• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تہمینہ دولتانہ

تہمینہ دولتانہ کا تعلق ایک بڑے سیاسی خاندان سے ہے ،جس کا تذکرہ بہت تفصیلی ہے ۔فی الحال اس ضمن میں صرف ایک ہی حوالہ کافی ہے کہ وہ ممتاز دولتانہ سے خاندانی نسبت رکھتی ہیں ،جو برٹش راج میں تحریکِ پاکستان میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور آزادی کے بعد مغربی پاکستان کے دوسرے وزیرِ اعلیٰ بنے۔

پنجاب کے علاقے ،وہاڑی سے تعلق رکھنے والی تہمینہ دولتانہ کی شادی 1993ء میں زاہد انور واہلہ سے ہوئی ،جو مقامی سطح کی سیاست میں انتہائی سرگرم تھے، مگر بد قسمتی سے 2009ء میں کینسر کے عارضے میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے۔ ان کے ایک صاحب زادے، میاں عرفان عقیل دولتانہ پنجاب اسمبلی کے رُکن بھی رہے۔ تہمینہ دولتانہ نے 1987ء میں پاکستان مسلم لیگ (نون) میں شمولیت اختیار کی ۔

انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ مسلم لیگ (نون) کی خواتین اور یوتھ وِنگ کی جنرل سیکرٹری مقرّر ہونے والی پہلی خاتون تھیں، بعد ازاں،انہیں وائس پریزیڈنٹ بھی بنایا گیا۔ قومی و بین الاقوامی ممالک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التّحصیل تہمینہ ، 1993ء میں پہلی مرتبہ، 1999ء میں دوسری مرتبہ،2007ء میں تیسری مرتبہ اور 2008ء میںچوتھی مرتبہ قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں ۔ قومی اسمبلی میں اُن کی کارکردگی اور سرگرمیوں کا اختصار سے جائزہ لیا جائے، تو انہیں بلا شبہ ایوان کی ’’دبنگ خاتون‘‘ قراردیا جاسکتا ہے۔

نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز شریف کے ساتھ ایک یاد گار تصویر
نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز شریف کے ساتھ ایک یاد گار تصویر

جب سردار فاروق خان لغاری نے بطور صدرِ مملکت میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیااور پاکستان مسلم لیگ (نون) اپوزیشن بینچز پرجابیٹھی، تو اُن دِنوں پاکستان مسلم لیگ (نون) انتہائی جارحانہ انداز میں سیاست کررہی تھی۔ ایک روز سردار فاروق لغاری بحیثیت صدر،پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے تھے ،جب کہ دوسری جانب ان کا خطاب ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کی حکمتِ عملی تیار کرلی گئی تھی ، جس میں سب سے موثر اور اہم کردار تہمینہ دولتانہ نے ادا کیا۔ 

مریم نواز کے ساتھ خوش گوار موڈ میں
مریم نواز کے ساتھ خوش گوار موڈ میں

صدر لغاری نے جونہی خطاب شروع کیا، تو اپوزیشن بینچز کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تہمینہ دولتانہ اُٹھیں اور روسٹرم کی جانب تیزی سے بڑھیں، اس سے قبل کہ متعلقہ اسٹاف یا حکومتی ارکان انہیںروکتے ، صدر لغاری کے تقریباً سامنے پہنچ کر پہلے اپنی چوڑیاں روسٹرم کی طرف اُچھالیں، پھر اپنا دوپٹا بھی اُتار کر پھینک دیا۔ گوکہ اس حرکت پر ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ، لیکن گالم گلوچ اور دست و گریبان ہونےکا جو سلسلہ اب چل نکلا ہے، وہ اُس دَور میں نہیں تھا۔ تہمینہ دولتانہ کے اس انداز کو اپوزیشن کی جانب سے انتہائی جرأت مندانہ اقدام قرار دیا گیا ۔

دوسرا واقعہ سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دَور کا ہے۔ مشرف کو صدرِ پاکستان کی حیثیت سے آئینی و پارلیمانی تقاضوں کےتحت پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا، لیکن وہ منتخب صدر نہیں تھے کہ وہ عوام کے ایک منتخب کردہ وزیر اعظم، میاں نواز شریف کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایوان میں جمہوری سوچ کے حامل کچھ ارکان توان کے اس عمل کے مخالف تھےہی، لیکن پاکستان مسلم لیگ (نون) تو شدید اشتعال کا شکار تھی۔

پارٹی کے سینئر کارکنان کی ہم راہی میں
پارٹی کے سینئر کارکنان کی ہم راہی میں

سو، پی ایم ایل (این)کے ارکان نے ’’باغی جرنیل‘‘ کو ایوان میں سبق سکھانے کا پروگرام بنایا اور اس مقصد کی تکمیل میں تہمینہ دولتانہ پیش پیش تھیں۔دوسری جانب، جرنیل صدر کی سیکیوریٹی ایجنسیزکو خصوصی ہدایت کی گئی تھی کہ تہمینہ دولتانہ پر گہری نظر رکھی جائے اور انہیں کسی صورت صدر کی تقریر کے دوران روسٹرم کی طرف نہ جانے دیا جائے۔ تاہم، تہمینہ دولتانہ نے اپنی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر پہلے سےاسلام آباد میں قیام سے گریز کیا اور تقریر والے دن صبح کی پہلی پرواز سے لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئیں، تاکہ چکلالہ ائیرپورٹ سے براہِ راست پارلیمینٹ ہائوس پہنچ سکیں، لیکن متعلقہ اداروں کو لاہور ائیرپورٹ ہی سے اطلاع مل گئی تھی کہ تہمینہ جہاز میں سوار ہوچُکی ہیں اور اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جارہی ہیں، تو جہاز اسلام آباد کی بجائے ، پشاور کی جانب موڑ دیاگیا (ظاہر ہے کہ مسافروں کو اس کی وجہ فنی خرابی ہی بتائی گئی ہوگی) ۔تاہم، تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد جب پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس ختم ہوا اور جنرل (ر) پرویز مشرف تقریر کے بعد وہاں موجود اپوزیشن ارکان کو مکّے دکھا کر رخصت ہوگئے، تب تہمینہ دولتانہ اجلاس میں پہنچیں اور یوں اپنی منصوبہ بندی کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں تہمینہ کامجموعی رویّہ انتہائی کیئرفِری ہوتاتھا، بالخصوص جاوید ہاشمی ،خواجہ سعد رفیق اور دیگر مسلم لیگی ارکان سے گفتگو کرتے وقت ان کا انداز دوستوںاور ساتھیوں والا ہوتا، جیسے یونی وَرسٹی کے فِری پیریڈ میں گپ شپ میں مصروف ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ (نون) کے لیے ان کی خدمات اور خاندانی پس منظر کے باعث سب ہی ان کا احترام کرتے اور بے حد محبّت سے پیش آتے تھے۔وہ اپنے بھاری بھرکم وجود کے باوجود ایوان میں انتہائی متحرک رہتیں اور یہ بھی قابلِ ذکر پہلو ہے کہ اُس وقت کی اپوزیشن کے کسی رُکن نے کبھی ان سے بدتمیزی یاتلخ کلامی کی جرأت نہ کی تھی۔

انہوں نے 1987ء میں مسلم لیگ (نون) اورشریف خاندان سے جو وابستگی اختیار کی، وہ قائم و دائم ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ان کی سیاسی سوچ میں کبھی تذبذب یا تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ہاں، البتہ کچھ عرصے سے وہ سیاسی منظرنامے سے ضرورغائب ہیں۔ جب سے بڑے میاں صاحب کی حکومت ختم ہوئی ، وہ قومی اسمبلی میں بھی نظر نہیں آئیں۔ تہمینہ دولتانہ کا ایک رُوپ انتہائی پروفیشنل بزنس وومن کا بھی ہے ۔وہ گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے ہوٹلز اور ہوٹلز کے کاروبار کو وسعت دینے میں مصروف ہیں۔ لاہور کے بعد مَری اور اب شمالی علاقہ جات میں بھی ان کے ہوٹلز کا کاروبارعروج پر ہے، جس میں وہ بے حد مصروف رہتی ہیں۔ 

نیز، ان کی والدہ بھی علالت کے باعث ایک طویل عرصے تک چلنے پھرنے سےقاصرر ہیں ،تو تہمینہ کا بیش تر وقت ماں کی دیکھ بھال میں بھی گزرتا رہا(یاد رہے، جولائی 2021ء میں تہمینہ کی والدہ کی رحلت ہوگئی)۔ تاہم ، وہ ٹوئٹر پر انتہائی فعال ہیںاور اسی کے ذریعے لیگی ساتھیوں سے رابطوں میں رہنے کے ساتھ مسلم لیگ (نون) کے موقف کی بھی بھر پور انداز میں ترجمانی کرتی ہیں۔ بالخصوص، مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کو نہ صرف باقاعدگی سے دیکھتی ، حمایت کرتی،اُن پر تبصرے کرتی ہیں، بلکہ حکومت پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ گوکہ تہمینہ عملی سیاست سے توکنارہ کش ہیں ،لیکن وہ آج بھی مسلم لیگ (نون) کی انتہائی وفادارکارکن ہیں۔

ناہید خان

’’یہ بھٹو صاحب کی نہیں، آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی ہے، جن کے پاس اتنی دولت اور وسائل ہیں کہ وہ سب کچھ خرید سکتے ہیں۔ دَرحقیقت آصف علی زرداری ہی محترمہ بے نظیر بھٹّو کے قاتل ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی اپنا کھویا ہوا مقام اور پُرانے جیالوں کی واپسی چاہتی ہے، تو اسے زرداری کی سیاست سے نکلنا پڑے گا۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور دونوں ہی پیپلز پارٹی کی تباہی کے ذمّےدارہیں۔ 

جیالی کارکن کا فریضہ بھی نبھایا
جیالی کارکن کا فریضہ بھی نبھایا

مَیں اکثر سوچا کرتی تھی کہ آخربی بی جیسی قابل، عظیم، تعلیم یافتہ شخصیت کی شادی زرداری جیسے شخص سے کیسے ہوگئی…؟‘‘ آصف زرداری پریہ اور اس جیسےکئی الزامات محترمہ بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ،ناہید خان ،ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سمیت پارٹی کے متعدّد افراد کی جانب سے عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ یہی نہیں ،ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کو ہلاک کروانے میں بھی آصف علی زرداری ہی کا ہاتھ تھا۔

ناہید خان ،جن کا تعلق راول پنڈی سے ہے، محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد سےمنظرِ عام سے بالکل غائب ہیں۔ گوکہ وہ کچھ عرصے تک محترمہ پر حملے کے پسِ پردہ حقائق بے نقاب کرنے کی کوشش کرتی رہیں ،میڈیا کے علاوہ بھی مختلف فورمز پر گئیں ،لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ دوسری جانب،آصف علی زرداری نے بھی ان پر پارٹی کے تمام دروازے بند کر دیئے تھے اور جب وہ مُلک کے صدر بنے، تو ان کے مزاج کو سمجھتے اور جانتے ہوئے ناہید خان نے سیاسی مصروفیات کو خیر باد کہہ کر خود کو گھر تک محدود کر لیا۔تاہم، شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی اور راول پنڈی سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے کچھ پرانے کارکنوں کے توسّط سے، جن میں ابنِ رضوی سرِ فہرست ہیں،پارٹی معاملات سے با خبر رہتی ہیں۔

بے نظیر بھٹو نے قدم قدم ساتھ رکھا
بے نظیر بھٹو نے قدم قدم ساتھ رکھا

بے نظیر بھٹّو کو جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف جدّوجہد کے دوران گرفتاری کے دو سال بعد 1984ءمیں رہائی ملی، تو وہ برطانیہ چلی گئیں ۔نیز، انہیں پیپلز پارٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا ۔اسی عرصے میں بی بی کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے بھی رختِ سفر باندھا اور ان کے پاس لندن چلے گئے، جن میں ناہید خان بھی شامل تھیں۔ پھر 1986ءمیں جب بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو لاہور میں ان کے شان دار استقبال کے ضمن میں گویا ایک تاریخ رقم ہوئی کہ جب لاکھوں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ 

وطن واپسی پرجہاز کی سیڑھیوں سے اُترتے وقت بی بی کےبازو پر امام ضامن باندھنے اور انہیں قرآن کے سائے سےگزارنے والی خاتون ناہید خان ہی تھیں، وہ ہر پَل سائے کی طرح اُن کے ساتھ رہتیں۔ ناہید خان کی خدمات اور قربانیوں کے صلے میں قومی اسمبلی کی نشست پر انہیں رکنِ اسمبلی بنانا نہ صرف بی بی کی ان سے محبّت و قربت کا اظہار تھا،بلکہ ضرورت بھی، کیوں کہ وہ ان کی معتمدِ خاص تھیں ۔ 

بی بی شہید کی آخری آرام گاہ پر شدّتِ غم سے نڈھال ہیں
بی بی شہید کی آخری آرام گاہ پر شدّتِ غم سے نڈھال ہیں

بظاہر ناہید خان اُس وقت کی وزیر اعظم، بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری تھیں، لیکن ان کے بچّوں سمیت گھریلو اُمور کی نگران بھی تھیں ۔ الغرض،بلاول اور بختاور تو ان کی خاص نگرانی ہی میں پلے بڑھے ہیں۔ بلاشبہ، بےنظیر بھٹو کی زندگی کے کئی سیاسی راز اور اموریاتو انہی کے ساتھ مَنوں مٹی تلے دَب گئےیا ناہید خان کے دل کے قبرستان میں دفن ہیں۔

27 دسمبر 2007ءکو جب محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ ،راول پنڈی میں ہونے والے جلسے میں آئیں، جو ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا، تو معمول کے مطابق ناہید خان ان کے ساتھ تھیں۔ ناہید خان نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’’اُس روز بی بی غیر معمولی طور پر بے حد خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ جلسہ شروع ہونے سے قبل انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سےکہا ’’ناہید !تم دیکھ رہی ہو، سامنے سیاہ بادل آرہے ہیں‘‘ 

حالاں کہ وہاں کوئی بادل نہیں تھا۔‘‘ (اسی طرح راجاپرویز اشرف اور مخدوم امین فہیم نے بھی اپنے انٹرویوز میں بتایا تھا کہ بی بی نےایسی ہی بات ان دونوں سے بھی کہی تھی) ۔بہر حال،جلسہ ختم ہوا اور وہ گاڑی میں بیٹھی ہی تھیں کہ لوگوں کے نعروں اور خلوص کا جواب دینےکی غرض سےگاڑی کی سن رُوف سے باہر نکلیں اور محض چند ہی لمحوں میں وہ سانحہ ہو گیا، جس نے مُلکی سیاسی تاریخ میں ایک اور المیے کو جنم دیا۔گولی لگتے ہی بی بی ناہید خان کی گود میں جا گریں اور دَم توڑ دیا۔

بے نظیر بھٹّو دنیاسے رخصت کیا ہوئیں کہ ناہید خان سے سب ہی نے ناتا توڑلیا۔ بی بی کے انتقال کے بعد ابتدائی کچھ ایّام تو ناہید خان انتہائی سوگ اور دیوانگی کی سی کیفیت میں رہیں، جب ذرا سنبھلیں، تو سب کو خود سے دُوراور بے گانہ پایا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک طویل عرصے تک بے نظیر بھٹّو تک رسائی کا واحدذریعہ ناہید خان ہی ہوا کرتی تھیں۔ تو اگرکوئی سیاسی شخصیت، وزیر، مشیر یارکنِ اسمبلی بی بی سے ملاقات کرنے میں ناکام رہتا تو وہ اس کا ذمّے دار ناہید خان ہی کو ٹھہراتا، لہٰذا بی بی کے انتقال کے بعد اُن تمام لوگوں نے غالباً انتقاماً ناہید خان کو تنہا چھوڑ دیا۔ تاہم، شنید ہے کہ ناہید خان ایک بار پھراپنی نئی پارٹی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز‘‘ کو،جو 2013 ءکےالیکشنز میں رجسٹرکروائی گئی تھی اور جس کے صدر ڈاکٹرصفدر عباسی تھے، فعال کرنے کے عزائم رکھتی ہیں اور بی بی دَور کے پیپلز پارٹی کے ورکرز سے (جو پارٹی کی موجودہ قیادت سے مایوس ہو کر پارٹی سے لا تعلق ہو چُکے ہیں) رابطوں کا سلسلہ شروع کر رہی ہیں ۔ (جاری ہے)

تازہ ترین