کراچی کے مزیدار کھانوں کے چٹ پٹے قصے

June 30, 2021

اظہر عزمی

بچپن میں ہم سے کسی نے پوچھا تھا کہ بڑے ہو کر کیا کرو گے ؟ ہم نے کہا کہ اپنے شہر کراچی میں کتابوں کی دکانیں کھولیں گے یا پھر ہوٹل ۔ آپ اس سے ہماری کتب وارفتگی اور شکم درندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ کتابیں پڑھ لیں اور پسندیدہ کھانوں کا ہوٹل ، کیفے عزمی اپنے پیٹ میں ہی کھول بیٹھے جو الحمد للہ آج بھی چل رہا ہے لیکن مینیو میں بڑی آلو دہ تبدیلیاں شکم پذیر ہو چکی ہیں ۔زندگی میں ہر ایک کو اپنے ذوق کے مطابق کھانا پسند ہوتا ہے ۔ کچھ کھانے آپ کو بے پناہ پسند ہوتے ہیں ۔

کچھ پسند اور کچھ بمشکل تمام ہی حلق سے نیچے اتر پاتے ہیں ۔ جو کھانے آپ کو بے پناہ پسند ہوتے ہیں وہ اصل میں آپ کے منہ چڑھے ہوتے ہیں ۔ کچھ صرف پسند ہوتے ہیں تو وہ اترائے اتارئے پھرتے ہیں ۔ بمشکل تمام کھانوں کو آپ بوجوہ ضعیف معدہ منہ لگانا پڑتا ہے ۔میرے ساتھ تو یہ معاملہ رہا کہ ہر کھانے کے ساتھ کوئی واقعہ یا بات جڑی رہی ۔ ممکن ہے اکثر احباب کے ساتھ بھی یہ معاملہ رہا ہو ۔مثلاًذیل میں چند کھانوں کےبارے میں ملا حظہ کریں ۔

……مغز فرائی ……

مغز فرائی سے پہلے میں لوگوں کا مغز کھایا کرتا تھا لیکن جب یہ کھایا تو اندازہ ہوا کہ اگر مغز کھانا ہوتو گائے یا بکرے کا کھائیں ۔ مجال ہے جو ایک لفظ کہہ جائیں ۔ میٹرک کے بعد اپنے ماموں کے ساتھ اندرون سندھ جا رہا تھا ۔ طے یہ ہوا کہ پہلے بس سے حیدرآباد جائیں گے ۔ وہاں ایک صاحب سے ملنا تھا ۔ اس کے بعد حیدرآباد سے ٹرین پکڑ کر منزل مقصود کے لئے روانہ ہو جائیں گے ۔ دوپہر کو جن صاحب کے پاس پہنچے وہ ہوٹل لے گئے اورکھانے میں مغز فرائی بھی منگا لیا گیا ۔

ہم شروع میں تو ہرے دھنیے کی گارنیشنگ کئے ان مسالہ دار چھوٹے سفید ٹکڑوں کو سمجھ ہی نہ پائے ۔ کھانے کے دوران ماموں نے کہا ،یہ مغز کھا کر دیکھو ۔ پہلا نوالہ کھایا تو لگا کہ کوئی بہت جگری یار مل گیا ۔پھر تو یہ دستور بنا لیا کہ ہر بدھ کو دفتر سے آنے کے بعد مغز لے آتے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے والدہ کی لاکھ تنبیہہ کے باوجود پورا مغز ہی کھا جاتے ۔ ایسے موقع پر ہماری والدہ کہتیں ،تمھارا تو یہ حال ہے کہ گنوار کھا مرے ، یہ ہگ مرے ۔ اب عمر ایسی ہو گئی کہ دوبارہ انسانوں سے مغز ماری کرنے لگا ہو ں لیکن اب بھی تمام تر خوف کے باوجود جہاں موقع ملے مغز پر ہاتھ صاف کر ہی لیتا ہوں ۔

……مچھلی ……

کہتے ہیں زندہ مچھلی ہاتھ سے پھسل جاتی ہے اور اگر دکان پر ہو تو ہم پھسل جاتے ہیں۔

مچھلی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ کانٹے نکالے جو ہمارے بھی نہیں تھے

لوگوں کو مچھلی کی دکان پر بو آتی ہے ۔ مجھے مشک و عنبر کی خوشبو آتی ہے ۔ ویسے مجھے لگتا کہ ہمارے خاندان میں کبھی کوئی مجھیرا ضرور گزرا ہوگا یا ہم مچھلی شہر میں رہے ہوں گے ۔ مچھلی سے عشق کا یہ عالم ہے کہ کانٹوں کی ہلکی والی کنگھی تو خاموشی سے چبا جاتا ہوں ، صرف یہ سوچ کر کہ میرا کھایا کسی کی راہ میں کانٹے کیوں بچھائے ۔ ایک مرتبہ ایک کانٹا حلق میں بالکل سیدھا کھڑا ہوگیا ۔ آئینے میں دیکھا تو صاف نظر آ رہا تھا ۔ بڑی مشکل سے حلق کا یہ کانٹا نکالا لیکن مچھلی سے محبت ہنوز برقرار ہے ۔

……نرگسی کوفتے……

ہمارےگھر دوسرے شہر سے ایک مہمان آئے تو ان کی شایان شان میزبانی کے لئے گھر پر پہلی بار نرگسی کوفتے پکے ۔ کوفتے میں آدھا انڈا اور اس پر قیمہ چڑھا دیا گیا ۔ یہ ہماری نرگسی کوفتوں سے پہلی سلام دعا تھی ۔ اس کے بعد لے بھیا ہم لگ گئے نرگسی کوفتوں کے پیچھے ۔ ویسے میرا خیال ہے کہ کوفتہ بہت کوفت کے بعد پکائے جاتا ہے اس لئے خواتین نے ان کا نام کوفتہ رکھ دیا ۔ خواتین کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ دل اور زبان دونوں کی بہت صاف ہوتی ہیں ۔

……انڈے چھولے ……

محلے میں بیاہ کر آنے والے ایک خاتون نے والدہ کو انڈے چھولے بنا کر بھیجے ۔ اوپر تار تیر رہا تھا اور اس پر گرم مسالےکے چھینٹے اور ساتھ ہی سالن سے آنکھیں دکھاتی شرارتی ہری مرچیں ۔ ہم تو سالن پر ریجھ گئے اور اس پر ایسے جھپٹے جیسے ریچھ اپنے شکار پر جھپٹا ہے ۔

جس دن یہ پکتا ہم انتظار کرتے رہتے کہ کب والدہ چولھے پر روٹی ڈالیں اور ہم باورچی خانے میں پٹرے پر جا کر بیٹھ جائیں ۔ والدہ روٹی پکاتی جاتیں اور ہم تھے کہ روٹیاں گننا ہی بھول جاتے ۔ ایک دن والدہ بولیں ، ایسا کرو آج تم ہی کھا لو ۔ باقیوں کو میں بھوکا ہی سلا دوں گی ۔ مجھے آج بھی انڈے چھولے میں انڈا چودھویں کا چاند لگتا ہے ۔ چھولے بجھے بجھے تارے لگتے ہیں ۔

…… بٹ……

گائے بکرے کے اسپیئر پارٹس کھانا ہمارا خاندانی وتیرہ رہا ہے، البتہ ہمارے والد کو یہ اشیاء شدید ناپسند تھیں ۔ اس کے لئے ہمیں اپنے چچا کے گھر کا رخ کرنا پڑتا ۔ جس دن بٹیں پکتیں یا تو ہماری پھسلی پھڑک جاتی یا ہمارا بلاوا آجاتا ۔ یہی حال دل ، کلیجی ، گردے اور سری پائے کا ہے ۔ ایک مرتبہ لیاقت آباد بٹیں لینے گیا تو گوشت والے سے کہا کہ، اس میں دو تین نرخٹے بھی ڈال دو ۔ گوشت والا نے کہا ،باؤ جی ۔ بٹوں کے خاندانی کھانے والے لگتے ہو ،اس جملے پر بٹ بٹا کر رہ گئے ۔ اگر آپ بٹوں میں نرخٹے ڈال دیں تو اس کے چھلے بٹیں کھانے کا مزا دوبالا کردیتے ہیں ۔

بٹوں سے دیوانگی کا واقعہ بھی سن لیجئے ۔ لاہور دفتری کام سے گئے ۔ شہر میں ایک ہوٹل پر بٹ ہاؤس لکھا دیکھا ۔ طبیعت مچل مچل گئی ۔ سوچا کام سے فارغ ہوکر یہیں آئیں گے ۔ بڑی اشتہا انگیز بھوک کے ساتھ وہاں پہنچے ۔ ویٹر سے کہا کہ، ایک پلیٹ بٹ لے آؤ ۔ وہ ہونقوں کی طرح ہمیں دیکھنے لگا ۔ بولا ،جی وہ تو اس وقت نہیں ۔

میں نے حیرت سے کہا ،تو بھائی لکھ کر کیوں لگایا ہے ؟ ویٹر کے چہرے پر کچھ عجیب ہی تاثرات تھے ،لکھ کر کیوں نہ لگائیں جی ۔ سارا خرچہ انہوں نے کیا ہے ، آپ عجیب آدمی ہو ان کو پلیٹ میں مانگ رہے ہو ۔ پھر میرے دماغ نے کام کیا کہ بٹ صاحب ہوٹل کے مالک کا نام ہے۔ اب پتہ نہیں بٹ ہاؤس ہے بھی کہ نہیں ۔ میں سالوں پرانی بات کر رہا ہوں ۔

……گوار کی پھلی……

وہ سبزی ہے،جسےکبھی کھانے کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا وہ اب سامنے تھی اور کہہ رہی تھی ، پہلے بڑی ہری ہری سوجھتی تھی اب عمر کی نقدی کم ہوئی تو آگئے اوقات میں ۔ اس وقت ہماری سب سے پسندیدہ سبزی وہی ہے جو بقول شخصے گائے کا چارہ یعنی گوار کی پھلی ہے ۔ کسی نے ایک دن کہہ دیا کہ گوار کی بھلی میں فائبر ہوتا ہے جو پیٹ کے لئے بہت مفید و مجرد ہے ۔ ہم نے گوار کو اگنور کرنے کا فیصلہ واپس لیا ۔ اگر آپ گوار کی پھلی پکانے کے آخر میں تھوڑا سا تل ڈال دیں تو پھر اس کا کرپسی مزا دیکھیں۔

……کدو کا رائتہ ……

قیامت کی نشانی ہے کہ ہم کدو کا رائتہ کھائیں مگر کیا کریں عمر کی نقدی کم ہونے لگے تو یہ ادھاری کھانے کھانا پڑتے ہیں ۔ اب کدو کو قابل رشک بنانے کے لئے زیرے ، کڑی پتے کا بھگار کرا کے بڑے مزے مزے لے کر کھاتا ہوں ۔ گھر والے کہتے ہیں کہ اس کی تاثیر ٹھنڈی ہے ،مگر میں کہتا ہوں یہ سارا کھیل عمر کی نقدی کا ہے ۔

……دیگر سبزیاں……

پہلے پالک کو ہاتھ نہ لگاتے تھے ۔ اب " لے پالک " ہوگئے ہیں ۔ لوکی کو دیکھتے ہی کہتے ہیں : لو جی ہم کھا رہے ہیں ۔ توری کو دیکھ کر توری بلائیں لینے کو دل چاہتاہے ۔ شملہ مرچیں پسند نہ آنے کی واحد وجہ شملہ معاہدہ ہے ،جس سے آج بھی تلخ یادیں وابستہ بلکہ پیوستہ ہیں ۔ چقندر جتنا لال ہے ہم اسے اپنے سامنے پا کر اس سے زیادہ لال ہو جاتے تھے، مگر جب سے سنا ہے کہ یہ خون بناتا ہے ہم نے خون جلانا چھوڑ دیا ہے ۔ ٹینڈے سے ہماری یاری کبھی نہ ہو پائے گی ۔ بچپن میں شہر سے باہر ایک فوتگی میں گئے اور چہلم تک رکنا پڑ گیا۔

وہاں ایک وقت ٹینڈے پکنا لازمی تھے ۔ ٹینڈے کا سوگوارانہ ذائقہ ہمارے ذہن سے جاتا نہیں ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب ہم اتنے چٹورے ہیں تو کچھ پکانا بھی آتا ہوگا تو یقین جانیں لچ تلنا ، ،رائی کا پہاڑ بنانا ، چھاتی پر مونگ دلنا اور خیالی پلاؤ پکانا ہمارا وصف خاص ہے ۔ باتوں کے ایسے ایسے متنجن بناتے ہیں کہ لوگ منہ پیٹتے رہ جائیں ۔

پہلے کیفے عزمی ہر وقت کھلا رہتا تھا، مگر اب دن میں تین مرتبہ کھلتا ہے ، وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے ۔ کیا کیجئے کہ اب خوف کھائے جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔ اس ایسے ویسے کے چکر میں بہت کچھ ایسا ویسا کھانا پڑ جاتا ہے ۔ بڑا فرق پڑگیا ہے پہلے کھا کر دیکھتے تھے ۔ اب دیکھ کر کھاتے ہیں۔