نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

September 26, 2021

عائشہ گلالئی وزیر

یہ اپنی غیر معمولی حرکات و سکنات ،غیر متوقع جوابات اورعجیب و غریب سیاسی فیصلوں سے ناپختہ ذہن کی مالک لگتی ہیں، لیکن انہوں نےکئی مرتبہ، بالخصوص قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنے اندازِ تقریر سے لوگوں کو حیران بھی کیا۔ وہ تقریر کرنے کے لیے اپنی نشست سے کھڑی ہوتیں ،تو حکومتی بینچز پر اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی کہ حکومتی رُکن ہونے کے باوجود نہ جانے وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے بارے میں کیا کچھ کہہ دیں۔

جب اپوزیشن کے ارکان تقریر کے آغاز سے قبل ان کی پذیرائی کے لیے پُرجوش انداز میں ڈیسک بجاتے ،تو اچانک ہی وہ اپوزیشن کے خلاف تقریر کردیتیں۔ ایک مرتبہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں روایتی کُلاہ اور فوجی بوٹ پہن کر آگئیں، جس پرکچھ حلقوں میں تنقید کا تو کہیں مذاق کا نشانہ بنیں۔ جی ہاں، یہ ذکرِ خیر ہے،سابق رکنِ قومی اسمبلی عائشہ گلالئی وزیرکا،جو اب لائم لائٹ سے دُورنہ جانے کہاں ہیں…!!

عائشہ گلالئی وزیر نے جامعہ پشاور سے ماسٹرز کیا اور جنوبی وزیرستان سے بطورسماجی کارکن سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ۔ ابتدا میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین سے وابستگی کے ساتھ قبائلی علاقہ جات میں کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتی رہیں، پھر سابق صدر، جنرل(ر) پرویز مشرف کی سیاسی جماعت ’’آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ سے وابستہ ہوگئیں۔

وزیر اعظم، عمران خان کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہوئے

تاہم ،اب تک کی ان کی آخری منزل، پاکستان تحریکِ انصاف ہی رہی ہے، جس نےانہیں 2013ء کے عام انتخابات میں اس وقت کے فاٹا(جنوبی وزیرستان) سے خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عائشہ گلالئی وزیر اس وقت کےفاٹا سے پہلی خاتون تھیں، جو قومی اسمبلی تک پہنچیں اور پھر قومی اسمبلی کی اُس وقت تک کی سب سے کم عُمر خاتون رکنِ اسمبلی بھی بنیں ۔

یاد رہے، 2008ءکے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین نے انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا ارادہ توکیا تھا، لیکن کم عُمر ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عائشہ گلالئی نیوز کاسٹر بھی رہی ہیں ۔وہ پی ٹی وی، پشاور سینٹر سے پشتو زبان میں خبریں پڑھتی تھیں۔ اکثر لوگ ان کی عُمر کے بارے میں متجسّس رہتے ہیں، لیکن عائشہ کا یومِ پیدائش ان کی خواہش کے باعث منظرِعام پر نہیں آسکا ۔

بادی النظر میں ان کے’’غیر معمولی‘‘ ہونے کا اندازہ اُس وقت ہوا، جب پی ٹی آئی کے چیئرمین ،عمران خان کے ایک معتمدِ خاص، دیرینہ رفیق سے متعلق انہوں نے پارٹی چیئرمین سے احتجاج کیا کہ وہ انہیں رات گئے قابلِ اعتراض ٹیکسٹ میسجز بھیجتے اور پریشان کرتے ہیں ،(چوں کہ اب وہ دنیا میں نہیں رہے، اس لیے اس حوالے سے مزید کچھ لکھنا غیرمناسب ہوگا ) لیکن بقول عائشہ گلا لئی ،شکایات اور احتجاج کے باوجود موصوف کی جانب سے پیغامات بھیجنے کاسلسلہ نہ صرف جاری رہا، بلکہ پارٹی چیئرمین نے بھی اُن کی شکایات کی طرف توجّہ نہیں دی‘‘اور عائشہ گلا لئی کے ایک قریبی ذریعے کے مطابق اسی لیے وہ سخت مشتعل ہوگئیں۔

یہاں تک کہ انتقامی جذبے کے تحت انہوں نے عمران کے معتمدِ خاص کی بجائے ،خود عمران خان ہی کو ہدف بنا لیا اور وہ الزامات ،جو ان کے دیرینہ رفیق پر لگائے تھے،خود پارٹی چیئرمین ہی پر عاید کردیئے ،جس کے نتیجے میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ،جو بعد ازاں اُن کے پی ٹی آئی سے مستعفی ہونے پر ختم ہوا۔

جس کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی بقا کے لیے ہاتھ، پائوں مارنا شروع کردیئے اور پاکستان تحریکِ انصاف (گلالئی) کے نام سے اپنی ایک الگ جماعت بنا لی اور یہ دعوے بھی کیے کہ اُن کے ساتھ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی بہت بڑی تعداد ہے، جو 2018ء کے الیکشن میں اپنے ووٹس کے ذریعے سامنے آئے گی۔اسی بات سے ان کے ’’سیاسی شعور‘‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے چار نشستوں پر خود ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور چاروں ہی سے ان کی ضمانت بھی ضبط ہوئی۔

عائشہ گلالئی ان دِنوں کہاں ہیں اور کیا کر رہی ہیں،اس بارے میں درست اطلاعات تو کسی کے پاس نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان ہی میں موجود ہیں، کوئی کہتا ہے کہ اپنے آبائی علاقے ،بنّوں میں گوشہ نشین ہیں اور کچھ افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بہن ،اسکواش کی معروف کھلاڑی ،ماریہ طور پکئی وزیر کے پاس بیرونِ مُلک چلی گئی ہیں۔

تاہم، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خوش شکل عائشہ گلالئی نے زمانۂ طالب علمی سے لے کر سوشل ورک تک کا عرصہ انتہائی پروفیشنل انداز میں گزارا، کبھی کسی تنازعے میں نہیں پڑیں، کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا، توسیاست میں آنے کے بعد ہی یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کم ازکم سیاست میں آنے کے بعد تو ان کے چہرے پر کسی نے مسکراہٹ نہیں دیکھی، حتیٰ کہ کسی تصویر میں بھی نہیں۔ بقول منیر نیازی؎کج شہر دے لوگ وی ظالم سن…کج سانوں مَرن دا شوق وی سی۔

عائلہ ملک، سمیرا ملک

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ،سردار فاروق احمد خان لغاری پاکستان کے آٹھویں صدر تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے دیرینہ اور خصوصی سیاسی قربت رکھنے والے فاروق لغاری کو، جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو ’’فاروق بھائی‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں ،محترمہ نے 1993ء میں اپنی حکومت میں صدر کے منصب پر فائز کیا ۔ اس سے قبل بھی وہ پی پی پی کی حکومت میں اہم ذمّے داریاں انجام دے رہے تھے۔ لغاری صاحب پی پی پی دَورمیں وزیرِ خارجہ اور وزیرِ خزانہ بھی رہے ۔

تاہم، صدارت کا عُہدہ سنبھالنے کے لیے انہوں نے پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا، چوں کہ فاروق لغاری ابتدا ہی سے اثر و رسوخ رکھنے والے سیاست دان تھے ،اس لیے انہوں نے اپنےخاندان کے افراد جیسے منصور لغاری، مقصود لغاری، حمزہ لغاری ، جمال لغاری اورصاحب زادے ،اویس لغاری وغیرہ کو علاقائی و پارلیمانی سیاست میں آگے آگے رکھا۔ ان کے خاندان سے نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی میدانِ سیاست میں آئیں، عائلہ ملک اور سمیرا ملک فاروق لغاری ہی کی بھانجیاں ہیں۔واضح رہے ، عائلہ اور سمیرا ملک دونوں سگی بہنیں اور نواب آف کالا باغ ملک محمّد امیر خان کی پوتیاں ہیں۔

پہلے بات کرلیتے ہیں عائلہ ملک کی ،جنہوں نے1998 ءمیں اپنے ماموں، سردار فاروق احمد خان لغاری کی زیرِقیادت ’’ملّت پارٹی‘‘ کے رکن کی حیثیت سے میدانِ سیاست میں قدم رکھا۔وہ ملّت پارٹی کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل بھی رہیں اور 2002ءسے 2007 ءتک قومی اتحاد (پاکستان) کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی رکن بھی ۔ بعد ازاں، 2011ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی چیئرمین ،عمران خان کی انتخابی مہم میں بطور پارٹی مینیجر بھی خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ عمران خان انہیں میاں والی میں اپنی آبائی نشست سے الیکشن لڑوانا چاہتے تھے، لیکن وہ 2013ء میں میاں والی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہوگئیں ۔

وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی کے ساتھ پی ٹی آئی کے جلسے میں شریک ہیں

تاہم، خواتین کی مخصوص نشست پر رکنِ قومی اسمبلی بننے میں کام یاب رہیں۔ اسی عرصے میں عائلہ ملک نے بلوچستان کے معروف سردار، یار محمّد رند سے شادی بھی کرلی، جنہوں نے اپنی روایات کے تحت انہیں با پردہ رہنے کی نصیحت کی اور اُن کی نقل و حرکت بھی محدود کردی، حتیٰ کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کرتی تھیں۔ ایک موقعے پرعائلہ ملک کو اسمبلی میں ووٹ ڈالنے آنا تھا ،تو وہ سب سے آخر میں برقعہ پہن کر پارلیمنٹ ہائوس پہنچی تھیں۔ لیکن جلد ہی قبائلی ماحول اور پابندیوں میں اُن کا دَم گُھٹنا شروع ہوگیا ، جس کا نتیجہ بعد ازاں،طلاق کی صُورت نکلا۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عائلہ ملک نے کچھ عرصہ ٹی وی اینکرنگ بھی کی ۔ وہ ایک نجی چینل پر حالاتِ حاضرہ کا ایک پروگرام پیش کیاکرتی تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ 30جولائی 2013 ءکو عائلہ ملک کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) راول پنڈی بینچ کے دو رکنی الیکشن ٹریبونل نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے انٹرمیڈیٹ کی جعلی تعلیمی اسناد جمع کروانے پر نااہل قرار دے دیا ۔واضح رہے،یہ فیصلہ ای ٹی ایل ایچ سی نے عائلہ ملک کو ضمنی انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے سُنایا تھا ۔

اگر بات کی جائے عائلہ ملک کی بہن ،خُوب رُو، سمیرا ملک کی، تو انہوں نے پنجاب یونی وَرسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں خوشاب سے قومی اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور 2004ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم، شوکت عزیز کی وفاقی کابینہ میں وزیرِ سیاحت کی حیثیت سے شامل ہوئیں۔ پھر 2008ء کے عام انتخابات میں پہلے پاکستان مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پراور 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر، این اے-69 ،خوشاب سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ سمیرا ملک وزیر برائے ترقّیِ خواتین اور وزیر ِمملکت برائے اُمورِ نوجوان کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دے چُکی ہیں۔

سابق وزیرِاعظم میاں محمّد نواز شریف کے ساتھ

اُن کی ذاتی زندگی کی بات کریں، تو سمیرا نے ملک طاہر سرفراز سے شادی کی اور انتہائی خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے شوہر ڈی ایم جی گروپ میں آفیسر ہیں اور مختلف اہم سرکاری مناصب پر بھی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ تاہم، افسوس ناک بات یہ ہے کہ عائلہ ملک ہی کی طرح سمیرا ملک کو بھی عدالتِ عظمیٰ نے 2013ء میں جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس طرح ایک بڑے سیاسی خاندان کی خواتین کا یہ حوالہ افسوس ناک ہونے کے ساتھ حیران کُن بھی ہے کہ دونوں ہی بہنیں جعلی تعلیمی اسناد کی وجہ سے سیاسی سطح پر نااہل قرار پائیں اوراب دونوں ہی سیاست سے ایسے غائب ہیں کہ نہ تو میڈیا میں سمیرا ملک کی خُوب صورتی کےچرچے ، انٹرویوز ہوتے ہیں اور نہ ہی عائلہ ملک کے قصّے گونجتے ہیں۔ (جاری ہے)