اکبر الٰہ آبادی اور تہذیبوں کا تصادم

September 08, 2021

اکبر الٰہ آبادی کا انتقال ۹؍ ستمبر ۱۹۲۱ء کو ہوا۔ گویا ان کے انتقال کو سو (۱۰۰) سال ہورہے ہیں ۔ لیکن سو برس پہلے اکبر نے وہ باتیں کہہ دی تھیں جن کو آج ہم اپنی آنکھوں سے ظہور پذیرہوتا دیکھ رہے ہیں ، مثلاً ان چند اشعار ہی دیکھ لیجیے، ایسا لگتا ہے کہ اکبر کھلی آنکھوں سے ہمارے آج کے معاشرے کو دیکھ رہے ہیں:

یہ موجودہ طریقے راہی ٔ ملک ِ عدم ہوں گے

نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے

نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی

نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب ِ روے صنم ہوں گے

عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ِ ملت سے

نیا کعبہ بنے گا، مغربی پُتلے صنم ہوں گے

ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہوگی

لغات ِ مغربی بازار کی بھاکا سے ضم ہوں گے

دراصل اکبر کا دور وہ تھا جب انگریزی اقبال کا سورج نصف النہار کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے انگریز حاکم بن بیٹھے تھے۔ مغربی معیارِتمد ن و ثقافت اور برعظیم پاک و ہند کے روایتی معاشرے کی اقدار میں بہت فرق تھا۔ دونوں کی دینی اقدار و معیار ِ اخلاق میں بھی تفاوت تھا ۔مسلمانوں اور ہندوئوں کا باہمی تہذیبی اختلاف اس پر مستزاد تھا۔اس سیاسی اور تہذیبی اختلاف نے پیکار اور کش مکش کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تہذیبی تصادم کا ذکرامریکی پروفیسر سیمویل ہنٹنگٹن نے تواپنے ایک مقالے اور پھر کتاب The Clash of the Civilizations میں بہت بعد میں کیا، اکبر نے اس امنڈتے طوفان کو بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔

اس تہذیبی ٹکراؤ کے کئی پہلو تھے اور دونوں تہذیبوں میں جو تضاد تھاوہ اکبر کے نزدیک الم ناک بھی تھا اور مضحکہ خیز بھی۔اس سیاسی، سماجی اور تہذیبی تصادم کی الم ناکی اور مضحکہ خیزی کو اکبر نے اپنی شاعری میں بعض علامات کے ذریعے واضح کیا اور یہ علامات انگریزی، اسلامی اور ہندو تہذیب کی طرف اشارہ کرتی ہیں، ان کی شاعری میں مثلاً مِس ،کلیسا، کونسل، اسکول، کالج، میم، گورا، ریل اورکیک وغیرہ انگریزی تہذیب کا کنایہ ہیں۔ شیخ، اونٹ ، مسجد، جمّن ،مرشد، سید وغیرہ مسلم سماج کی نمائندہ علامات ہیں اور برہمن اور گاے جیسے الفاظ ہندو معاشرے کی علامت ہیں۔ مثلاً دیکھیے کس طرح واضح کرتے ہیں کہ انگریزوں کی تہذیب میں خط لکھتے وقت سب کو ڈئیر (dear) (یعنی میرے پیارے) سے خطاب کیا جاتا ہے لیکن ہم ناواقف اور انگریز سے مرعوب لوگ کس طرح اس پر بے جا فخر کرتے ہیں(یہاں’’ مِس‘‘ سے انگریز خاتون مراد ہے):

چٹھی اُس مِس کی ہے کہ یہ جادو ہے

دل جوش ِ مفاخرت سے بے قابو ہے

ایسی پیاری اور مجھ کو پیارا لکھے

القاب میں دیکھیے تو ’’ڈیئر کلّو ُ ‘‘ہے

یہاں ’’کلّوُ ‘‘ طنزیہ ہے کہ انگریز ہمیں حقارت سے ’’کالا ‘‘ کہتا ہے لیکن ہم اسی پر نازاں ہیں کہ’’ ڈیئر ‘‘لکھ رہا ہے ۔مغربی تہذیب میں مرد وزن کا بے محابا اختلاط قبیح نہیں سمجھا جاتا جبکہ مشرق میں عشق بھی حجاب اور آداب کا پابند ہے ۔ اس تہذیبی تفاوت پر طنزیہ کہا :

میں ہوا ان سے رخصت اے اکبر

وصل کے بعد تھینک یو کہہ کر

اکبر نہ تو ترقی کے مخالف تھے اور نہ جدید تعلیم کے ۔ بلکہ وہ تو مغربی تہذیب کی اس اندھا دھند تقلید کے خلاف تھے جو انتہا پسندی کی ایک صورت تھی (یہ دوسری طرح کی انتہا پسندی ہے جس کی جھلکیاں ہم آج بھی اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں)۔ آنکھیں بند کرکے مغرب کی پیروی کرنا، مغرب کی ہر چیز کو اچھا سمجھنا، انگریزوں سے حسن ِ ظن رکھنا اور مشرق کی ہر چیز کو ناکارہ، فرسودہ اور عیب دار سمجھنا وہ خرابیاں تھیں جو انگریزی تہذیب سے مرعوبیت نے پیدا کردی تھیں۔انگریزی حکومت میں معمولی ملازمت ملنا گویا ترقی کی معراج سمجھا جانے لگا تھا۔ طنزیہ کہتے ہیں:

چھوڑ لٹریچر کو ، اپنی ہسٹری کو بھول جا

شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر ، اسکول جا

چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ

کر کلرکی کھا ڈبل روٹی خوشی سے پھول جا

اکبر علی گڑھ اور سرسید کے مخالف بھی نہیں تھے۔ بلکہ اکبر کا خیال تھا کہ علی گڑھ تحریک کے رہنما اور اس کے ماننے والے جس طرح صرف دنیاوی تعلیم کے حصول اور محض مادّی ترقی کو مقصد ِ حیات قرار دے رہے ہیں وہ نہ صرف احساس ِ کمتری کا مظہر ہے بلکہ اس کے نتائج قوم اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے نہایت تباہ کن ہوں گے۔ ترقی صرف مادّی ترقی نہیں ہوتی کیونکہ انسا ن صرف جسم سے عبارت نہیں ہے، روح بھی اس کا جزو ہے اور روحانی ترقی بھی ضروری ہے۔اکبر کا خیال تھا کہ مغربی تہذیب کو اپنانے کی صورت میں مسلمان اپنے دین سے بھی بیگانہ ہوجائیں گے ۔ انگریز ی زبان کی بالا دستی کا یوں پُر لطف انداز میں ذکر کیا:

شیطان عربی سے ہے ہند میں بے خوف

لاحول کا ترجمہ کر انگریزی میں

بر عظیم کے سیاسی حالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اکبر یہ ماننے کو تیارنہ تھے کہ ہم اپنے انگریز حاکموں کے زیر تسلط اپنی شناخت اور اپنی تہذیب کو بچا پائیں گے کیونکہ فاتح اور مفتوح کے مقاصد اور مفادات باہم متصادم ہوتے ہیں۔ اسی لیے علی گڑھ والو ں کے خیالات کے برعکس اکبر کا خیال تھا کہ حاکم اور محکوم، فاتح اور مفتوح مل کرنہیں رہ سکتے اور نہ مل کر ترقی کرسکتے ہیں اور یہ تصادم جو تہذیبوں کا تصادم ہے دراصل وہ مفادات کا تصادم ہے۔

اکبر کی شاعری درحقیقت سیاسی، سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں کے خلاف ایک حساس ، باشعوراور دردمند انسان کا ردِ عمل ہے۔ وہ کہنا چا ہتے ہیں کہ تبدیلی بُری نہیں لیکن روحانی اور اخلاقی قدروں کی تبدیلی بعض اوقات بُری قدروں کے فروغ کا باعث بن جاتی ہے ۔ اس تباہ کن تبدیلی کے مضر اثرات کو ہنسی ہنسی میں واضح کرنا اکبر نے اپنا مقصد بنالیا تھا۔ اکبر کو بڑا خوف یہ تھا کہ انگریزی تہذیب کے اثر سے مذہب کے خلاف بھی باتیں ہونے لگی ہیں :

رقیبوں نے رپٹ لکھوئی ہے جاجا کے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خد اکا اس زمانے میں

اور دیکھیے بقول ِ اکبر اس دور میں اللہ کا نام لینے والا ایک انگریز خاتون کے نزدیک کیاتھا :

وہ مس بولی ’’میں کرتی آپ کا ذکر اپنے فادر سے

مگر آپ اللہ اللہ کرتا ہے ،پاگل کا مافک ہے ‘‘

سرسید سے انھیں یہی اختلاف تھا کہ ہم انگریز کی بنائی ہوئی کسی کمیٹی یا کونسل میںرکن بن کر خوش ہیں لیکن مذہب ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے:

اسلام کی رونق کا کیا حال کہیں تم سے

کونسل میں بہت سید ، مسجد میں فقط جُمّن

لیکن اکبر کی شاعری میں صرف مقصدیت ہی نہیں ہے، انھوں شعریت اور فنی تقاضوں کا پورا خیال رکھا ہے۔ اکبر کو رعایت ِ لفظی پر جو قدرت حاصل تھی اور الفاظ و تراکیب کا جو بے پناہ ذخیرہ ان کے پاس تھا اسے انھوں نے اچھوتے انداز میں استعمال کیا ہے ۔بے پردگی پر لفظوں کے استعمال سے طنز دیکھیے:

شمشیر زن کو اب نئے سانچے میں ڈھالیے

شمشیر کو چھپایئے ، ز ن کو نکالیے

اکبر کی شاعری میں انگریزی الفاظ کا استعمال بھی غضب ہے،لیکن زبان کے خلاقانہ استعمال اور انگریزی سے مزاح پیدا کرنے کے ساتھ وہ اصل مقصد اور پیغام کو بھی وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، مثلاً :

ہر طرح اب ہے عاجزی ہم میں

اب ہمارے امام حنبل ہیں

یہاں حنبل دراصل انگریزی کے humble (یعنی عاجز و منکسر) کے معنوں میں بھی ہے اور اس طرح مسلمانوں کے لیڈروں پر بھی چوٹ کرگئے۔انگریزی لفظ ’’پائیٹی‘‘ (pietyبمعنی تقویٰ و پرہیز گاری) کا قافیہ ’’ٹی‘‘ (teaبمعنی چاے ) سے کیسے ملایا ہے :

ان کے دست ِ نازنیں سے پائی ’’ٹی ‘‘

اب کہاں باقی ہے ہم میں ’’پائیٹی‘‘

اب یہ بھی دیکھیے کہ کمان (جس میں رکھ کر تیر چلایا جاتا ہے ) اور انگریزی کے’’ کم آن‘‘ (come on یعنی آجائو) میں صوتی مشابہت کو کس مہارت سے استعمال کیا ہے :

اک ادا سے کہا مسوں نے کمان (come on)

تیر کی سی روانی ہے مجھ میں

لفظ ہیپی ( happy یعنی خوش )کو ’’ہے پی‘‘( یعنی ’’پی ہے ‘‘)کے مفہوم میں بھی یوں استعمال کیا :

جو پوچھا میں نے ہے کس طرح ’’ہے پی ‘‘ (happy)

کہا اس مس نے ’’میرے ساتھ مے پی‘‘

مختصرا ً یہی کہا جاسکتا ہے کہ بقولِ اکبر:

میں نے کہا اکبر میں کوئی رنگ نہیں ہے

کہنے لگے شعر اس کے جو سن لوتو پھڑک جائو

اس شعر کے پہلے مصرعے سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے لیکن دوسرا مصرع حقیقت بیان کررہا ہے۔