• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعادت حسن منٹو11 مئی 1912کو لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔منٹو کےدوست اور سوانح نگار ابو سعید قریشی کے مطابق سعادت حسن بچپن ہی سے شرارتی تھے جو اپنے دوستوں کو چونکا دینے کے لیے غیر معمولی شرارتیں کیا کرتے تھے۔

لیکن اپنے گھر میں وہ ایک سہما ہوئے بچے تھے۔ سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے وہ اپنا آپ ظاہر نہیں کر سکتے تھے البتہ ان کی والدہ ان کی طرفداری کرتی تھیں۔ ان حالات میں سعادت حسن منٹو کو اپنی اصل شخصیت کے اظہار کا موقع اپنے علاقے کے گلی کوچوں میں ملتا۔

منٹوکو ابتدا ہی سےپڑھنے کا کچھ شوق نہیں تھا اسی لیے ان کا تعلیمی کیریئر بھی کچھ زیادہ اچھانہیں رہا ۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انھوں نے 1931ء میں امتحان پاس کر ہی لیا۔

ان کی سوچ اور زندگی میں ایک نیا باب اس وقت شروع ہوا جب 1933ء میں اکیس برس کی عمر میں امرتسر میں ہی ان کی ملاقات باری علیگ سے ہوئی جو اس وقت کے ایک معروف صحافی اور ادیب تھے۔ عبدالباری علیگ نے منٹو کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اپنے اندر کے ادیب کو پہچاننے اور روسی و فرانسیسی ادیبوں کو پڑھنے کا مشورہ دیا۔

منٹو نے شروع میں ترقی پسند نظریات کے حامل افسانے لکھے جس کے بعد ان کے اسلوب اور تخلیق میں مسلسل نکھار آتا گیا اور پھر ان کی ہر تحریر آنے والے وقت کا ادبی معیار بنتی گئی۔

منٹو کے شہرہٴ آفاق افسانوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں اور کالی شلوار جیسی بہت سی تخلیقات شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے، خاکے اور ڈرامے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

منٹو کے افسانے نہ صرف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں بلکہ ان کی سبھی تحریریں بشمول افسانے، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بےمثال حیثیت کے حامل ہیں۔

منٹو کی ادبی تخلیقات کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے دیکھی بھالی اور جانی پہچانی دنیا میں ہی ایک ایسی دنیا دریافت کی جسے لوگ اس قابل ہی نہیں سمجھتے اور یہ کہتے ہوئے کہ یہ گمراہ لوگوں کی دنیا ہے، ایسے لوگ کی بنائی ہوئی دنیاجو اپنے اصولوں پر چلتے تھےاوران میں اچھےلوگ بھی تھے اور برے بھی۔

یہ بھی پڑھیے:’جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو ‘

یہی لوگ منٹو کی تخلیقات کا موضوع بھی تھے۔ اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی تھی جسے نئی طرز کی افسانہ نگاری میں دیوار کی پہلی اینٹ قرار دیا گیا۔

سعادت حسن منٹو کے افسانے محض واقعاتی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میںافسانوں کےماحول اورکرداروں میں تیسری دنیا کے برےمعاشروں کی داستانیں بھی ہوتی تھیں۔

منٹو بر صغیر کی تقسیم کے بعد بھارت میں بمبئی سے پاکستان آ کر لاہور میں قیام پذیر ہو گئے تھے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال گذارے۔

کثرت شراب نوشی کی وجہ سے لاہور ہی میں ان کا انتقال 18جنوری 1955ء کو صرف 42سال کی عمر میں ہوا۔ یوں آج منٹو کو اس دنیا اور اپنے مداحوں سے رخصت ہوئے 63 برس ہو گئے ہیں۔

غالب کی طرح منٹو کی اصل پذیرائی بھی اس کی موت کے بعد شروع ہوئی اور جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، منٹو کے چاہنے والوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:"پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے"

ان کی تحریریں آج بھی دنیا کو اس عظیم مصنف کی باریک بین آنکھ اور ان کے خیالات و مشاہدات سے متعارف کراتی ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک دنیا میں اردو زبان لکھی، پڑھی اور بولی جاتی رہے گی۔

 

 

تازہ ترین