سیاستداں بے اعتبارکیوں ؟

September 22, 2021

وقت موجودکا کڑوا سچ یہ ہے کہ آج ملک میں سب سے زیادہ بے اعتبار سیاستدان گردانے جانے لگے ہیں،سیاست و جمہوریت جو دراصل عوامی خدمت کے حوالے سے کاروبارمملکت سے منطبق ہوتے ہیں، آج بے روح اور اپنے نفس میں ہر دو اس قدر بدنام ہو چکی ہیںکہ لوگ اسے منافقت سے تعبیر اور اقتدار کیلئے محض ایسی سیڑھی جاننے لگے ہیں جس تک رسائی کیلئے ہرجائز وناجائز یکساںمعیار کے نظر آتے ہیں۔گزشتہ روز چندنظریاتی دوستوں جو مختلف الخیال اور فکرونظر رکھتے تھے، سے ایک نشست میں تبادلہ خیال کے دوران باربار ماضی کی شائستہ و مہذب سیاسی اقدار کو یاد کرتے ہوئے اس امرپر افسوس کا اظہار کیا جاتارہا کہ نہ جانے پاکستانی سیاست کبھی پھر ایک باوقار دور دیکھ پائے گی بھی یا نہیں۔ اس محفل میں مختلف مثالوں سے اس نکتہ کو بیان کیا گیا کہ ماضی میں نظریات میں خواہ کتنی ہی دوریاں کیوںنہ ہوتیں نظریاتی کشمکش اس باہمی احترام پر کبھی بھی اثرنداز نہ ہو پاتی۔ نظریاتی لوگ قابل قد رہوتےہیں،اخلاقی رویے نظریات کی بدولت ہی استوار ہوتے ہیں، ایسے لوگ کسی قوم کے وجو د کا خلاصہ ہوتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ اخلاقی معیار اوراصول ونظریات رکھنے والوں کوہی یاد رکھا جاتا ہے، تاریخ لوٹے اورلٹیروں کا ذکر خائن اور بونوں کی حیثیت سے ہی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے، مملکت خداداد کی تاریخ یہ رہی کہ اصل کے مقابل بونے ہی معتبر بناکر پیش کئے جاتے رہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک دراز اسٹیٹس کو نے سیاستدانوں کو ایک ایک کرکے بیچ چوراہے پر ایسا بدنام کرکے رکھ دیا ہے کہ اب ڈھونڈنے سے بھی متبادل دستیاب نہیں مگر اس میں موقع پرست سیاستدانوں کا حصہ بدرجہ اتم موجود ہےجہاں تک موجودہ اپوزیشن کی بات ہے، تو انتخابات سے قبل، سینیٹ انتخابات اور چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اور موقع پرستی سے آلودہ دیگر واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کسی ایک مقصد کیلئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کیلئے اتحاد کئے ہوئے ہیں جس جماعت کو جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ پوری اپوزیشن کو دھوکہ دینے میں کسی شرم کو خاطر میں لانا موقعے کا زیاں سمجھتی ہے۔ طویل آمریتوں، طاقت کے مراکز ہاتھ میں رکھنے کی نہ ’سیر‘ ہونے والی ہوس اور سیاستدانوں کی کرپشن و موقع پرستیوں نے اس ملک کو یہ دن دکھلائے ہیں کہ کوئی متبادل نہیں۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست شاید آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ہر سیاسی ومذہبی جماعت کم یا زیادہ مگر موقع پرستی کے زیر اثر ہے۔بار بار کے مارشل لااور ابن الوقت عناصر کو سیاست وریاست سے مالی وانتظامی و اختیارات سے لطف اندوز ہوتا دیکھ کر اچھے اچھے سیاستدان بھی اس نتیجے پر پہنچنے لگے کہ جمہوریت وملکی ترقی کیلئے جدوجہد وقربانی سے بہتر وآسان راستہ یہ ہے کہ مشروط و نظریات بیزار سیاست اختیار کرکےجتنا ہوسکے ذاتی، گروہی وجماعتی مفاد سمیٹا جائے۔یہی وجہ ہے کہ جب جب جمہوری استحکام کیلئے فیصلہ کن کردار کا موقع آتاہے یہ سیاستدان اصول برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کرنے میں ایک دوسرے ہی سبقت لے جاتے نظر آئے ہیں۔ اب جب سیاست کو خدمت کی بجائے کاروبا رجان لیا جائے تو پھر سیاسی اخلاقیات کا وہی حال ہوگاجوان دنوں ہے۔سوا ل یہ ہے کہ سیاست کیونکر اس مقام تک آپہنچی ہے۔کیا ن لیگ و پیپلز پارٹی نے سیاست کو اصولوں پر استوار رکھنے، شائستہ روایات کو پروان چڑھانے اور جمہوریت کو اُسکی روح کے مطابق نافذ کرنے کیلئے اُسی طرح کا کردا ر اداکیا ہے جو متقاضی تھا؟ یہ درست ہے کہ آمروں کا کمال لاجواب ہے لیکن ان کے دست وبازو کون بنتے رہے ہیں۔ چینی، آٹا، پیٹرول یہاں تک کہ پیاز، ٹماٹر تک کا بحران پیدا کردیا جاتا ہے اور پھر ان اشیاء کو مہنگا کرکے اربوں روپے کما لئے جاتےہیں۔ عمران خان کی حکومت ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی مافیا کے خلاف اپنے اعلانات پر عمل درآمد سے لاچار دکھائی دے رہی ہے۔ مافیاز اتنی طاقتور ہیں کہ وزیراعظم جس شے کے مہنگاہونے پر کارروائی کا اعلان کرتے ہیں وہ شے مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔ کورونا کے دوران سرکاری و پرائیویٹ اسپتالوں سے لوگ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ غریب مریض گھروں پر لاعلاج پڑے تڑپتے رہے لیکن وہ اسپتال اس لئےنہیں گئے کہ کہیں اُنہیں کورونا کا مریض قرار نہ دے دیا جائے۔ افسوس صد افسوس! غریب عوام بےیارومددگار گھروں پر تنگ دستی برداشت کرتے رہے اور حکمران طبقات اور مافیاز اس دوران مالی فوائد سمیٹتے رہے۔جس ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہو، اُس ملک میں مافیاز کنٹرول میں نہیں آتیں، جہاں آزادیٔ اظہار پر قدغن ہو، وہاں ہر ادارہ عوام کا خون چوسنے کیلئے آزاد رہتا ہے۔ یہی صورتحال اس مملکت میں ان دنوں دیکھی جارہی ہے۔