• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی جنگی قیدی,,,,آج کی دنیا…اشتیاق بیگ

بھارت کی قید میں 90 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان ایک خوفناک منصوبے پر اتفاق ہوا تھا جس کے تحت 1972ء میں بھارت نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو سلامتی کونسل کے بیشتر ارکان کی حمایت حاصل تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ یہ قرارداد منظور ہوجاتی تو بنگلہ دیش ایک آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آتا اور اقوام متحدہ کا ممبر بن جاتا جس کے بعد بھارت ان 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کردیتا اور بنگلہ دیش ایک آزاد ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے سینئر فوجی افسران کے خلاف قتل، اغواء، زنا اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلاتا اور سینئر فوجیوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ ایسا کرکے جہاں مجیب الرحمن بنگالیوں پر یہ ثابت کرتے کہ نہ صرف ان کی قربانیوں سے بنگلہ دیش کو آزادی حاصل ہوئی بلکہ جن فوجیوں نے ان کے خلاف قتل و غارت میں حصہ لیا انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔ بھارت ایسا کرکے دنیا بھر میں پاکستانی افواج کی تذلیل کرنا چاہتا تھا تاکہ اس سے 65ء کی جنگ میں شکست کا بدلہ لیا جاسکے۔ پاکستان کے لئے یہ انتہائی مشکل صورتحال تھی۔ ایسے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک رات خفیہ مشن پر چین گئے اور چینی حکومت کو انڈیا کے ان ناپاک عزائم سے آگاہ کیا اور اس سے مدد چاہی۔ چین اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا نیا نیا رکن بنا تھا اور اس کی رکنیت کا پہلا تھا۔ چین نے بھٹو صاحب سے یہ وعدہ کیا کہ ایسے کڑے وقت میں چین پاکستان کو اکیلانہیں چھوڑے گا۔ اس طرح جب بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کی قرارداد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پیش ہوئی تو چین وہ واحد ملک تھا جس نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا اور اس طرح چین نے پاکستان اور اس کی افواج کو اس گھناؤنی سازش سے بچالیا۔ جب بھارت کو یہ یقین ہوگیا کہ جب تک چین موجود ہے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو اس کیلئے 90 ہزار فوجی ایک بوجھ بن گئے اور وہ پاکستان سے معاہدہ شملہ کرنے پر مجبور ہوا جس کے نتیجے میں بغیر کسی شرائط کے ان فوجیوں کی واپسی ممکن ہوئی۔ پاکستان نے بعد میں لاہور میں ہونے والی اسلامی کانفرنس کے موقع پر بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں متعین چین کے قونصل جنرل چن شن من نے جب مجھے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا تو میں نے اس واقعہ کے بارے میں تصدیق چاہی تو انہوں نے ہنس کر مجھے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ چین نے اپنا پہلا ویٹو پاکستان کے حق میں استعمال کیا۔ اس موقع پر میں نے جذبات سے مغلوب ہوکر انہیں گلے سے لگالیا۔
جنگی قیدیوں کے حوالے سے پچھلے دنوں پاکستانی میڈیا میں کچھ اس طرح کی خبریں شائع ہوئیں جن کے مطابق 1965ء کی جنگ میں حصہ لینے والے 18 فوجی آج بھی انڈیا کی مختلف جیلوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ خبر میں ان 18 جنگی قیدیوں کے نام اور ان کے رینکس بھی دیئے گئے تھے جن میں دو میجر، ایک کیپٹن، ایک لیفٹیننٹ اور کچھ سپاہی رینک کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ خبر کے مطابق 65ء کی جنگ میں حصہ لینے والے ایک پاکستانی فوجی محمد ایوب کی فیملی نے انڈیا میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا اور انہیں یہ اطلاع دی کہ محمد ایوب بھارت کی پٹیالہ جیل میں قید ہیں۔ اس فیملی کے مطابق انڈیا کی اسی جیل سے کچھ پاکستانی قیدیوں کا تبادلہ ہوا جنہوں نے اس جیل میں محمد ایوب کی وہاں موجودگی کا انکشاف کیا۔ اس خبر نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کس طرح اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اب تک یہ پاکستانی فوجی انڈیا کی قید میں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل 40 سال سے بھارتی جیل میں قید ایک پاکستانی جنگی قیدی محمد حسین کی قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہائی عمل میں آئی جس کی زبان بھارتیوں نے اس لئے کاٹ دی تھی کہ جب اس پر بھارتی فوج تشدد کرتی تھی تو وہ ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگاتا تھا اور اس نے اپنے جیل کے کمرے کی دیواروں پر اپنے خون سے ”پاکستان زندہ باد“ لکھ رکھا تھا۔
حکومت نے ابھی تک ان 18 جنگی قیدیوں کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی تردید نہیں کی ہے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ حکومت اس الزام سے بچنا چاہتی ہے کہ وہ اب تک کیوں اس معاملے پر خاموش رہی۔ میں نے اس خبر کی تصدیق کے لئے جب سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اس بات کے امکانات اور شک و شبہ ہے کہ 65ء کی جنگ کے کچھ پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں ہوں۔ اس حوالے سے انصار برنی ٹرسٹ کے صارم برنی نے مجھے بتایا کہ ایک میجر اور کیپٹن کی فیملی نے ان کے ٹرسٹ سے رابطہ کیا ہے اور کچھ ایسے ثبوت مہیا کئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جنگی قیدی انڈین جیلوں میں قید ہیں مگر دونوں حکومتیں بدنامی کے ڈر سے اس بات کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں۔
یہ امر باعث افسوس ہے کہ 45 سال گزرنے کے بعد بھی نہ ہی ہماری حکومت اور نہ ہی ریڈ کراس ان بدقسمت قیدیوں کے لئے کچھ کرسکی ہے۔ سابق صدر مشرف کے دور میں بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کو باعزت رہا کرکے انڈیا بھیج دیا گیا اور اب بھارت اپنے ایک اور جاسوس کی رہائی کے لئے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بھارتی حکومت پر یہ دباؤ ڈال کر ان بدنصیب جنگی قیدیوں کو وطن واپس لانے کے اقدامات کرے۔ کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی وفد جس میں بھارتی فوجیوں کے رشتے دار، ہیومن رائٹس کے نمائندے اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، نے پاکستان کا دورہ کیا اور حکومت پاکستان نے اس وفد کو ملک کی مختلف جیلوں کے دورے اور ریکارڈ چیک کرنے کی اجازت دی مگر کوئی بھی بھارتی فوجی ہماری جیلوں میں نہیں پایا گیا۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ اسی طرح کا ایک وفد جس میں ان فوجیوں کے رشتے دار اور ہیومن رائٹس کے لوگ شامل ہوں انڈیا بھیجے تاکہ وہ انڈیا کی مختلف جیلوں میں جاکر ان کا ریکارڈ چیک کرکے حقائق کا پتہ لگاسکیں۔ یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے کہ بھارتی جیلوں میں قید ان 18 فوجیوں کے لواحقین نہ تو اپنے پیاروں کے لئے فاتحہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی زندگی کے لئے دعا مانگ سکتے ہیں۔
تازہ ترین