کیا عالمی آبادی میں کمی کا رجحان خطرناک ہے؟

June 28, 2021

مئی 2021ء کے اواخر میں چین کی حکومت نے ملک میں بسنے والے والدین کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا۔ چین کی حکومت کی جانب سے یہ اعلان 1980ء میں نافذ کی گئی ’’وَن۔چائلڈ پالیسی‘‘ ختم کرنے کے پانچ سال بعد سامنے آیا ہے۔ یقیناً، چینی حکومت کے اس اعلان کا ایک پس منظر ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملکی آبادی اب بھی بڑھ رہی ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ چین کی آبادی میں سالانہ چار لاکھ نفوس کی کمی آرہی ہے اور 2030ء تک اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر آبادی میں کمی کے اندازے درست ثابت ہوئے تو 2100ء تک چین کی آبادی میں 60سے 70 کروڑ نفوس کی کمی آسکتی ہے، جوکہ موجودہ آبادی کا تقریباً 50فی صد بنتا ہے۔

سپرپاور ممالک میں آبادی میں کمی کے مسائل کا سامنا صرف چین کو نہیں ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق، امریکا میں شرحِ پیدائش میں مسلسل چھٹے سال کمی دیکھی گئی ہے اور 2007ء سے اب تک مجموعی طور پر شرحِ پیدائش میں 19فی صد کمی آئی ہے۔ امریکا کی آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح 1.6 فی صد جبکہ چین کی 1.3فی صد ہے، جوکہ اپنی موجودہ آبادی کی تعداد کو برقرار رکھنے کے لیے درکار شرح سے کم ہے۔ عمومی طور پر، کسی بھی ملک کو اپنی آبادی کی موجودہ تعداد کو برقرار رکھنے کے لیے پیدائش کی شرح کو کم از کم 2.1فی صد پر برقرار رکھنا ضروری ہے، اس سے کم شرح ملک کی آبادی میں کمی کا باعث بنے گی۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت بھی کم شرحِ پیدائش والے ممالک میں شامل ہے۔ بھارت میں شرحِ پیدائش 2.1فی صد ہے، جوکہ بمشکل آبادی کی موجودہ تعداد کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے۔ دیگر ممالک جہاں شرحِ پیدائش کم ہے، ان میں جاپان (1.3فی صد)، روس (1.6فی صد)، برازیل (1.8فی صد)، بنگلا دیش (1.7فی صد) اور انڈونیشیا (2فی صد) شامل ہیں۔

تاہم، آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک میں شامل پاکستان اور نائیجیریا میں شرحِ پیدائش اب بھی زیادہ ہے، جوکہ بالترتیب 3.4فی صد اور 5.1فی صد ہے۔ البتہ، ان ممالک میں بھی اگر 1960ء کے عشرے پر نظر ڈالی جائے، جب شرحِ پیدائش 6.6فی صد (پاکستان) اور 6.4فی صد (نائیجیریا) تھی، تو اس لحاظ سے موجودہ شرح بہت کم معلوم ہوتی ہے اور ہر سال اس میں مزید کمی آرہی ہے۔

کم شرحِ پیدائش میں کووِڈ-19کا کردار

کئی تجزیہ کاروں اور مزاحیہ نگاروں کا خیال تھا کہ کووِڈ-19لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جب لوگ گھروں میں بند ہوجائیں گے تو اس کا ایک ممکنہ نتیجہ شرحِ پیدائش میں اضافے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میںنتائج اس کے برعکس ہیں۔

ترقی یافتہ دنیا میں اب بچے باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد پیدا کیے جاتے ہیں۔ اس میں ایک نکتہ مستقبل کے متعلق پراُمید ہونا ہے۔ ظاہر ہے، ایک عالمی وَبا کے دوران مستقبل کے متعلق پراُمید ہونے کے بجائے خدشات زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ درحقیقت، بروکنگز انسٹیٹیوٹ کا تخمینہ ہے کہ عالمی وَبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی عدم تحفظ کے احساس کے باعث امریکا میں تین لاکھ کم بچے پیدا کیے گئے ہیں۔

کیا یہ ایک قلیل مدتی رجحان ہے، جو تبدیل ہوسکتا ہے؟ ایسا ہوبھی سکتا ہے اور کئی تجزیہ کار توقع کررہے ہیں کہ کووِڈ ویکسین کی بڑے پیمانے پر فراہمی کے بعد شرحِ پیدائش میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا جاسکتا ہے، جس سے حالیہ کمی کو بھی پُر کیاجاسکے گا۔ تاہم تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایک جوڑا جب بچے کی پیدائش کا فیصلہ مؤخر کرتا ہے تو وہ ایک طویل عرصہ تک مؤخر ہی رہتا ہے اور وہ جوڑا جس بچے کی منصوبہ بندی رکھتا ہے، وہ درحقیقت کبھی بھی وجود میں نہیں آتا۔

ترقی یافتہ ملکوں میں شرحِ پیدائش میں کمی کی ایک وجہ جہاں کووِڈ کے باعث پیدا ہونے والا معاشی عدم تحفظ کا احساس ہے، وہاں دوسری وجہ عالمی وَبا کے باعث سرحدوں کا بند ہونا بھی ہے۔ 2020ء میںپہلی عالمی جنگ کے بعد، آسٹریلیا میں پہلی بار آبادی میں کمی دیکھی گئی ہے۔ کینیڈا گزشتہ سال صرف ایک لاکھ 80ہزار امیدواروں کو مستقل رہائش کی منظوری دے سکا، جب کہ ہدف تین لاکھ 81ہزار کا تھا۔ جن لوگوں کو مستقل رہائش کی منظوری دی گئی، وہ تعلیم یا کام کے ویزا پر پہلے ہی کینیڈا میں مقیم تھے۔

تیسری بڑی وجہ، کووِڈ کے باعث ہونے والی اموات ہیں۔ امریکا میں ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ کووِڈ کے باعث ہونے والی اموات کے نتیجے میں اوسط عمر میں ایک سال کی کمی آئی ہے۔ نسلی اقلیتیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں اور افریقی امریکیوں کی اوسط عمر میں دو سال جب کہ لاطینی امریکیوں کی اوسط عمر تین سال کم ہوئی ہے۔ درحقیقت، عالمی وَبا کے نتیجے میں اموات کی شرح سرکاری طور پر ظاہر کردہ اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے کووِڈ سے ہونے والی اموات کے درست اعدادوشمار چھُپائے ہیں۔

صرف عالمی وَبا وجہ نہیں

ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی آبادی میں کمی کا رجحان نئی صدی کے آغاز پر ہی شروع ہوچکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شہر کاری (اربنائزیشن) ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت گزشتہ ایک صدی کے دوران دیکھی گئی ہے، جو دیہات سے شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی کے نتیجے میں ہوئی۔ 1960ء میں ایک تہائی آبادی شہروں میں رہتی تھی، آج یہ شرح تقریباً 60 فی صد ہوچکی ہے۔ آبادی کے شہروں کی طرف منتقلی کے جہاں معاشی فوائد ہیں، وہاں اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ جوڑے زیادہ بچے پیدا کرنے سے ڈرتے ہیں، شہری معیشت کا یہی تقاضہ ہوتا ہے۔

اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب خواتین شہری ماحول میں آتی ہیں تو انھیں بہتر تعلیم اور پیشہ ورانہ مواقع اور خاندانی منصوبہ بندی کی بھی بہتر سہولیات میسر آتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں شرحِ پیدائش میں کمی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پہلی بار ماں بننے والی خواتین پہلے کے مقابلے میں عمر میں بڑی ہوتی ہیں اور وہ کم بچے پیدا کرتی ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں 40سال کی عمر میں ماں بننے والی خواتین کی تعداد 20سال کی عمر میں ماں بننے والی خواتین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ اکیسویں صدی کا اہم دور آج سے تین دہائیوں کے بعد شروع ہوگا، جب حقیقتاً دنیا کی آبادی کم ہونا شروع ہوجائے گی۔ کووِڈ نے اس رجحان کو غالباً تیز کردیا ہے لیکن یہ اس کی وجہ ہرگز نہیں ہے۔

آبادی میں کمی کے اثرات

ہمیں دنیا کی آبادی میں کمی پر کیوں فکرمند ہونا چاہیے؟ یہ بات اپنی جگہ درست کہ ماحولیاتی نکتہ نظر سے کم آبادی بہتر ہے، تاہم اس کے معاشی اثرات گھمبیر ہیں۔ 1960ء کے عشرے میں ریٹائر ہونے والے ہر ایک شخص کی جگہ چھ نئے لوگ کام کرنے کو تیار ہوتے تھے، آج یہ شرح گھٹ کر تین رہ گئی ہے۔ 2035ء تک یہ شرح مزید گھٹ کر محض دو فرد رہ جائے گی۔

آنے والے تین عشروں میں دنیا کی آبادی ایک طرف جہاں کم ہوجائے گی وہاں بوڑھوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی۔ دنیا کو اس وقت نوجوانوں کی ضرورت ہوگی، جو عالمی معیشت کے پہیہ کو چلاسکیں کیوں کہ جب وہ کمائیں گے، اس کے بعد ہی پیسے کی ریل پیل جاری رہ سکے گی اور فیکٹریوں اور کارخانوں میں پیدا ہونے والی مصنوعات خریدنے کی سکت رکھنے والے افراد دستیاب ہوں گے۔ دنیا کی آبادی میں ایک حد سے زیادہ تیزی سے اضافہ بھی خطرناک ہے لیکن ضرورت سے زیادہ کمی کے اثرا ت اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔