سال سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ون ونڈو آپریشن کا نظام نافذ کرکے 15 روز میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی جاری کی جانی چاہیے۔

عاصم بشیرخان

ماہرِ معیشت ، پی ایچ ڈی اسکالر آئی بی اے کراچی

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت11جون کو مالی سال 2021-22کا بجٹ پیش کرے گی۔ اس سے قبل کہ ہم آئیندہ بجٹ کے حوالے سے اِمکانات کا جائزہ لیں ہمیں گذشتہ برس کے بجٹ، اہداف اور چیلنجز کا مختصر جائزہ لینا چاہیئے۔ کووڈ بحران کی موجودگی میں گذشتہ سال کا بجٹ حکومت کے لیے ایک زبردست چیلنج تھا ۔

عاصم بشیرخان
ماہرِ معیشت ، پی ایچ ڈی
اسکالر آئی بی اے ،کراچی

پاکستان میں 26 مارچ 2020 سے 9 مئی 2020 تک مکمل لاک ڈاؤن جاری رہا جس سے کاروبار اور صنعت بُری طرح متاثر ہوئی ۔ سال کی آخری سہ ماہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے بارے میں 2 ارب ڈالر ادائیگی کا تخمینہ لگایا تھا ، جو کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔

عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی کووڈ ریلیف فنڈ کی رقم ملا کر پاکستان کو تقریباِِ 2.3 ارب ڈالر کی مالی مدد ملی۔ جب کہ اب تک تین مختلف مراحل میں Debt Service Suspension Initiative کے تحت پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں نرمی اور وقت کی مہلت سے تقریبا 3اشاریہ 5ارب ڈالر کا ریلیف ملا۔

اس طرح 2 ارب ڈالر کی ادائیگی کے ممکنہ بحران کی مد میں حکومت 5 اشاریہ 8 ارب ڈالر کا مالی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی،یوں حکومت بیلنس آف پیمنٹ پر پڑنے والے ممکنہ دباؤ سے بچنے میں بھی کامیاب رہی ۔ چوں کی ریزرو پر دباؤ میں کمی ہوئی تو روپے کی قدر میں بھی بحالی دیکھنے میں آئی۔ گویا کووڈ حکومت کے لیے درحقیقت Blessing in disguise ثابت ہوا۔

کووڈ بحران میں قدرے کمی اور کاروباری صورتِ حال میں بحالی کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے پاکستان شماریاتی بیورو سے ایک سروے بھی کرایا ۔ پاکستان شماریاتی بیورو نے اپنے سروے میں 6000 گھرانوں پر مشتمل ایک پرائمری سروے کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان میں بہت تیزی سے انگریزی حرفِ تہجی وی جیسی بحالی ہو چکی ہے ۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں اتنی تیز معاشی بحالی کے دعویٰ میں مبالغے کا عنصر نظر آتا ہے۔

حکومت کا دعوی ہی مان لیا جائے تو حکومت کو حقیقی معنوں میں ٹیکس دہندگان میں اِضافے سے ٹیکس آمدن میں اضافہ ہونا چاہیے تھا جب کہ ایسا نہیں ہے، حکومت نے بارہا بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ شرح مہنگائی میں اِضافے کے سبب بظاہر سیلز ٹیکس کی کلیکشن میں بہتری نظر آرہی ہے جب کہ حقیقتاً پیداوار اور قوتِ خرید میں کماحقہ اِضافہ نا ہو سکا ۔

بینکوں میں بچت کھاتوں میں ہونے والی آمدن پر ٹیکس کی شرح میں اِضافہ کیا۔ نا صرف یہ کہ قومی بچت اسکیم کے نفع پر ٹیکس ریٹ کو نان فائلز پر 30 فیصد تک کیا گیا بلکہ بزرگ شہریوں کو اس حوالے سے کوئی خاطر خاہ آگاہی نہیں دی گئی، چوں کہ قومی بچت سکیم سے فائدہ اٹھانے والے بہت سے بزرگ شہری نان فائلزر ز ہیں اور نئے قوانین سے آگاہی نہیں رکھتے لہذا حکومت اُن کے بچت منافع پر دگنا ٹیکس وصول کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے ٹیکس دہندگان پر بے جا جرمانے بھی لگائے۔

معیشت اور منڈیوں میں حالیہ معاشی سرگرمیوں کے محرکات پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ حالیہ نمو تعمیراتی شعبے کو دی گئیں مراعات سے جڑی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر آمدن کے زرائع کے حوالے سے سرمایہ کار کو تفتیش سے تحفظ کی وجہ سے تعمیرات اور اِس سے جڑی تمام صنعتوں میں کاروباری سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

دوسرا پہلو رئیل سٹیٹ یا پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو کم دکھانے پر جو ایف بی آر کے قانون میں سیکشن 236ڈبلیو کو حکومت نےواپس لے رکھا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں رئیل سٹیٹ کی قیمتیں پھر بڑھنا شروع ہوگئیں ہیں ساتھ ہی سونے کی مارکیٹ اور قیمتوں میں بھی تیزی ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ ایسے تمام اقدامات صنعت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔

سال 2022-2021 کے بجٹ میں حکومت تنخواہ دار طبقے کے نئے ٹیکس سلیب متعارف کرا رہی ہے، امکان ہے کہ اس ٹیکس کلیکشن اور رضاکارانہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے رجحان میں بہتری آئے گی۔ اِس کے ساتھ ہی آئیندہ بجٹ میں حکومت زیادہ تر ٹیکس چھوٹ اور ٹیکس اِستثنیٰ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اِرادہ رکھتی ہے، جس کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کہیں کاروبار پر اِس کے منفی اثرات نا ہوں ۔

ایف بی آر کی جانب سے ریفنڈ کلیم کے لیے کمپیوٹرئیزڈ سسٹم کے بہترین نتائج ملے، اور اب حکومت کا ہدف ہے کہ موجود ہ مالی سال میں اس میں مذید بہتری اور تیزی لائے FASTER جس کے لازما بہت اچھے نتائج مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر وقار مسعود کہتے ہیں کہ جب سیلز ٹیکس دہندگان کا دائرہ کار بڑھ جائے گا، اس وقت سیلز ٹیکس میں کمی کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں پاکستان کی معیشت سیلز ٹیکس کی بھاری شرح کی وجہ سے بہت زیادہ مہنگائی کے بوجھ تلےدبی رہتی ہے، لہذا سیلز ٹیکس کو حالیہ بجٹ سے ہی بتدریج کم کرنے کی ضرورت ہے۔

اِس بجٹ میں حکومت 900 ارب کا پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام پیش کرے گی جو کہ معاشی بحالی کی ضرورت بھی ہے اور اس سے منڈیوں میں معاشی نمو اور تحریک بھی پیدا ہوگی بشرطیکہ یہ ترقیاتی بجٹ صحیح سمت اور ترجیحات پر لگایا جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ خوش آئند ہے ، کیوں کہ گزشتہ برس حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا تھا۔

ہر سال کی طرح قرضوں کی ادائیگی اور دفاع بجٹ کے دو سب سے بڑے حصے ہیں، ان اخراجات پر ہر سال کی طرح اس سال بھی تقریباِِ دو تہائی بجٹ صرف ہوگا۔ایک اہم بات جو اِس بجٹ کے حوالے سے کہنا ضروری ہے، اس بجٹ میں بھی صوبوں کے حصوں کی تقسیم پرانے قومی مالیاتی ایواراڈ کے کلیے کے مطابق کی گئی ہے۔

کئی سالوں سے این ایف سی ایوارڈ کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ مردم شماری کو کہا جاتا رہا، لیکن اب یہ عذر بھی ختم ہو گیا اور نا صرف مردم شماری باضابطہ منظور ہو چکی ہے بلکہ زمینی حقائق میں کافی تبدیلیاں ہوچکیں ہیں مثلاِِ فاٹا انضمام کی وجہ سی خیبر پختونخواہ کی حکومت پر غیر معمولی مالی دباؤ ہے اور خود مردم شماری کے اعداد و شمار میں بھی تبدیلی آ چکی ہے۔

کووڈ -ویکسین آنے کے بعد ،عالمی معیشت کرونا بحران کے بعد بتدریج بحالی کی طرف گامزن ہے، حکومتِ پاکستان کو بھی اپنے اگلے بجٹ میں ویکسین کی درآمد ، اور ویکسین سینٹرز کا قیام اور اس سلسلے میں مالی وسائل کی سرمایہ کاری ناگزیر ہوگی۔ بحران کے بعد بھی کاروبار اور منڈیاں ،سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ مکمل طور پر فعال نہیں ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس پالیسی میں نرمی کی گنجائش پیدا کرے ۔