جوڑ توڑ، مسائل، کم زوریاں (پہلی قسط)

August 21, 2021

(1947ء سے 2021ء)

قوموں کی زندگی میں 74سالوں کا سفر کوئی بڑے معنی نہیں رکھتا۔ اور وہ بھی اس ملک کے لئے جس نے برصغیر کی وشال کھوکھ سے جنم لیا ہو ،جو مختلف النوع ثقافتوں کا سنگم ہو۔ اسی اسلامی مملکت کی ایک اکائی ’’صوبہ سندھ‘‘ بھی ہے، جس کی گود میں دنیا کی قدیم ترین تہذیب آنکھیں موندے سو رہی ہے اور جس کے کھنڈرات اس کی قدامت اور عظمت کے پاسبان ہیں۔

آج ایک دفعہ پھر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو سفر 14؍اگست1947سے شروع ہوا تھا وہ 74 سال گزرنے کے بعد جاری تو ہے لیکن ہم نے بحیثیت قوم اس مملکت خداداد اور ’’آزاد‘‘ ملک پاکستان کی راہ میں آنے والی کتنی رکاوٹوں کو عبور کیا ہے، یا پھر یہ کہ کتنی اور رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ راہ کے کانٹے چن لئے ہیں یا ابھی بھی ’’موروثیت‘‘ کا شربت پلاتے جائیں گے ۔

قیام پاکستان سے پہلے والا عشرہ سندھ کی سیاست میں دھڑے بندی، ذاتی مفادات کا تحفظ، اقتدارکیلئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور جوڑ توڑ کا مظہر تھا۔ جنوری 1946ء کے عام انتخابات کے بعد سندھ کے مسلمان جاگیردار اور متوسط طبقے کے عناصر کی طرف سے جوڑ توڑ ، ساز باز اور مفاد پرستی کے مظاہرے جاری رہے۔ اس تمام عرصہ میں صوبہ سندھ کی سیاست میں استحکام ناپید ہی رہا۔ حکومتوں کا روز بننا اور بگڑنا ایک معمول سا بن گیا تھا۔ دسمبر 1946ء میں سیاسی استحکام کی تلاش میں گورنر سرفرانس موڈی نے دوبارہ عام انتخابات کروائے، جس کے نتیجے میں سرغلام حسین ہدایت اللہ کی سربراہی میں مسلم لیگ کی مکمل حکومت بن گئی اور جی ایم سید کی سیاست کامیاب نہ ہو سکی۔

پیر الٰہی بخش

قیام پاکستان سے تقریباً تین ہفتے پہلے جب غلام حسین ہدایت اللہ کو صوبائی گورنر نامزد کیا گیا تو ایوب کھوڑو، پیر زادہ عبدالستار، پیر الٰہی بخش اور میر بندے علی ٹالپور میں اقتدار کی بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ قرعہ فال ایوب کھوڑو کےنام نکلا اور وہ 5؍اگست کو بلا مقابلہ پارٹی کے سربراہ منتخب ہوگئے اور 16؍اگست 1947 کو پاکستان کے نئے صوبہ سندھ میں اپنی چار رکنی کابینہ تشکیل دی گئی ،جس میں پیر زادہ عبدالستارکے علاوہ ایوب کھوڑو وزیر اعلیٰ اور باقی تین وزراء ، پیر الٰہی بخش، میر غلام علی تالپور اور قاضی فضل اللہ شامل تھے۔

میر غلام علی تالپور

سندھ کی صوبائی خود مختیاری کی دس سالہ تاریخ کی یہ بارہویں وزارت (کابینہ) تھی لیکن اس کےباوجود صوبے میں سیاسی استحکام ناپید ہی رہا۔ بااثر لوگ جن میں جاگیردار ،میروں اور پیروں کی گروہی سیاست نئے ابھرنے والے متوسط طبقے کے جائز اور ناجائز مفادات، اسلامی بھائی چارے اور مسلم قومیت کے خالی اور بے روح نعرے سنائی دیتے رہے۔ اس عرصے میں سندھی اور غیر سندھیوں کے بیچ میں حقیقی تضادات اُبھرتے دکھائی دیئے، سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ مرکزی حکومت کی دخل در اندازی صوبائی معاملات میں بڑھتی چلی گئی اور نتیجے میں صوبائی حکومتیں پہلے کی طرح بنتی ٹوٹتی رہیں۔

پاکستان بننے کے بعد 1947سے 1951 تک کا عرصہ

برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے ساتھ ہی مختلف النوع مسائل اٹھ کھڑے ہوئے،جن کا نوزائیدہ ملک کی ناتجربہ کار انتظامیہ کو نہ تجربہ تھا اور نہ ہی اندازہ۔ سب سے بڑا مسئلہ سرحد پار سے آنے والے مہاجرین کا تھا۔ یہیں سے بحران کی ابتدا ہوئی۔ وسائل کی کمی کا سامنا، انتظامی کمزوریاں، قائد اعظم کی وفات ،کراچی کو سندھ سے نکال کر مرکز سے ملانا، سندھ میں حکومتی جوڑ توڑ ،زبان کا مسئلہ… غرض کیا نہیں تھا جو لوگوں نے نہیں بھگتا ، اسی دوران آئین کی تیاری میں حائل بنیادی رکاوٹیں اور اختلاف بھی نمودار ہوئے،ساتھ ہی سازشوں کی بھی ابتدا ہو گئی۔ صوبائی خود مختاری کی باتیں بھی شروع ہوئیں۔بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لیے صوبائی حکومت کے پاس وسائل تھے، نہ ہی انتظامی آسانیاں اور نہ ہی نئے ملک کی سرحدوں میں داخل ہونے والوں کے لئے کوئی ٹھکانہ۔

اس نقل مکانی کا بوجھ پورے پاکستان پر پڑنا لازمی تھا۔لیکن سندھ پر اس کا سب سے زیادہ دبائوپڑا، جس نے اس کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مرکزی حکومت بہت سے دیگر مسائل میں گھری ہوئی تھی، جبکہ سندھ حکومت کے وسائل بہت ہی محدودتھے۔سندھ نے اپنی سرزمین پر آنے والوں کے لئے یہ حق بخوبی ادا کیا۔ گھروں کے ساتھ دل کے دروازے بھی ان پر کھول دیئے۔ دل و جان سےجو اُن سے بن پڑا، انہوں نے نئے وارد ہونے والےلوگوں سے مل بانٹ کر کھایا۔

انہیں شہروں، بستیوں اور دیہات میں آباد کیا۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ دسمبر1947تک60لاکھ مہاجر پاکستان آ چکے تھے ،جن میں سے اکثریت سندھ میں آباد ہوئی۔ اسی طرح تقریباً چھ سالوں تک شمالی ہندوستان ،دہلی ،یوپی اور سی پی سے لوگ مسلسل پاکستان آتے رہے، پاکستان کی سرحدیں اسی طرح کھلی رہیں۔ دوسری طرف سندھ سے جانے والے ہندوئوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 12لاکھ تھی۔

سندھ کے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے بعد دوسرا بڑا واقعہ 3 مئی 1948 کو پیش آیا، دستور ساز اسمبلی نے قرار داد منظور کر کے کراچی کو وفاقی حکومت کےحوالے کر کے اسے پاکستان کا دارالحکومت بنا دیا۔اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ اور سندھ مسلم لیگ کےصدر، ایوب کھوڑو تھے، جو پہلے ہی مہاجرین کی سندھ آمد اور سندھ کے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر اپنا احتجاج بار بار ریکارڈ کروا چکے تھے ۔

کراچی کو سندھ سے الگ کر کے مرکز کے حوالے کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ان کی یہ بات نہ مرکزی حکومت کو پسند آئی اور نہ ہی قائداعظم کو اور انہوں نے سندھ کے گورنر سے ایوب کھوڑو کی برطرفی کے لئے کہا۔ گورنر نےنہ صرف کھوڑو کو وزارت اعلیٰ سے برطرف کیا بلکہ ان پربدعنوانی، رشوت خوری اور بدانتظامی کے مقدمات دائرکرکے کیس ٹربیونل کےحوالے کر دیا۔ اس طرح ایوب کھوڑو پاکستان کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے جنہیں اس طرح برطرف کیا گیا۔

اس کے بعد پیش آنے والے واقعات اس طرح آگے آتے گئے کہ سندھ کے لوگوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی۔ پاکستان کہنے کو تو وفاقی جمہوری ملک تھا، لیکن عملی طور پر اسے سول اور ملٹری بیوروکر یسی کے اتحاد سے ہی چلایا جا رہا تھا۔ ایک طویل عرصے تک گورنر جنرل چودھری محمد علی ،ممتاز دولتانہ ،مشتاق گورمانی، مظفر قزلباش، ممدوٹ اور ٹوانہ خاندان ملک پر قابض رہے۔

ملک غلام محمد

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جو پہلی مرکزی حکومت بنی اس میں بھی کسی سندھی بولنے والے کو نمائندگی نہیں دی گئی۔پیر الٰہی بخش جن کو ایوب کھوڑو کی جگہ پر سندھ کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا ،دس مہینوں کے بعد انہیں بھی عہدےسے ہٹا دیا گیا، الیکشن ٹربیونل نے نااہل قرار دیااور انہیں یہ نشست چھوڑنی پڑی۔صوبہ سندھ اسی طرح ان تبدیلیوں اور موقع پرستی کے زیر اثر اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف رہا۔ مرکزی حکومت کی جا بے جا مداخلت اور کئی دوسرے اسباب کی وجہ سے صوبائی وزارتیں پہلے کی طرح بنتی اور گرتی گئیں۔

ایوب کھوڑو کی وزارت اعلیٰ شاید تاریخ کی سب سے مشکل وزارت تھی جس میں بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل حکومت کے لئے ایک بڑی آزمائش میں مبتلا تھے۔ ایوب کھوڑو اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کے درمیان ناچاقی، بے اعتمادی اور کھنچائو بڑھتا چلا گیا۔ اور سندھ میں انہیں لوگوں اور مخالف سیاستدانوں کی طرف سے اس دبائو کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ سندھ کے مفادات کا موثر طور پر دفاع نہیں کررہے ہیں۔ بے انتہا کھینچا تانی، اندرونی سازشوں اور دبائو کے نتیجے میں 26؍اپریل 1948ء کو ایوب کھوڑو کو صوبے کی وزارت اعلیٰ سے علیحدہ ہونا پڑا، پھر تو گویا ٹرین ہی چل پڑی اور تو چل میں آیا کے مصداق ایک کے بعد ایک وزارت بنتی گئی، ٹوٹتی گئی سندھ کے مسائل جوں کے توں رہے۔ اس کے بعد پیر الٰہی بخش کو صوبے کی قیادت سونپی گئی۔

پیر الٰہی بخش کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ بناکر سندھ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ قرارداد22؍مئی کو وزیر داخلہ خواجہ شہاب الدین نے آئین ساز اسمبلی میں پیش کی۔ ظاہر ہے اس پر ردعمل تو آنا ہی تھا۔ سندھ اسمبلی کے ممبر ہاشم گزدر نے اس کی مخالفت میں نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ، سندھ کے لوگوں کی رائے معلوم کئے بناء یہ فیصلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 1940ء کی قرارداد لاہور کے بالکل خلاف ہے۔ اس طرح یہ اقدام صوبے کو وعدے کے مطابق صوبائی خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ سے محروم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ 22؍ جولائی کو گورنر جنرل کی طرف سے وفاقی دارالحکومت کے بارے میں آرڈیننس جاری کیا گیا اور 23؍جولائی کو کراچی شہر قانونی طور پر پاکستان کا مستقل دارالحکومت بن گیا۔اس کے بعد باقی ملک کے ساتھ سندھ میں بھی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگیا۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ’’پبلک اور نمائندہ عہدوں پر نااہلیت‘‘ کا بل (Public and Representation Office Disqualification Bill) جو بعد میں ’’پروڈا‘‘ (Proda) کے نام سے مشہور ہوا، جس کے تحت نااہل ہوجانے والے افراد گورنر جنرل کے حکم کے تحت دس سال تک، مرکزی یا صوبائی وزیر، نائب وزیر ،پارلیمانی سیکرٹری یا صوبائی اور قومی قانون ساز اسمبلی کی ممبر شپ کے لئے ناموزوں ہوں گے۔ ناموزونیت میں رشوت خوری، اقربا پروری، بدانتظامی جیسے غیرقانونی کام بھی شامل تھے۔4 جنوری کو گورنر شیخ دین محمد نے سابق وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو کے خلاف بدانتظامی، بداعمالی اور رشوت خوری کے سلسلے میں تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔

پروڈا کی منظوری کے کچھ ہی دنوں کے بعد نہ صرف ایوب کھوڑو بلکہ وزیراعلیٰ پیر الٰہی بخش کے اُوپر بھی تلوار بن کر لٹک گیا۔ لیکن پیر الٰہی بخش اس تلوار سے تو نہ کٹے لیکن ایک انتخابی عذرداری کے سلسلے میں ٹریبونل کا فیصلہ جو اُن کے خلاف آیا، اس کی وجہ سے انہیں استعفیٰ دینا پڑا اور ان کی جگہ غلام علی تالپور عارضی وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس کے بعد یوسف ہارون سندھ کے وزیراعلیٰ بنے ، ان کی حلف برداری 18 فروری 1949ء کو حیدرآباد میں ہوئی۔وقت کے ساتھ ساتھ سندھ میں سیاسی ہنگامہ آرائی جاری رہی۔

سندھ مسلم لیگ کی کاروباری کمیٹی اور کونسل کے ہنگامہ خیز جلسوں کے اندر سے آنے والی خبروں سے یہ راز آشکار ہوئے کہ ایوب کھوڑو کے اقتدار کا سُورج صرف کچھ مہینے تک گرہن میں رہنے کے بعد دوبارہ سے نمودار ہو کر چمک رہا ہے۔ ایک طرح سے یوسف ہارون پوری طرح ایوب کھوڑو کی پالیسیوں پر عمل پیرا تھے اور ان کی مرضی کے خلاف وہ کوئی بھی قدم نہیں اُٹھاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یوسف ہارون اپنی چھ مہینے کی وزارت کے دوران سندھ کے جاگیرداروں کا اعتماد حاصل نہیں کر پائے تھے اور وہ اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان کی مرکزی حکومت کی آشیرواد ہی چاہتے تھے۔ دُوسری طرف ایوب کھوڑو کسی نہ کسی صورت اس کا تختہ اُلٹنے کی تاک میں تھے۔

ایوب کھوڑو

یہ اور اس طرح کے کئی اور واقعات، یوسف ہارون اور کھوڑو کے درمیان تضادات کا محرک بنے۔ یوسف ہارون کی مرکز سے قربت سندھ کے جاگیردار اور متوسط طبقوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی، مزید حالات اس لئے بھی خراب ہوتے گئے کہ لیاقت علی خان نے 23 مئی 1948ء کو کراچی کی سندھ سے علیحدگی کا پورا معاوضہ دینے کا جو اعلان کیا اُس کی تکمیل نہیں کی گئی تھی۔

سندھ کے سیاست دانوں کا روٹھنا اور من جانا جاری رہا، یہاں تک کہ یوسف ہارون نے تیسری مرتبہ بھی اپنی وزارت بنا لی، جس میں کھوڑو گروپ کےبھی کچھ ممبران شامل کئے گئے۔ یہ وزارت 19 جنوری 1950ء کو بنی، ایسا لگا کہ ان دونوں کی مصالحت مستقبل میں دوبارہ کسی تبدیلی کا پیش خیمہ بننے والی ہے، یہ اس لئے بھی ہوتا نظر آنے لگا کہ’’ ہاری تحریک ‘‘میں شدّت آنے کے بعد جاگیرداروں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ایوب کھوڑو نے سندھ کے لوگوں کے مفادات کو پس پشت ڈال کر لیاقت علی خان کے پروگرام کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران ایوب کھوڑو ،ہاری تحریک کے محرکین کی گرفتاریوں میں پیش پیش رہے۔ لیکن 20 مارچ 1950ء کومیں سندھ چیف کورٹ کے جج حسن علی آغا نے پروڈا کے تحت ایوب کھوڑو کی گورنر جنرل کے حکم سے کی جانے والی نااہلی کو غیرآئینی قرار دے دیا۔ یہ حکم نامہ ایوب کھوڑو کے لئے گویا ’’ٹارزن کی واپسی‘‘ کے مصداق تھا اور یوسف ہارون کی وزارت کا جانا کسی بھی وقت متوقع تھا۔

یوسف ہارون

سندھ کی سیاسی تاریخ میں 1950ء سے لے کر مارچ 1955ء تک کا وہ دور ہے جو اندرونی سازشوں، پل پل میں بدلتی وفاداریوںاور جاگیرداروں کے مفادات کا ہر قیمت پر دفاع کرنے والا تھا۔ اس موضوع پر پروفیسر اعجاز احمد قریشی، شیخ عزیز، حسن جعفر زیدی، محمد ابراہم جویو، فضل سلیمان قاضی اور بہت سے محققین نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ہم مزید تفصیل میں جائے بغیر صرف ان مسائل کا ذکر کریں گے، جن کی وجہ سے سندھ کی سیاست پر منفی یا مثبت اثرات پڑے۔

1950ء سے 1955ء کا دور سندھ کی سیاست کا ایک پُرآشوب دور کہا جا سکتا ہے، جس میں پلک جھپکتے وزارتیں بنتی اور بگڑتی رہیں، اس میں یوسف ہارون کی تین وزارتیں، ون یونٹ بنانے کی تجویز،سازشوں کا آغاز ، سندھی، مہاجر بڑھتے تضادات، مہاجر کنونشن اور آل سندھ کنونشن کا انعقاد، مسلم لیگ کی مرکزی اورصوبائی لیڈروں میں محاذ آرائی، ایوب کھوڑو کا سندھ کی سیاست میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا کردار (جس کا ہدف ہر صورت اقتدار کا حصول ہی رہا)، جی۔ایم۔ سیّد کا حکومت مخالف سیاست میں متحرک ہونا، ہاری تحریک اور جاگیرداروں کا آپس میں گٹھ جوڑ ،کھوڑو کا ہاریوں کے خلاف سخت گیر رویہ، انتخابات میں دھاندلیاں، لیاقت علی اور ایوب کھوڑو کا آپس میں گٹھ جوڑ، آئین ساز اسمبلی میں مہاجر سیٹوں کا انتخاب، جی ایم سیّد اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی ناکامی، قاضی فضل اللہ کی وزارت کا خاتمہ اور کھوڑو کے لئے وزارت اعلیٰ کے حصول کے لئے راہ آسان، آنے والے انتخابات کے پیش نظر، وزیراعظم لیاقت علی اور ایوب کھوڑو کی جاگیردارانہ جوڑ توڑ، اسی دوران وزیراعظم لیاقت کا قتل، پاکستان کی سیاست کو ایک بڑا دھچکا، مولویوں کا جاگیرداری نظام کے حق میں فتوے وغیرہ، اسی سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دور اندرونی محاذ آرائی اور سودے بازی کی سیاست کا بدترین دور تھا،جس میں مرکزی سیاست نے ہمیشہ منفی سیاست کی اور سندھ کے سیاست دان ایک وزارت کے لئے عوام کے مفادات کا سودا کرتے رہے۔

اس پورے تماشے کا بالآخر اختتام 15 اکتوبر 1955ء کواس وقت ہوا جب گورنر جنرل نے آرڈیننس جاری کر کے سندھ کو تین حصوں میں تقسیم کیا، جن میں خیرپور، حیدرآباد ڈویژن اور کراچی کا وفاق کے زیرانتظام علاقہ شامل تھے۔ یہ حیثیت 1970ء تک برقرار رہی جب تک ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور صوبے دوبارہ بحال ہوئے۔

مرکز میں بیٹھی بیورو کریسی اور خود غرض سیاستداں، پاکستان بننے کے کچھ ہی عرصے بعد مغربی پاکستان کے سارے صوبوں کو ملا کر، صرف دو صوبوں، مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل حکومت بنانے کے منصوبے پر کام کرنا شروع ہوگئے تھے۔ اس میں ممتاز دولتانہ، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرہ متحرک رہے۔ سندھ کے سیاستدان اس منصوبے پر گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہے، کبھی ہاں، کبھی ناں میں الجھے رہے۔

مرکزی سرکار کو عبدالستار پیرزادہ پر بھروسہ نہیں تھا، لہٰذا قرعہ فال ایوب کھوڑو کے نام نکلا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ کام ایوب کھوڑو اپنے شاطر پن سے کروا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں گورنر جنرل غلام محمد نے پیر علی محمد راشدی کو بھی اس سازش میں شریک کیا، بقول راشدی کے انہیں عبدالستار پیرزادہ کی جگہ وزارت اعلیٰ کی بھی پیش کش کی گئی لیکن وہ انہوں نے قبول نہیں کی اور محمد ایوب کھوڑو کا نام تجویز کیا۔

ون یونٹ کا بننا سندھ کی سیاست میں ایک زلزلے کا آنا تھا۔ یہ ایک واقعہ سندھ کی سیاسی تاریخ کا وہ سیاہ باب تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے صوبہ انتہائی عدم استحکام کا شکار رہا۔ سندھ کے لوگوں نے ایوب کھوڑو کو ون یونٹ میں کئے گئے کردار کی وجہ سے انہیں غدّار تصوّر کیا۔ اور اسی طرح ان کی پشت پر ساتھ دینے والے پیر علی محمد شاہ راشدی کو بھی معاف نہیں کیا۔

جب سندھ اسمبلی میں ون یونٹ کو پاس کرنے کے لئے بحث کا آغازہوا تو اس کے حق اور مخالفت میں زوردار تقریریں ہوئیں لیکن چونکہ، ایوب کھوڑو نے گروہ بندی کےذریعے اپنا کام پہلے ہی پکّا کر دیا تھا تو جب ووٹنگ ہوئی تو 98 ممبران نے بل کے حق میں اور صرف 4 ممبران عبدالحمید جتوئی، غلام مصطفیٰ بھرگڑی، پیر الٰہی بخش اور خورشید احمد شیخ نے ون یونٹ کی مخالفت میں ووٹ ڈال کر سندھ کے عوام اور تاریخ میں اپنے آپ کو سرخرو کیا۔ اسی ووٹنگ والے دن جی۔ایم۔سیّد جو اس تجویز کے سخت مخالف تھے وہ جیل میں ڈال دیئے گئے اور پیرزادہ عبدالستار بھی ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔