نوجوان افرادی قوت، ایک ’چیلنج‘

October 11, 2021

زندگی میں پیش آنے والے ہر چیلنج کے پیچھے ایک موقع چھپا ہوا ہوتا ہے، جو تلاش کیے جانے کا منتظر رہتا ہے۔ کاروباری افراد اور کاروباری ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ آج، دنیا کو ایک انتہائی اہم چیلنج کا سامنا ہے: دنیا کے1 ارب 80 کروڑ نوجوان افراد، جن کی عمریں 10سے24 سال کے درمیان ہیں، ان میں سے 1 کروڑنوجوان ہر ماہ پیشہ ورانہ زندگی شروع کرنے کی عمر کوپہنچ کر عملی زندگی گزارنے کا آغاز کرنے کے لیے پَر تولنے لگتے ہیں۔

عملی زندگی میں کامیابی کے لیے ان نوجوانوں کو مطلوبہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر اور تربیت بھی درکار ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان نوجوانوں کو مطلوبہ تعلیم، ہنر اور تربیت مہیا ہے؟ کیوں کہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک بھی چیز میں پیچھے رہ گئے تو خدشہ ہے کہ وہ عملی زندگی میں پیچھے رہ جائیں گے۔ دوسری طرف، کاروباری افراد اور اداروں کو نوجوان نئی تحریک فراہم کرتے ہیں۔

یہ نوجوان، کاروباری افراد اور اداروں کے مستقبل کے ملازمین اور صارفین ہی نہیں ہیں، بلکہ یہ کل کے خواب دیکھنے والے، کچھ کرنے کا عزم اور سوچ رکھنے والے لوگ ہیں، درحقیقت یہ کل کے ’بزنس لیڈرز‘ ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ وہ کیا کچھ تخلیق کرسکتے ہیں: طب میںعلاج کی نئی دریافتیں، آمدو رفت کے نئے ذرائع، ابلاغ کے انوکھے طریقے، زیادہ پائیدار معیشتیں اور غالباً زیاہ پُرامن دنیا۔ ان کی زندگی کا پیشہ ورانہ دور نئی پیش رفتوں، ایجادات اور ترقی سےبھرپور ہوسکتا ہے، جس کا فائدہ کسی نہ کسی شکل میں، روئے زمین پر موجود تمام ممالک کی معیشتوں کو ہوگا۔

لیکن یہ سارے فوائد کسی بھی صورت ’یقینی‘ نہیں ہوسکتے کیونکہ آج جس دنیا میں ہم کام کررہے ہیں، وہ ہر لمحے تیزی سے بدل رہی ہے۔ عالمگیریت اور ٹیکنالوجی، عالمی معیشت کے قوانین از سرِنو مرتب کررہی ہیں اور کام کرنے کے لیے مطلوبہ ہنر بھی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ آج تعلیم، ہنر اور تربیت کا معیار، مقدار اور اس کا کارآمد ہونا، پہلے سے کہیںزیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

دریں اثناء، دنیا بھر کے ممالک اپنے نوجوانوں کو پیشہ ورانہ زندگی کے لیے تیار کررہے ہیں۔ تاہم تشویش کی بات یہ ہے کہ، دنیا میں اس وقت، 19سال کی عمر تک کے20 کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ (ان میںسے 2 کروڑ 40 لاکھ بچے صرف پاکستان میںہیں، جو زندگی میں کبھی اسکول نہیںگئے)۔ عالمی سطحپر ہر 10 میں سے 6 بچے اور بالغ افراد روانی سے پڑھنے(Reading)اور ریاضی میں کم از کم لازمی قابلیت کے معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ مزید برآں، جو قابلیت رکھتے ہیں، وہ بھی بے یقینی کا شکار اور جاب مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ مثلاً، اندازہ ہے کہ 2035ء تک صرف افریقا میں 45کروڑ نوجوان جاب مارکیٹ میں آئیںگے۔ موجودہ رفتار سے،ان کے لیے صرف 10 کروڑ نوکریاں دستیاب ہوں گی۔ باقی 35 کروڑ نوجوان کیا کریںگے؟

نوجوان خود ا س تشویش کا اظہار کررہے ہیںکہ وہ جو تعلیم و تربیت حاصل کررہے ہیں، وہ انھیںجاب مارکیٹ کے لیے تیار نہیںکررہی۔ ان نوجوانوں کو مستقبل کے کام کے لیے مستقبل کا ہنر چاہیے۔ آج کا نوجوان خوفزدہ ہے کہ مستقبل میں ان کے لیے کوئی نوکری دستیاب نہیں ہوگی۔ گلوبل ویلیج کا حصہ ہونے کے ناطے، کاروباری طبقے کے لیے ’جیسا چل رہا ہے، ویسا چلنے دیں‘ روّیہ مزید کارگر ثابت نہیںہوسکتا۔

انھیں نوجوان آبادی کے اس چیلنج کو مواقع میں بدلنے کے لیے نئے اور مختلف طریقے اختیار کرنا ہوںگے۔ کاروباری طبقہ اور کاروباری لوگ، نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنانے میں اپنا کردار کس طرح ادا کرسکتے ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

نوجوانوں کو اپنے ’برانڈ‘ کا حصہ بنائیں

ہر کاروبار، نوجوانوں کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہتا ہے، کیونکہ آنے والی دہائیوںمیںآج کا یہی نوجوان ’عالمی برانڈ سے وابستگی اور وفاداری‘ کا فیصلہ کرے گا۔ آج کے نوجوان کے پاس خبروں اور حالات حاضرہ تک لامحدود رسائی ہے۔ آج کا نوجوان، ماضی کے مقابلے میں زیادہ باخبر، زیادہ ذمہ داراور ’گلوبل سٹیزن شپ‘ کے تصور سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔آج کے دور میں وہی کاروبار زیادہ کامیاب رہے گا،جو اس چیلنج کو موقع جان کر اسے اپنے فائدے میں استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہوگا اور بہتر سماجی ذمہ داری کا ثبوت دے گا۔

’اسکول‘ سے ’عملی زندگی‘ کی طرف منتقلی

کاروباری ادارے اپنے آپریشنز میں مقامی نوجوان آبادی ( خصوصاً پسماندہ علاقوں) کے لیے مینٹورشپ اور اَپرنٹس شپ کے ذریعے پیشہ ورانہ تربیت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں، جس میں فوقیت پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو دینی چاہیے۔

کمیونٹی سروس

کاروباری اداروں کو کمیونٹیز کی قربانی پر منافع نہیں کمانا چاہیے۔ طویل مدت میں وہی کاروبار کامیاب رہتے ہیں، جو اپنی متعلقہ کمیونٹیز میںوہاں کے لوگوں(بشمول نوجوان طبقہ)کے لیےکوئی مفید کام کرتے ہیں؛ جیسے مقامی افراد کی تعلیم، ہنر اور تربیت میں سرمایہ کاری۔

صنفی مساوات کو فروغ دیں

یہ یقینی بنائیںکہ اپنے کام کی جگہ پر ایسی پالیسیوں اور عادات کو فروغ دیں، جن کے ذریعے خواتین او ر ماؤں کو سپورٹمل سکے اور فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر نوجوان خواتین کو شامل کیا جاسکے۔ آج کی نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ، چاہے وہ صارفین ہوں یا ملازمین، صنف اور شناخت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہ کاروبار، جو اِن معاملات کا تدارک کریں گے، انھیں ان پر برتری حاصل ہوگی، جو ایسا نہیں کریںگے۔

کارپوریٹ شناخت کو بہتر بنائیں

ہر مرحلے پر اپنے کاروباری آپریشنز کے نوجوان طبقہ پر اثرات کا جائزہ لیں اور بین الاقوامی ضوابط کے مطابق، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری قدم اٹھائیں۔ جن کمیونٹیز میں آپ کام کررہے ہیں، وہاں بچوں کے لیے خطرات کم کرکے، آپ ناصرف اپنی کارپوریٹ شناخت کو بہتر بناتے ہیں، بلکہ آپ دنیا کو ایک بہتر اورخوبصورت جگہ بنانے میںبھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔