• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا اجمالی جائزہ۔۔۔۔حصہ دوم

70 Years Of Old Political History Of Pakistan Part 2

لیاقت علی خان کا قتل ایک اندوہناک واقعہ تھا، جس سے ملک کے سیاسی نظام کو شدید نقصان پہنچااور اس قتل کی سازش کبھی بے نقاب نہ ہوسکی، مگر اس کا سب سے بڑا فائدہ تین افراد کو ہوا جو سول اور فوجی افسر شاہی کے نمائندے تھے ،یعنی ملک غلام محمد، میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان، یہ تینوں حضرات لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یکے بعد دیگرے سربراہ مملکت بنے۔ خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بناکر ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنادیا گیا، جو خود سیاست دان نہیں تھے، بلکہ ایک بدزبان افسر تھے، جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

اکتوبر 1951ء میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد نئے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں، جن کا سب سے بڑا محرک خود ملک غلام محمد تھے،پھر میڈیا ٹرائل کا آغاز اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے استعمال کی شروعات بھی اسی دور میں ہوئیں۔ خواجہ ناظم الدین ایک سیدھے سادھے رہنما تھے، جن کا تعلق بنگال کی ایک اردو اسپیکنگ فیملی سے تھا۔ وہ محلاتی سازشوں میں مذکورہ تینوں حضرات کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔اسی دور میں قادیانیوں کے خلاف تحریک بڑے پیمانے پر شروع ہوئی، جس پر قابو پانے میں سول انتظامیہ ناکام ثابت ہوئی یا ناکام بنادی گئی۔ بھانت بھانت کی فرقہ وارانہ جماعتیں منظر عام پر آگئیں اور احمدیوں کے مسئلے کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا جاتا رہا، پھر ملک میں غذائی اجناس کی قلتیں پیدا کی گئیں۔ اخبارات نے خواجہ ناظم الدین کو ’’قائدِ قلت‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ ان کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں، اسی لیے فربہ ہیں، جب کہ ملک میں غذائی قلت ہے۔اسی طرح مشہور کیا گیا کہ خواجہ ناظم الدین کو مرغیاں پالنے کا بہت شوق ہے اور موصوف دن کا زیادہ وقت اپنی مرغیوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ یہ اسی طرح کے الزامات ہیں، جیسے بعد میں آصف علی زرداری اور ان کے گھوڑوں کے بارے میں پھیلائے گئے یا خود نواز شریف کے بارے میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ وہ پائے، ربڑی اور لسی کے شوقین ہیں اور اعلٰی سطح کے اجلاس میں بھی کھانوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں پھیلانے کے مذموم مقاصد یہ ہوتے ہیں کہ عوام کا اپنے رہنمائوں پر سے اعتماد ختم ہوجائے، تاکہ سول اور فوجی افسر شاہی جب چاہے عوام کے منتخب نمائندوں کو پکڑ کر باہر نکال دے اور پھر کچھ لوگوں سے مٹھائیاں بٹوا کر تصویریں چھاپ دی جائیں، غرض یہ کہ خواجہ ناظم الدین کے خلاف سازشیں خوب تیار ہوچکیں تو انہیں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اپریل 1953ء میں وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کردیا اور محمد علی بوگرا، جو پاکستان میں اتنے ہی غیرمعروف تھے ،جتنے کے بعد میں لائے جانے والے معین قریشی یا شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر اعظم کو پہلی دستور ساز اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا اور انہیں ہٹانے کے لیے اسمبلی میں کوئی عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہیں کی گئی، جوکہ جمہوری اور قانونی طریقہ تھا، اس کے بجائے گورنر جنرل نے ایک حکم کے ذریعے وزیر اعظم کی حکومت برخاست کردی اور پوری اسمبلی نے اپنی جان بچانے کے لیے وزیر اعظم ناظم الدین کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ نئے وزیر اعظم، جو اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے، انہیں اعتماد کا ووٹ دے دیا۔دراصل پہلی دستور ساز اسمبلی کے ارکان جانتے تھے کہ بنیادی ذمے داری، یعنی آئین بنانے کا کام نہیں ہورہا، جبکہ قیام پاکستان کو چھ برس گزر چکے تھے اور خود بھارت 1950ء میں اپنا نیا آئین بناکر نافذ کر چکا تھا۔ اب دستور ساز اسمبلی کو خطرہ تھا کہ اگر اس نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کا ساتھ دیا تو ممکن ہے کہ گورنر جنرل پوری اسمبلی کو ہی فارغ نہ کردیں،لیکن غلام محمد نے اگلے سال یہ کام کر ہی دیا۔ 1954ء میں نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ اور اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے اسملی سے وہ بل پاس کرالیا، جس کی رو سے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات چھین لیے گئے تھے۔ غلام محمد اس وقت چھٹی پر تھے، مگر انہوں نے جلد ہی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اکتوبر 1954ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی، مگر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رکھا۔

اب وزیر اعظم موجود تھے، مگر اسمبلی نہ تھی۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین نے کورٹ سے رجوع کیا تو سندھ کی عدالت نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیرقانونی قرار دیا ،مگر پھر وفاقی عدالت کے چیف جسٹس محمد منیر نے پاکستان کی تاریخ کا پہلا تاریک ترین فیصلہ دیتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا اور نئی اسمبلی وجود میں لانے کو کہا۔بعد میں جسٹس منیر خود اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ وہ فیصلہ دبائو کا نتیجہ تھا، اس سے ملک میں جمہوریت اور سیاست کو شدید نقصان پہنچا۔ اس سیاہ فیصلے نے ایک ایسی مثال قائم کی، جس نے بعد میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق نئی اسمبلی بنانے کے لیے بھی کوئی نئے عام انتخابات نہیں کرائے گئے، بلکہ اس وقت موجود اسمبلیوں سے کہا گیا کہ وہ دوسری دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو منتخب کریں۔ اُس وقت تک مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت صوبائی انتخاب ہار چکی تھی اور اس کی جگہ جگنو فرنٹ حکومت بن چکی تھی، اس لیے جو نئی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی اس میں مسلم لیگ اپنی پرانی حیثیت کھو چکی تھی۔ اب وزیر اعظم محمد علی بوگرا کو وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھونا پڑے اور ان کی جگہ ایک اور شاطر چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ 1955ء میں ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ مغربی پاکستان کے صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ بنایا گیا ،جس کو عددی طور پر مشرقی پاکستان کے مساوی قرار دے دیا گیا ،جب کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغرب پاکستان سے تقریباً دس فی صد زیادہ تھی۔ ون یونٹ بنانے کے بعد ،بلکہ اس دوران ہی ملک غلام محمدبیمار ہوگئے اور انہیں ہٹا کر اسکندر مرزا کو نیا گورنر جنرل بنادیا گیا۔اسکندر مرزا نے گورنر جنرل بننے کے بعد محلاتی سازشوں میں اور اضافہ کیا اور نئے آئین کے تحت صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کسی بھی وزیر اعظم کو ٹک کر حکومت نہ کرنے دی۔ چوہدری محمد علی کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریگر ، حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون وزیر اعظم رہے، مگر اسکندر مرزا کسی سے بھی مطمئن نہ تھے اور ہر ایک کو ہٹا کر خود اپنی صدارت مستحکم کرنے کے چکر میں لگے رہے۔

1956ء میں جب نیا آئین نافذ کیا گیا تو اس کے تحت نئے انتخابات کرانے تھے، لیکن بار بار ملتوی کرنے کے بعد جب یہ معلوم ہوا کہ اگر انتخابات کرا دئیے گئے تو ممکنہ طور پر عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی بھاری اکثریت سے جیت جائیں گی ،چنانچہ اسکندر مرزا نے سات اکتوبر 1958ء کو مارشل لا لگا کر آئین کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا، جنہوں نے اسکندر مرزا کا بھرپور ساتھ دیا۔
اب اسکندر مرزا کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ جنرل ایوب خان انہیں ہی نہ برخاست کردیں تواُنہوں نے جنرل ایوب کو مطمئن کرنے اور اپنا وفادار رکھنے کے لیے چوبیس اکتوبر 1958ء کو ایوب خان کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا، مگر صرف دو دن بعد ہی ستائیس اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب نے اپنے جنرلوں کے ذریعے اسکندر مرزا کو گرفتار کرالیا، پھر جبری جلاوطنی پر ملک سے باہر بھیج دیا، اس طرح اب جنرل ایوب خان بلاشرکت غیرے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا آغاز ہوا، جس میں نہ صرف ان کے اپنے گھر والے اور رشتہ دار، بلکہ ان کے بیٹوں کے سسرالی بھی ارب پتی بن گئے ،مگر آج تک ان کی دولت کے ذرائع کسی نے نہ پوچھے۔

جنرل ایوب خان کی حکومت کو شروع میں عوامی پذیرائی اس لیے ملی کہ لوگ بار بار وزرائے اعظم کی تبدیلی سے نالاں تھے اور ایک مستحکم اور پائیدار حکومت چاہتے تھے۔ جنرل ایوب خان نے یہ تاثر دیا کہ وہی اب ملک کے بہی خواہ اور نجات دہندہ ہیں۔ انہوں نے تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی برقرار رکھی اور تمام بڑے سیاست دانوں کو رضاکارانہ طور پر سیاست سے دست بردار ہونے کا کہا، بصورت دیگر ان کے خلاف مقدمات چلا کر انہیں سزائیں دی جانی تھیں۔

ایوب خان کی حکومت کے ابتدائی سال انتہائی سختی کے تھے۔ فوج ہر شعبے پر حاوی ہوتی گئی اور سیاست راندہ درگاہ ہوگئے۔ ایسے میں کوئی نہ تھا جو جنرل ایوب خان کو للکارتا۔ ایوب خان نے نئے آئین کی تشکیل کے لیے ایک کمیشن بنایا ،مگر پھر خود اس کمیشن کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خالصتاً صدارتی نظام نافذ کردیا، جس میں تقریباً تمام اختیارات خود جنرل ایوب خان کے ہاتھ میں تھے۔اس کے علاوہ جنرل ایوب خان نے عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے بنیادی جمہوریت کا ایک نظام متعارف کرایا، جس کے ذریعے بی ڈی ممبر یا بیسک ڈیموکریسی کے ارکان کو عوام منتخب کرتے، مگر اعلٰی سطح پر اختیارات تمام تر خود جنرل ایوب خان کے ہاتھ میں تھے۔ پانچ سال برسراقتدار رہنے کے بعد جنرل ایوب خان نے کچھ نرمی کی اور حزب مخالف کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی، جس میں متحدہ حزب مخالف نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا صدارتی امیدوار منتخب کیا ،مگر 1964ء کے دھاندلی زدہ انتخابات میں ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا کر مزید پانچ سال کے لیے خود کو صدر منتخب قرار دے دیا۔اس دھاندلی کے نتائج خاصے سنگین نکلے، خاص طور پر مشرقی پاکستان کے عوام توقع کررہے تھے کہ اب ملک میں جمہوریت آجائے گی،لیکن مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اورپھر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑنے لگیں، اس دوران ایوب خان نے کشمیر میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے 1965ء کی جنگ لڑی، جو بغیر کسی مثبت نتیجے کے ختم ہوگئی، مگر پاکستان اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہا۔اس جنگ سے عارضی طور پر جنرل ایوب خان کی مقبولیت بحال ہوئی، مگر جنوری 1966ء میں ہونے والے تاشقند معاہدے اور اس کے بعد ایوب خان کے قریبی ساتھی ذوالفقار علی بھٹو نے شدید الزامات لگائے اور کہا کہ ایوب خان نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے۔ اس کے بعد بھٹو ایوب خان سے الگ ہوگئے اور 1969ء میں اپنی پیپلزپارٹی قائم کرلی، جسے جلد عوامی مقبولیت حاصل ہوگئی۔(جاری ہے )

تازہ ترین