پاور سبسڈی کی حقیقت

June 14, 2021

نئے مالی سال کے حالیہ بجٹ میں جب پاور سیکٹر کے لئے 596ارب روپے کی سبسڈی کی دستاویزات سامنے آئیں تو یہ خبر اِس لئے خوش کن محسوس ہوئی کہ بجلی کی قیمتوں میں روز افزوں ہونے والا اضافہ نہ صرف رُک جائے گا بلکہ فی یونٹ قیمت میں کمی بھی کی جائے گی لیکن وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے پاور تابش گوہر کا کہنا ہے کہ کہ پاور سیکٹر کی 596ارب روپے کی سبسڈی سے متعلق دستاویزات گمراہ کن ہیں۔ حقیقی سبسڈی 330ارب روپے ہے جس سے نہ صرف گردشی قرضوں میں اضافہ ہو گا بلکہ حکومت کو ٹیرف 1.70روپے فی یونٹ بڑھانا ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق 596میں سے 266ارب روپے آئی پی پیز کی دوسری قسط اور کچھ روپے پی ایچ پی ایل کو قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ اِس لئے بجٹ دستاویزات نے عوام کو گمراہ کر دیا ہے کہ حکومت نے پاور سیکٹر کے لئے 596ارب روپے کی رقم مختص کی ہے درحقیقت 330ارب روپے اِس مد میں مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم پاور ڈویژن کی جانب سے طلب کی گئی رقم سے بھی 171ارب روپے کم ہے کیونکہ پاور ڈویژن نے 501ارب روپے مختص کرنے کی درخواست کی تھی۔ تابش گوہر کا مزید کہنا تھا کہ 160ارب روپے کی رقم جمع کرنے کے لئے پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم لیوی میں اضافہ ہو گا جس سے مہنگائی کا نیا طوفان اُٹھے گا۔ ماضی میں سستی بجلی پیدا کرنے کے اسباب موجود ہونے کے باوجود مہنگی بجلی پیدا کی جاتی رہی جس سے گردشی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ بلا شبہ اِس وقت گردشی قرضے اور پاور سیکٹر حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں لیکن موجودہ دور میں گردشی قرضوں کے بڑھنے کی وجوہ میں بجلی کے ضیاع سے لے کر غیر ادا شدہ زرِ تلافی، پاور کمپنیوں کے واجبات کی عدم ادائیگی، پاور ہولڈنگ کمپنی کا مارک اپ اور دیگر بدانتظامیاں شامل ہیں جن میں اصلاح پر فوری توجہ دی جانی چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998