• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہنگول نیشنل پارک، بلوچستان کے قدرتی حسن کا شاہکار

Hingol National Park Baluchistan Natural Beauty

بلوچستان میں موجود ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا خوب صورت ترین اور واحد نیشنل پارک ہے جہاں بیک وقت سمندر ، دریا ، صحرا ، پہاڑ اور جنگلی حیاتیات موجود ہیں ۔علاوہ ازیں یہ خطہ طبی نباتات اور معدنی ذخائر سے بھرا پڑا ہے ۔ درحقیقت یہ قدرت کی طرف سے پاکستان کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے ۔

اسے باقاعدہ طور پر 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ، 1650مربع کلو میٹر پر پھیلا یہ خوب صورت پارک بلوچستان کے تین اضلاع لسبیلہ ، گوادر اورآواران میں شامل ہے ۔

کراچی سے مغرب کی جانب دو سو کلو میٹر کے فاصلے پریہ پارک موجود ہے ۔ اسے دیکھنے سینکڑو ں سیاح روزانہ یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔

یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات میں مار خور ، اڑیال اور پہاڑی غزال اکثریت میں ہیں جبکہ چیتا ، لومڑی ، لگڑ بھگے ، پہاڑی بکرے ، سیہا ، نیولے اور جنگلی بلے بھی نظر آتے ہیں ۔

سمندری مخلوق بھی نظر آتی ہیں ۔ مارخور ہرن اور راڑیالوں کے ریوڑ بھی یہاں اکثر گھومتے نظر آتے ہیں ۔یہ جانور قدرتی ماحول میں رہنے کی وجہ سے گاڑیوں کی آوازوں سے گھبراتے ہیں اور ان کی آواز سنتے ہی بھاگ جاتے ہیں ۔جبکہ خشک سالی کی وجہ سے ان جانوروں کو خطرات بھی لا حق ہیں ۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہنگول نیشنل پارک میں 3 ہزار مارخور، 15 سو کے قریب اڑیال اور تقریبا 12 سو کے قریب پہاڑی غزال موجودہیں۔

سمندری حیات میں مگر مچھ کوبرا ناگ ، چھوٹے بڑے سانپ اور کچھوے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ 

پرندوں میں عقاب ، اُ لو اور پہاڑی کوؤں کے علاوہ نقل مکانی کرکے آنے والے پرندے بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو کہ سال کا کچھ حصہ یہاں گزار کر واپس چلے جاتے ہیں ۔

یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔

کوسٹل ہائی وے کا ایک بڑا حصہ ہنگول نیشنل پارک کے بلند پہاڑوں کو کاٹ کر تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس کے ایک طرف ریگستان دوسری طرف سمندر اور تیسری طرف بلند وبالا پہا ڑ موجود ہیں ،یہ منظرآنکھو ں کو بڑا دلکش لگتا ہے ۔

مکران کوسٹل ہائی وے مشرف کے دورِ حکومت میں بنائی گئی جو 653کلو میٹر طویل شاہراہ ہے ، اس سے پہلے کراچی سے بلوچستان کا سفر بہت دشوار تھا اور لوگوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کر نا پڑتا تھا ۔

پہلے دو تین دن لگتے تھے مگر اب یہ سفر چھ سے سات گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے ۔یہ شاہراہ بننے کے بعد بلو چستان کی ترقی کی اہم وجہ بنی ہے جس کی وجہ سے سیاح اور کاروباری لوگ ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔

یہ اب مکمل طور پر پر امن علاقہ بن گیا ہے ۔کچھ لوگ موٹر سائیکلوں پر جاتے ہیں اور کچھ اپنی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ۔

مکران روڈ کو پہاڑیاں کاٹ کر بنا یا گیا ہے ۔ بلوچستان اب پر امن علاقہ بن چکا ہے ۔ یہاں ڈرائیو کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ۔

دریائے ہنگول
کوسٹل ہائی وے کا ایک سو نو کلو میٹر کا حصہ یہاں سے ہوکرگزرتا ہےجبکہ یہاں جو ساحل سمندر ہے اس کا رقبہ بھی ایک سو نو کلومیٹر طویل ہے۔

350 میل لمبا یہ دریا بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے۔ ہنگول نیشنل پارک میں واقع اس دریا میں سارا سال پانی رہتا ہے۔

اس علاقے کے مشہور پہاڑوں میں ’قندھا ‘ سرفہرست ہے جبکہ ’مڈھ بولڈکینو‘نامی علاقہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے ۔یہ ارضیاتی ماہرین کی تحقیق کوبھی دعوت دیتا ہے ۔


دریائے ہنگول کی مقامی آبادی کا ذریعہ معاش مال مویشی ہے ۔ یہاں کے لوگ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارتے ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں میں آنےوالے لوگوں کو بڑی حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اگر حکومت تھوڑی سی توجہ دے تو یہاں کے لوگ بھی سیاحت کی وجہ سے خو شحال ہو سکتے ہیں ۔
ہنگول پارک اپنے دامن میں کئی قدیمی آثار بھی سموئے ہوئے ہے ۔

نانی مندر
یہاں ہندو مت کی ایک قدیم عبادت گاہ نا نی مندر مو جود ہے جہاں بھارت اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہندو پوجا پاٹھ کے لیے آتے ہیں ۔

یہ مندر ہزاروں سال پرانا ہے جبکہ ہر سال اپریل کے مہینے میں یہاں میلہ لگتا ہے جس میں دور دراز کے لو گ شرکت کے لیے آتے ہیں ۔

نانی مندر کا ذکر شاہ عبدا لطیف بھٹائی نے 350 سال قبل کیا تھا۔ اس بارے میں مشہور ہے کہ صوفی بزرگ کسی زمانے میں یہاں آئے تھے اور انہوں نے ہی اسے نانی مندر ‘ کا نام دیا تھا ۔

اس کے علاوہ اور بھی مندر یہاں موجود ہیں جن میں گنیش دیوا مندر، کالی ماتا مندر، گرو گورکھ ناتھ دانی مندر، براہم خود اور تیر خود مندر، گرا نانک کھارو وغیرہ شامل ہیں ۔

مختلف چھوٹے بڑے مندر دیکھتے ہوئے آگے کی طرف جائیں تو ایک بڑا مند ر آتا ہے جو ایک قدرتی غار میںبنا ہوا ہے ۔ غار 300 سے350 فٹ لمبی اور 150 فٹ چوڑی ہے ۔

یہ غار مٹی کا بنا ہوا ہے اور پوری دنیا سے لوگ یہاں آتے ہیں ۔ مندر کے حوالے سے ایک مہاراج نے دعویٰ کیا کہ یہ 2 لاکھ سال پرانا ہے اور اِس کے بنانے میں انسانی ہاتھ استعمال نہیں ہوا یعنی یہ مکمل طور پر قدرتی ہے۔

اس مندر میں سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور مندر کے اندرونی حصے میں ٹائل بھی لگے ہوئے ہیں ، اس میں دو مورتیاں رکھی ہوئی ہیںجن کے بارے میں ہندو یاتریوں کا کہنا ہےکہ ’یہ انسانوں نے نہیں بنائے بلکہ ماتا خود اپنے ساتھ لیکر آسمان سے اُتری تھیں‘۔

قدیم قبریں
ہنگول نیشنل پارک کے دامن میں محمد بن قاسم کی فوج کے لشکر میں شامل سپاہیوں کی کئی قبریں بھی مو جو د ہیں ۔ 1300 سال قبل تعمیر کردہ یہ مقبرے آج بھی مو جود ہیں۔قبروں کے کتبوں پر کی گئی کندہ کاری بہت دلکش ہے ۔

محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں اگور کے مقام پر موجود ہیں ۔ ان کے کتبوں پر اس زمانے کی نقش و نگاری ہوئی ہے اور عمدہ عربی میں تحریریں بھی لکھی ہوئی ہیں ۔بغیر کسی مشین یا ڈائی کے ان پتھروں کو کاٹ کر ان پر خوب صورت تحریریں ہاتھ سے لکھی گئی تھیں جو آج کے جدید دور میں لوگوں کو حیرت میں مبتلا کرتی ہے ۔

 

تازہ ترین