مٹی سے محبت

August 21, 2021

حنیف عابدؔ

گزشتہ روز عائشہ کے گھر میںمہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ رات کو دیر سے سوئی تھی۔ جب اس کی امی نے صبح اسے اٹھایا تو وہ اٹھنے میں آنا کانی کرنے لگی ۔ کافی کوشش کے باوجود بھی جب وہ نہیںاُٹھی تو اس کی امی نے اسے سونے دیا ۔ دس بجے کے قریب عائشہ اٹھی تو اپنی امی سے کہنے لگی آپ نے مجھے نہیںاُٹھایا، اسکول کی چھٹی ہوگئی ۔عائشہ کی امی نے غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اٹھانے کے جتنے طریقے مجھے آتے تھے میںنے سب استعمال کیے تھے ،لیکن تم اٹھی ہی نہیں۔کوئی نیا طریقہ ہو تو مجھے بتادو، آئندہ ویسے ہی اٹھا دیا کروںگی۔

عائشہ یہ سن کر شرمندہ ہوئی لیکن کچھ بولی نہیںچپ چاپ کچن میںچلی گئی ۔رات کا کھانا ختم کھانے کے بعد جب سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے کہ عائشہ نے امی کو بتایا کہ اسے کچھ چیزیںچاہئیںآپ کل لادینا۔ اس کی امی نے پوچھا، کون سی چیزیںچاہئیں؟ عائشہ نے ایک کاغذ اپنی امی کی جانب بڑھا دیا۔ انہوںنے کاغذپر ایک نظر ڈالنے کے بعد پوچھا ان چیزوںکی تمہیں کیا ضرورت پڑ گئی ؟عائشہ نے بتایا کہ جشن آزادی کا دن تو گزر گیا لیکن اب اسکول میںایک تقریب منعقد ہوگی ، جس میںہر کلاس اپنا اپنا پروجیکٹ،ماڈلکی صورت میں پیش کرے گی ۔

عائشہ کی امی نے یہ سن کر خاموشی اختیار کرلی اور کاغذایک جانب رکھ دیا ۔اگلے دن شام ہوتے ہی عائشہ کو اس کی فہرستکے مطابق تمام سامان مل گیا۔ وہ اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی اور اپنی امی کے گلے لگ گئی ۔اس کی امی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ جائو اپنا پروجیکٹمکمل کرو۔ عائشہ سامان اٹھا کر اپنے کمرے میںچلی گئی ۔

تین دن تک عائشہ ضروری کام سے فارغہوتے ہی اپنا پروجیکٹمکمل کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ عائشہ کی دو اورہم جماعت بھی اس کے گھر آجاتیں،تینوںمل کر پروجیکٹ کی تیاری میںجت جاتیں۔تیسرے دن اللہ اللہ کرکے پروجیکٹ مکمل ہوگیا،جسے دیکھ کر اس کی امی نے بہت تعریف کی ۔ اسکول میںجشن آزادی کی تقریب جاری تھی،مہمان خصوصی، مہمان اعزازی سمیت اسکول کے پرنسپل و دیگر شخصیات اسٹیجپر بیٹھی تھیں۔ گراؤنڈ میں طلباء اوران کے والدین کی بڑی تعداد موجود تھی۔

اسٹیج پر اسکول کے پرنسپل سمیت کئی اساتذہ بھی بیٹھے تھے۔ اسکول کے سینئر استاد نے تقریب کے آغاز کا اعلان کیا، سب سے پہلے قومی ترانہ بجایا گیا، جسے سب نے کھڑے ہوکر گایا۔ اس کے بعد طلباء نے قومی یکجہتی کے حوالے سے ایک خوبصورت ’’ٹیبلو‘‘ پیش کیا۔ بعد ازاں اسکول کے طلباء میں تقریری مقابلہ ہوا۔ آخر میں اعلان ہوا کہ ہر کلاس کی جانب سے ماڈل پیش کیاجائے گا ۔

کلاس کا ماڈل پیش کیا گیا جسے دیکھ کر بچوںاور اساتذہ نے خوشی کا اظہار کیا ۔اب مرحلہ تھا ماڈل کی درجہ بندی کا ۔ کچھ دیر بعد اعلان ہوا کہ عائشہ کی کلاس کے ماڈل کو پہلی پوزیشن ملی ہے ۔ ماڈل کا موضوع تھا ’’مٹی سے محبت‘‘ ۔ماڈل میںکشمیر میںبھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے وادی ءکشمیر کا نقشہ بنا کر اسے خاردار تاروںکے ذریعے ڈھانپا گیا تھا جبکہ وادی کے لوگ مٹی ہاتھ میںاٹھا کر اسے اپنے زخموں پر مل رہے تھے ۔ ماڈل دیکھ کر سب حیران ہوگئے کہ کم عمر طالبات نے کتنی خوب صورتی سے کشمیر میں بھارتی مظالم کو دکھایا ہے۔ عائشہ اور اس کی دوستوں کو سب مبارک باد دیتے ہوئے ان پر فخر کررہے تھے۔