گھریلو تشدد کا قانون خاندانی نظام اور بچوں کی نگرانی کیلئے خطرہ

July 26, 2021

اسلام آباد (تبصرہ انصار عباسی) گھریلو تشدد کے قانون 2021ء میں ’’گھریلو تشدد‘‘ کی تعریف مبہم اور غیر واضح ہے اور اس سے معاشرے میں قائم خاندانی نظام اور بچوں پر والدین کے کنٹرول کو سنگین نقصان ہوگا۔ ’’جسمانی تشدد‘‘ کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں جو کہ بل میں توجہ کا مرکز ہونا چاہئے تھا تاکہ کسی بھی گھر میں خواتین، بچوں، بوڑھے والدین، ملازمین یا دیگر کمزور افراد کیخلاف جسمانی تشدد کے رجحانات کو کنٹرول کیا جا سکے۔ لیکن، تشدد کی تعریف میں ’’جذباتی‘‘، ’’نفسیاتی‘‘، ’’زبانی‘‘ اور ’’معاشی‘‘ جیسے الفاظ شامل کرکے قانون میں اس کی تشریح کا دائرہ اس قدر وسیع کر دیا گیا ہے کہ اس سے خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا اور والدین کیلئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی ناممکن ہو جائے گی۔ یہ بل قومی اسمبلی نے منظور کر لیا ہے اور بعد میں چند ترامیم کے ساتھ سینیٹ نے بھی اسے منظور کرلیا۔ اب یہ بل ایک اور توثیق کیلئے قومی اسمبلی میں موجود ہے کیونکہ اس میں سینیٹ نے کچھ تبدیلیاں کی ہیں، تاہم سنگین تنازع کے بعد وزیراعظم عمران خان نے یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل فیصلہ کرے گی کہ بل کے کون سے حصے غیر اسلامی ہیں، حکومت اور ساتھ ہی انسانی حقوق کی وزارت میں بھی اب اس بات کا احساس موجود ہے کہ ’’گھریلو تشدد‘‘ کی وسیع اور مبہم تعریف کے معاشرے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اسلئے قانون پر نظرثانی ہونا چاہئے۔ وزارت انسانی حقوق فی الوقت اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ رابطے میں ہے اور کونسل حکام کے ساتھ ملاقاتیں کی جا رہی ہیں تاکہ قانون کو سب کیلئے قابل قبول بنایا جا سکے اور اس میں توجہ جسمانی تشدد پر مرکوز رکھی جائے نہ کہ ’’جذباتی‘‘، ’’نفسیاتی‘‘، ’’زبانی‘‘ اور ’’معاشی‘‘ تشدد پر۔ بل میں جس انداز سے تشدد اور مار پیٹ کی تعریف بیان کی گئی ہے اس سے خاندانی نظام اور والدین کا کے بچوں پر کنٹرول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بل کے سیکشن تھری بی میں لکھا ہے کہ جذبات، نفسیاتی اور زبانی تشدد کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ شخص مدعا علیہ کے توہین آمیز رویے کا سامنا کرے اور اس میں یہ باتیں شامل ہیں، ۱) حد سے زیادہ حسد کا اظہار جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کی نجی زندگی، آزادی، ساکھ اور سلامتی متاثر ہو، ۲) متاثرہ شخص کی توہین کی جائے یا اس کا براہِ راست مذاق اڑایا جائے، ۳) شریک حیات یا اس کے اہل خانہ کو جسمانی تکلیف پہنچانے کی دھمکی دینا ۴) پاگل پن یا بانجھ پن کے بے بنیاد الزامات عائد کرکے دوسری شادی یا پھر طلاق کی دھمکی دینا، ۵) گھر میں کسی بھی خاتون یا کسی بھی رکن کے کردار پر بے بنیاد الزامات عائد کرنا، ۶) جان بوجھ کر یا کوتاہی کرکے متاثرہ شخص کو چھوڑ دینا، ۷) چھپ کر تعاقب کرنا (تاڑنا)، ۸) ہراساں کرنا، ۹) اہلیہ کو غیر مرد کے ساتھ تعلق رکھنے پر مجبور کرنا۔ مذکورہ بالا شقوں کی موجودگی میں والدین یا خاندان کے کسی رکن کیلئے یہ مشکل ہو جائے گا کہ اگر ان کے خاندان میں کوئی شخص رات دیر تک گھر سے باہر رہتا ہے، شراب یا نشہ کرتا ہے، گھر میں نہیں بیٹھتا، رات دیر تک پارٹیوں میں جاتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے بچوں یا خاندان کے کسی رکن کو بغیر جسمانی مار کے ان میں نظم و ضبط لائیں، یا یہ دیکھنے کیلئے ان کے پیچھے جائیں یا نگرانی کریں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی گھر سے باہر کہاں کہاں جا رہا ہے۔ والدین یا گھر کا کوئی رکن اس صورت مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے جب ان کا بیٹا یا بیٹی یہ سمجھنے لگ جائے کہ اسے جذباتی، نفسیاتی یا زبانی لحاظ سے والدین کے خراب رویے کا سامنا ہے تو ایسی صورت میں ان کی ’’نگرانی‘‘ تبدیل ہو کر ’’تعاقب‘‘ بن جائے گی۔ والدین کو اس صورت میں اپنے بیٹے یا بیٹی کی ’’نجی زندگی‘‘ یا ’’آزادی‘‘ میں مداخلت کرنے والا شخص سمجھا جائے گا جب ان کی اولاد نظم و ضبط لانے کی اُن کی کوشش کو قانون کی خلاف ورزی سمجھنے لگے۔ اگر والد، والدہ یا بڑا بھائی یا بہن ڈانٹ دے تو یہ بھی اُس وقت جرم بن جائے گا جب بیٹا یا بیٹی اسے ’’توہین یا مذاق اڑانا‘‘ سمجھ لے۔ ’’جسمانی تکلیف پہنچانے کی دھمکی‘‘ بھی قانون میں شامل ایسی بات ہے جس کا استحصال یا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی تشدد نہ بھی ہوا ہو اور صرف یہ کہا جائے کہ ’’میں تمہیں ماروں گا‘‘ تو یہ بھی تشدد کے زمرے میں آ جائے گا جس کی سزا تین سال قید ہے۔ بدقسمتی سے، معاشرے میں کردار سازی کا میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے عوام اور گھروں میں کھلے عام زبانی بد گوئی (گالیاں) بہت زیادہ ہے۔ مہذب رویہ اختیار کرنے کیلئے کردار سازی پر توجہ دینے کی بجائے اس بات کو جرم بنا دینا بھی معاشرے میں خاندانی نظام کو تباہ کر سکتا ہے۔