انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام ارکان کی بات سنی گئی، بابر اعوان

June 19, 2021


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام ارکان کی بات سنی گئی، بلوں پر اپوزیشن کے اعتراضات قانونی ہوئے تو انہیں ضروردیکھیں گے، ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ اتفاق رائے کے بغیر انتخابی اصلاحات کرنا متنازع الیکشن کی بنیاد رکھنا ہے، ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ اپوزیشن کو پورے سال عوام کی یاد نہیں آتی بجٹ کے پانچ دنوں میں بلیک میلنگ کرتی ہے۔ مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن کو بتادیاتھا کہ قومی اسمبلی نے جو بل پاس کیے وہ سینیٹ میں رکھ کر قانون کی متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیئے گئے ہیں، اب وہ بل قومی اسمبلی کی نہیں سینیٹ کی پراپرٹی ہے، ان بلوں پر اپوزیشن کے اعتراضات قانونی ہوئے تو انہیں ضروردیکھیں گے مگر بل واپس نہیں لیے جاسکتے، اپوزیشن نے کافی عرصے سے کمیٹیوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ہم کب تک انتظار کرتے، ہم نے تمام بلوں کی تیاری کے وقت بھی مشاورت کی تھی، اپوزیشن نے این آر او ملنے تک فیٹف قانون سازی کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو قانون پر اعتراض تھا تو حکومت سے رابطہ کرنے سے قبل میڈیا کو لیک کرنا مناسب نہیں تھا، حکومت اس معاملہ پر الیکشن کمیشن کے نکتہ نظر کو سمجھے گی، صاف و شفاف الیکشن کیلئے الیکشن کمیشن سے مشاورت مسلسل جاری رہتی ہے، سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی ادارہ نہیں کہہ سکتا پارلیمنٹ نے غیرآئینی قانون بنایا ہے، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے قانون بنانا، آئین و قانون میں ترمیم کرنا اس کا اختیار ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام ارکان کی بات سنی گئی، اجلاس میں ن لیگ ، پیپلز پارٹی کے نمائندے اور الیکشن کمیشن کے ڈی جی لاء بھی موجود تھے، پیپلز پارٹی کے نمائندے نے کمیٹی کا بائیکاٹ کیا لیکن شاید اپنے لیڈر کو نہیں بتایا، اپوزیشن تنقید کرتی تھی قانون سازی نہیں ہوتی اب قانون سازی ہورہی ہے تو اس پرا نہیں اعتراض ہے۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں ووٹنگ کا طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں نہیں لکھا جاتا اس کیلئے رولز بنائے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن اوورسیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے رولز بنائے، ووٹ دینے کیلئے بیرون ملک مقیم پاکستانی کے پاس شناخت ہونی چاہئے اور اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہونا چاہئے، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ رجسٹرڈ کروانے پر آمادہ کرنے کیلئے سیاسی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صدر مملکت عارف علوی نے اوورسیز پاکستانیوں کی آئی ووٹنگ پر کافی کام کیا ہوا ہے، افغانستان کے لوگ پاکستان میں مہاجر کیمپوں سے بیٹھ کر وہاں ووٹ دیتے ہیں ، ہم اوورسیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کا طریقہ کار نہیں بناسکیں تو بہت عجیب بات ہوگی۔بابر اعوان نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کیلئے دستیاب تمام مشینیں الیکشن کمیشن دیکھ چکا ہے، الیکشن کمیشن کے نمائندوں نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ کی مشین ہمیں دکھائی، ہم نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ڈسپلے بھی کیا، اپوزیشن جو الیکٹرانک ووٹنگ مشین چاہتی ہے الیکشن کمیشن کو دکھادے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، الیکٹرانک مشین خریدنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار ہونا چاہئے، الیکٹرانک ووٹنگ کیلئے دیگر ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ یہ حکومت دو چہرے رکھتی ہے اسی لئے اپوزیشن اس پر اعتماد نہیں کرتی، پہلے اسپیکر نے قومی اسمبلی کو بتایاکہ متنازع بلوں کو واپس لینے کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے، اب بابر اعوان کہتے ہیں بل واپس نہیں لیے جاسکتے، اگر بل واپس نہیں لیے جاسکتے تو کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی، الیکشن میں حکومت نہیں تمام سیاسی جماعتیں فریق ہوتی ہیں، ن لیگ کی حکومت نے انتخابی اصلاحات کیلئے تمام جماعتوں کی کمیٹی بنائی تھی، اتفاق رائے کے بغیر انتخابی اصلاحات کرنا متنازع الیکشن کی بنیاد رکھنا ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت اس لائق نہیں کہ اس پر بھروسہ کیا جائے، حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق پر سیاست کررہی ہے، ن لیگ بھی اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حامی ہے مگر اس کیلئے الیکشن کی ساکھ کوداؤ پر نہیں لگایا جاسکتا، حکومت آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ دینے کیلئے فول پروف طریقہ کار بتائے، دنیا کے ٹیکنالوجی لیڈر ممالک اور بڑی جمہوریتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرچکی ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں جس کی کسٹڈی میں ہوگی وہ ٹیمپرنگ کرسکتا ہے۔ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ اپوزیشن کو پورے سال عوام کی یاد نہیں آتی بجٹ کے پانچ دنوں میں بلیک میلنگ کرتی ہے، ماضی میں ایم پی ایز کو فنڈز مختص کیے جاتے تو وہ جعلی اسکیموں اور مرضی کے کنٹریکٹرز کو ٹھیکے دے کر کک بیکس اور کمیشن لیتے تھے، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے آتے ہی یہ سلسلہ ختم کردیا تھا، اپوزیشن بجٹ کیلئے سنجیدہ ہے تو ان کا شیڈو بجٹ کہاں ہے، اپوزیشن کے حلقوں میں بھی ترقیاتی کام جاری ہیں۔