’’معلم‘‘ کا مقام اور اس کی اہمیت

October 15, 2021

محمد یاسین شیخ

’’میاں آپ بہت اچھے ہیں ،اچھے رہیں گے۔ ‘‘ ، ’’نہ جانے آپ اتنے بڑے کام کیسے کرلیتے ہیں۔‘‘ ، ’’آپ کو پتا نہیں، آپ کتنے بڑے کام کر رہے ہیں۔‘‘ ، ’’میاں لگے رہو! اللہ آپ کی مدد کرے گا۔‘‘یہ وہ جملے ہیں جو اگر ایک خاص انسان کی زبان سے جاری ہوجائیں تو مخاطب کو کامیابی کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ ان جیسے جملوں میں چھپی شفقت مخاطب کو وہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس کا وہ اہل بھی نہیںہوتا۔ ان جملوں کو صادر کرنے والے اور مخاطب کے لیے ان میں پوشیدہ فکر رکھنے والے اس خاص انسان کو ’’معلم اوراستاد‘‘ کہتے ہیں۔

خداوند عالم نے انسان کی بناوٹ ہی اس طور پر رکھی ہے کہ ایک لا علم انسان کو کسی علم رکھنے والے انسان کا محتاج بنایا ہے۔ ایک انسان محض کتابوں سے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتا جو استاد کی شکل میں اللہ کی عطا اسے سکھا دیتی ہے۔ روز اول سے یہ روحانی رشتہ قائم ہے اور سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی کا سبب رہا ہے۔

ایک معلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ چودہ سو سال پہلےاہل عرب جو باعتبار زبان فصیح و بلیغ تھے، ان کے لیے براہِ راست کلام اللہ سمجھنے میں کیا دقت ہوسکتی تھی ،جبکہ خود ان کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ قرآن کا آسمان سے ہر فرد کے لیے علیحدہ نسخہ نازل ہوجائے، مگر باجود اس کے رب ذوالجلال نے اپنی سنت کے مطابق بطور معلم پیغمبر اسلام ،رسول اللہﷺ کا انتخاب فرمایا اور حضور ﷺکے ذریعے اپنی مقدس کتاب کے علوم ، رموز ، احکام اور قربِ خداوندی کے اسرار اس وقت کے مخاطبین اول کے سینوں میں منتقل فرمائے۔

اس بات کی گواہی خاتم النبیین ﷺکے فرمان’’ انّما بعثتْ معلّماً، کہ میں تو معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ فاتح خیبر اور خلیفۂ چہارم سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب استادسے متعلق قول مشہور ہے : ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں ،خواہ وہ مجھے آزاد کرے یا بیچ دے۔‘‘

ہم دیکھتے ہیں کہ معلمِ انسانیت حضرت محمدﷺ کی مثالی درس گاہ ’’صفہ‘‘ کے علمی فیضان کی بدولت اس حقیقت کے باوجود کہ ابتداء میں نہ تعلیمی ادارے عام تھے اور نہ ہی تعلیمی سہولتیں موجود تھیں۔ صحابہ کرام ؓنے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انتہائی تنگ و دستی اور غربت کے عالم میں زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں نے بھی حصول علم کو فوقیت دی اور اس شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔

تعلیمی وسائل سے محروم یہی مسلمان چند برسوں میں اتنا ممتاز مقام حاصل کرگئے کہ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے، وہاں تعلیم و تربیت کے اعلٰی مراکز قائم ہوگئے۔ حضور انور ﷺکے وصال کے فوراً بعد ہی مسند درس و ارشاد قائم ہوچکی تھیں، جہاں تعلیمی اعتبار سے مرکز فضیلت سمجھا جاتا تھا۔

یہ مراکز مختلف شہروں میں قائم تھے۔ ان کے قیام میں اصحاب صفہ کی خدمات و مساعی شامل تھیں جو براہ راست معلم کتاب و حکمتﷺ کے فیض علمی سے فیض یافتہ تھے۔ ان اداروں سے ایسے افراد وابستہ تھے جنہیں درس و تدریس کا وسیع تجربہ تھا۔ ان شخصیات کو آج بھی نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے عظیم ماہرین تعلیم کا پیشوا سمجھ جاتا ہے۔ یہ تمام درحقیقت معلم یعنی استاد کے ادب و احترام اورخلوصِ نیت سے علم کے حصول کا نتیجہ تھا۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق بھی ملتا ہے کہ وہ اپنے استاد کے گھر کی سمت اپنے پاؤں پھیلانا بے ادبی سمجھتے تھے۔صرف علوم دینیہ ہی نہیں، بلکہ عصری وفنی علوم میں بھی استاد کا کردار واضح ہے۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :’’تخلیقی اظہار اور علم میں خوشی بیدار کرنا استاد کا اعلیٰ فن ہے۔‘‘اسی طرح نامور رومی بادشاہ سکندر اعظم استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں :’’میں زندگی گزارنے کے لیے اپنے والد کا مقروض ہوں، مگر اچھی زندگی گزارنے کے لیے اپنے استاد کا مقروض ہوں۔‘‘

ان جیسے ہزاروں افراد جو علوم و فنون کی بلند و بالا چوٹیاں سر کرچکے ہیں، اپنی کامیابی کا سہرا اپنے اساتذہ کو دیتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیوں کہ عجیب بات ہے کہ کامیابی کے قدم چومنے کے بعد ہی یہ بات صحیح معنوں میں عیاں ہوتی ہے کہ جس فلاح پر انہیں قادر مطلق نے آج پہنچایا ہے، اس کی معراج اسباب کی دنیا میں استاد ہی ہوتا ہے۔ ایک استاد اپنے شاگرد کو نیلے فلک پر اونچی پروان میں دیکھنا چاہتا ہے، گہرے سمندر کی تہہ میں غوطہ لگا کر موتی چنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، ترقی کی ان منازل پر دیکھنا چاہتا ہے جہاں شاید وہ خود بھی نہ پہنچ پایا ہو۔ پھر دنیا دیکھتی ہے کہ وہ شاگرد اپنے استاد کی محنت، شفقت اور دعاؤں سے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے جوگو اس استاد کے مقدر میں تو نہیں ہوتے ،مگر شاگرد کے مقدر میں ان کارناموں کے پیچھے وہ استادہی ہوتا ہے۔

اپنے محسن کو فراموش کرنا فطرت کی سراسر مخالفت ہے۔ والدین جو انسان کے دنیامیں آنے کا سبب بنتے ہیں، ان کی اپنی اولاد کے لیے فکر اور محنت تو فطرت کا تقاضا ہوتی ہے، مگر ایک استاد تو قوم، ذات ، زبان اور رنگ و نسل الگ ہونے کے باوجود بھی اپنے شاگرد سے ایسا گہرا تعلق قائم کرتا ہے کہ شاگرد کی خوشی میں خوش ہوتا ہے، اس کے غم میں غم زدہ ہوتا ہے اوراس کے لیے دربار خداوندی میں منادی بن کر حاضر ہوتا ہے۔

اب دیکھیں! شریعتِ مطہرہ اور تمام مذاہب آسمانی میں والدین سے حسن سلوک کا حکم جب کہ بد سلوکی کو ممنوع قراردیا گیا ہے۔ ان کے احسانات کا دنیا میں صلہ خدمت کے ذریعے ،جب کہ ان کے وصال کے بعد دعاؤں کی شکل میں دینے کا حکم ہوا ہے۔ جب ان محسنین کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو ایسا شخص جو نہ خونی رشتے دار ہے ،نہ دنیاوی مفاد وابستہ ہے، صرف روحانی رشتہ اور اس شاگرد کی فلاح کی غرض سے اس پر احسان کرنے والا ہے، تو بتائیے کہ اس استاد کا کیا مقام ہوگا؟

ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک بہت بڑا راز اپنے اساتذہ کرام کی قدردانی ہے۔ جاپان کے ایک استاد اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ ایک بارہوائی اڈے پرمجھے تفتیش کے لیے روکا گیا۔ جب انہوں نے مجھ سے میرا پیشہ پوچھا ، تو میرے بتانے پر اگلے کئی گھنٹے میں نے خود کو ملک کا صدر محسوس کیا ، کیوں کہ جس طرح انہوں نے میرا اکرام اور خاطر تواضع کی ،وہ کسی صدر سے کم نہیں تھی، باوجود اس کے کہ ان میں سے کوئی بھی میرا شاگرد نہیں تھا۔‘‘

اس جیسے سیکڑوں واقعات ہیں، جس سے اساتذہ کی قدر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں الحمدللہ ،مدارس دینیہ میں تو استاد کا ادب و احترام اب بھی باقی ہے، وہ الگ بات ہے کہ اسے بھی ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، مگر دیگر تعلیمی مکاتب میں اساتذہ کے ادب و احترام کا فقدان ہے۔آئے دن طرح طرح کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اوپر کی گئی تمام باتوں اور موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تین قسم کے لوگوں سے تین گزارشات کرنا چاہوں گا:۔

۱۔ پہلی گزارش تو ان خوش نصیب لوگوں سے ہے ، جو کسی نہ کسی موضوع اور میدان میں کسی استاد کی شاگردی میں ہیں۔ خدارا! اپنے اساتذہ کا دل وجان سے احترام کریں۔ ضروری نہیں کہ آپ کا اور ان کا نظریہ ایک ہو۔ نظریہ کے اختلاف کو سبب بناکر اساتذہ کا ادب دل سے نکالنا بہت بڑے خسارے کی بات ہے۔

یاد رکھیں! اساتذہ کی قدر اور ان کے لیے دعائیں کرنا آپ ہی کی ترقی کا باعث ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اساتذہ کا خیال بھی رکھیں، کیوں کہ یہ وہ ذات ہے کہ جس نے بے غرض ہوکر آپ کو ایک بلند مقام پر پہنچایا ہے۔آپ کا ان کے لیے کچھ کرنا، اس عمل کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتا، البتہ ان کی دعاؤں کا موجب ضرور بن سکتا ہے۔صحابۂ کرام ؓکو جو مقام حاصل ہے اس کا سبب معلم کائنات ﷺکی اطاعت اور حد درجہ ادب ہے۔ ان مقدس ہستیوں کی زندگی پڑھ کر اساتذہ کرام کے ادب کا طریقہ بخوبی سیکھا جاسکتا ہے۔

۲۔ دوسری گزارش ان لائق تحسین شخصیات سے ہے جنہیں اللہ نے’’ استاد‘‘ جیسا عالی منصب عطا کیاہے۔ میری نظر میں ایک عام آدمی کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی منصب نہیں ہے،کیوں کہ یہ صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ قوم کے عروج اور ترقی کا واحد ضامن ہے۔ معاشر ے کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑا کردار ایک استاد کا ہی ہوتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر سرورِ دوعالم ﷺ نے اپنے لیے معلم کا منصب اختیار فرمایا، جس سے اس شعبے کو مزید چار چاند لگ گئے، لہٰذا اس منصب کی لاج رکھیں۔

ایک معلم میں وہی صفات ہونی چاہییں ،جو بطور معلم نبی کریم ﷺمیں موجود تھیں۔ فکر، شفقت اور طلبہ کو بلند مقام پر پہنچانے کے جذبے کے ساتھ جان توڑ محنت اور بے لوث خدمت ۔ ان شاء اللہ دونوں جہاں میں اس عمل کا بہترین صلہ آپ کو ملے گا۔ اس کے برعکس محض نام و نمود یا دنیا کمانے کے لیے یہ پیشہ اختیار کیا گیا اور اس پیشے سے مخلص نہ ہوئے تو دونوں جہاں میں رسوائی اور خسارے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

۳۔تیسری گزارش والدین سے ہے کہ اول تو آپ اپنی اولاد کے لیے ایسے ماہر فن استاد کا انتخاب فرمائیں، جن میں معلم کی تمام صفات بدرجہ اتم موجود ہوں۔ پھر جب تمام چھان بین کے بعد تسلی ہوجائے تو اب خود بھی اس استاد کا احترام کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس کی لازمی تلقین کریں۔ انہیں سیرتِ طیبہ ،تعلیماتِ نبویؐ ، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے شان دار تعلیمی و تدریسی ورثے سے اساتذہ کے ادب واحترام کے قصے سنائیں اور بچے کی جانب سے بے ادبی کی صورت میں اس کی سرزنش کریں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج والدین بچوں کے سامنے اساتذہ کے لیے اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ نتیجتاً بچے کادل استاد سے بدظن ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں ان کے لیے احترام باقی نہیں رہتا، پھر اس کا نقصان بچے اور اس کے والدین دونوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کریں۔ یہی گزارش تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے بھی ہے۔ اس حساس معاملے میں وہ بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

اس تحریر کا مقصد اس رکاوٹ کو ختم کرنا ہے جو قوم کی ترقی کی راہ میں آڑ بنی ہوئی ہے۔ اس تحریر کے ذریعے اپنے ان تمام اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس مقام تک پہنچانے میں ہر ممکن کردار ادا کیا۔ ان کے اس عمل کا صلہ دینے کے لیے میرے پاس نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی کوئی اور شئے۔ بس ان کے لیے اللہ کے دربار میں ہاتھ اٹھا کر یہ دعاہے کہ ہمارے جو اساتذہ حیات ہیں، اللہ عزو جل انہیں سلامتی ایمان اور سلامتی اعضاء کے ساتھ تا حیات دین اسلام اور ملتِ اسلامیہ کی خدمت کے لیے قبول فرما اور دنیا و آخرت میں انہیں سرخ رو فرما۔

جو اساتذہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، ان کے درجات بلند فرمااور جنت الفردوس میں نبی اکرم ﷺکی رفاقت کی صورت میں انہیں ان کی محنت کا بہترین صلہ عطا فرما۔( آمین)بالخصوص میرے مربی حضرت استادجی علامہ ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی صاحب رحمہ اللہ کو۔ کیوں کہ آج میں جس مقام پربھی ہوں ، وہ اس تحریرکے شروع میں مذکور انہی جملوں اور شفقت کے طفیل ہے ،جو حضرت استادجی رحمہ اللہ نے حوصلہ افزائی کے طور پر مجھ خاکسار کے لیے کہے۔ بفضل الہٰی ان ہی جملوں نے مجھ ناکارہ کو کار آمد، نا اہل کو اہل اور نا لائق کولائق تحسین امور پر مامور کیا ۔اللہ تعالیٰ مجھ سمیت تمام اہلیان وطن اور امت مسلمہ کو اپنے اساتذہ کی قدر ، احترام اور ان کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)