ہاتھ سے لگائی گئی گرہیں

August 04, 2021

ایک دفعہ مائنڈ سائنسز کے ایک بہت بڑے ماہر ایک ٹی وی پروگرام میں غصے پر قابو پانے کی مشق کرا رہے تھے ۔ ان کا براہِ راست پروگرام مسلسل تین روز نشر ہونا تھا۔ جب سارے اصول بتا چکے تو آخری دن ایک لائیو کال لی گئی ۔ فون کرنے والے نے چھوٹتے ہی یہ کہا: ڈاکٹر صاحب یہ ساری گھسی پٹی باتیں جو آپ نے بتائی ہیں ، کسی کام کی نہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مائنڈ سائنسز کا ماہر اپنی باتوں پر عمل کرتے ہوئے مسکرا دیتا۔ الٹا وہ بھڑک اٹھا۔ فون کرنے والے کو اس نے بے نقط سنائیں۔ اتنی گرما گرمی ہوئی کہ ٹی وی میزبان کو وقفہ کرنا پڑا۔ یہ ہوتاہے غصہ، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہلوان کو زیر کرنا آسان ہے ، غصے پہ قابو پانا مشکل۔

غصے میں انسان کی سوچ کا محور یہ ہو جاتا ہے کہ ہر صورت اسے اپنے سامنے موجود شخص کو غلط ثابت کرنا ہے۔ مخاطب اگرکوئی اجنبی ہے تو اتنی پریشانی کی بات نہیں۔ اصل مسئلہ تب بنتاہے، جب وہ آپ کے بیوی بچوں ، ماں باپ اور بہن بھائیوں میں سے ہو۔آپ جتنا اسے غلط ثابت کریں گے ، بعد میں ہاتھوں سے لگائی گئی یہ ساری گرہیں آپ کو دانتوں سے کھولنا ہوں گی ۔ غصے کے دوران انسان ایسی باتیں بھی کرتاہے ، بعض اوقات اس کا اپنا دماغ بھی جنہیں غلط مانتا ہے لیکن انا آڑے آجاتی ہے ۔ رشتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ میاں بیوی میں طلاق ہو جاتی ہے۔ وہ بہت پچھتاتا ہے ۔

بے عقلی کی بات پر انسان کو فوراً غصہ آتا ہے ۔ یہ غصے کی وہ وجہ ہے، سب سے زیادہ، جس میں بڑی عمر کے لوگوں پر غصہ آتا ہے۔ عمر رسیدہ لوگ بعض اوقات بچّوں کی سی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اس کا حل عقل میں ہے۔ جب آپ کی عقل آپ کو یہ بتائے گی کہ آج سے چالیس سال پہلے جب آپ بچّے تھے توآپ بھی بے عقلی کی باتیں کرتے تھے اور یہ ہنستا تھا اور آپ کی ساری ضروریات پوری کرتا تھا۔ بوڑھے افراد کی خواہش عموماً یہ ہوتی ہے کہ ان کو اہمیت دی جائے ۔ اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ اگر انہیں اہمیت دی جائے تو وہ مطمئن ہو جاتے ہیں۔والدین عموماً وہ سوال کرنے لگتے ہیں، جو اولاد کی نظر میں غیر ضروری ہوتے ہیں۔ وہ غیر ضروری طور پر ہر معاملے میں بے حد احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔گاڑی تیز چلانے پر بھی وہ ڈر جاتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کی حسیات سست ہو چکی ہوتی ہیں ۔

غصے کی حالت میں دماغ کا جذبات والا حصہ عقل والے حصے پر غلبہ پا لیتا ہے۔ اس وقت وہ تمام تر انسانی عقل کو اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے ۔ انسان دوسروں کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا تا ہے ،حالانکہ زندگی میں اسے اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ زندگی میں 90فیصد وقت ہمیں دوسروں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی ذات کے ساتھ ڈیل کرنا ہوتا ہے۔ کسی شخص میں اگر ہزاروں خامیاں بھی موجود ہوں تو وہ ہماری خوبیوں کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ ایسے شخص سے لڑائی جھگڑے میں ہم اپنی توانائی تو ضائع کر سکتے ہیں لیکن کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتے۔

آپ کے خیال میں، غصہ دلانے والے لوگ اور مواقع ہماری زندگیوں میں نتھی کیوں کر دئیے گئے ہیں؟ اس لئے کہ ان صبر آزما حالات میں انسان کی آزمائش چھپی ہوتی ہے۔ اگر غصہ پیدا کرنے والے حالات میں انسان کچھ دیر صبر کر لے تو یہ ختم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم غصے کی حالت میں اپنا ردّعمل ظاہر کر دیں تو پھر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ دوسرا شخص بھی اپنا بھرپور ردّعمل دیتا ہے۔

غصہ مسکینوں اور کمزوروں پر زیادہ آتا ہے۔ جو شخص زیادہ خوبصورت، زیادہ مالدار، زیادہ طرح دار یا سمجھدار نظر آتا ہے، اس پر غصہ بہت کم آتا ہے بلکہ اس کے مقابل نفس اپنے اندر کمتری محسوس کرتا ہے۔ ہو سکتاہے کہ وہ اس سے حسد محسوس کرے اور ہو سکتاہے کہ وہ اس سے بہتر نظر آنے کی کوشش کرے لیکن ایسے شخص پر غصہ نہیں آتا۔ اس کے برعکس جس شخص میں کم عقلی، بد صورتی اور کمتری کے دوسرے مظاہر نظر آرہے ہوں اور وہ بیچار ا مسکین آپ سے ایک معصوم سا سوال بھی پوچھ لے تو ایک دم غصہ آتا ہے۔

انسانی نفس غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے کہ قدرت کی نفیس ترین تخلیق یعنی ہمارا دماغ اس کے تصرف میں ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بہت پیچیدہ حساب کتاب بھی با آسانی کر لیتا ہے۔ اسے اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ کون مجھ سے کمتر ہے اور کون مجھ سے برتر۔ لیکن ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نفس انسان کو مشکل میں ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کی ساری ذہانت سطحی ہوتی ہے۔ اصل راستہ، اصل چابی عقل ہی کے پاس ہوتی ہے۔ ایک عالی دماغ نے یہ کہا تھا: عافیت گمنامی میں ہوتی ہے، گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں۔ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں اور خاموشی بھی نہ ہو (خاموش رہنا بھی ممکن نہ ہو)تو پھر صحبتِ سعید میں۔ ویسے عملی طور یہ ممکن نہیں کہ انسان کو ہمیشہ گمنامی،تنہائی، خاموشی اور چپ رہنے کا آپشن میسر ہو۔

جتنی دیر دماغ غصے میں رہتاہے ،اتنی دیر یہ سخت تکلیف میں ہوتا ہے ۔ اس پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ غصے کا اظہار کرنے کی بجائے اسے پی جائیں ، خاص طور پر اپنے اہلِ خانہ کے سامنے۔ اگر آپ نے اس کا اظہار کر دیا تو پھر دماغ میں کیمیکلز کا اخراج رکے گا نہیں کہ انسان کی انا اس کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے اور اپنی غلطی ماننے نہیں دیتی ۔ یوں وہ اپنا باقی رہنے والا نقصان کر بیٹھتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)